اترائی کا راستہ آسان ہوتا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 24 مئ 2020
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

اترائی کا راستہ آسان ہوتا ہے۔ اس لیے آپ اسے جلدی سے طے کر لیتے ہیں اور اگر آپ کے پاس ماہرین کی ٹیم ہو تو پھر آپ توقع سے بھی پہلے نیچے آچکے ہوتے ہیں ،راستے میں آپ کی ملاقات دوبارہ ان لوگوں سے ہوتی ہے کہ جب آپ بلندی کی طرف جا رہے تھے تو وہ آپ کو راستے میں ملتے تھے۔

اس لیے انتہائی سمجھ دار لوگ کہتے ہیں کہ جب آپ کا سفر بلندی کی طرف ہو تو راستے میں ملنے والوں سے اچھی طرح ملا کریں کیونکہ واپسی پر آپ کی ملاقات ان ہی لوگوں سے ہونی ہے اور وہ آپ کی واپسی پر آپ کا استقبال کیسے کریں گے۔

یہ آپ کے سابقہ رویے پر منحصر ہوتا ہے جب آپ کا سفر بلندی کی جانب ہو رہا ہوتا ہے تو اس وقت ماہرین کی ٹیم آپ کی ہم سفر نہیں ہوتی ہے لیکن جیسے ہی آپ بلندی پر پہنچتے ہیں تو یہ خدائی خدمت گار اچانک کہیں سے نمودار ہوکر آپ کو دبوچ لیتے ہیں اور وہ آپ کو ایسے ایسے سہانے خواب اور طریقے دکھاتے اور بتاتے ہیں کہ پھر آپ کو ان کی ایک منٹ کی جدائی بھی برداشت نہیں ہوتی ہے اور جب آپ بلندی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اترائی کے سفر سے آپ کو نفرت ہوچکی ہوتی ہے تو یہ ہی ماہرین کی ٹیم آپ سے ایسے ایسے کارنامے کرواتی ہے کہ پھر اترائی کا سفر ناگزیر ہو جاتا ہے اور اترائی میں اور آسانی کے لیے ماہرین کی ٹیم پھر آپ کو وہ وہ طریقے بتاتی رہتی ہے جس سے آپ پہلے واقف ہی نہیں ہوئے ہوتے ہیں۔

اس کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ اترنے والوں کو اور آسانی ہو جاتی ہے اور انھیں نیچے دیکھنے والوں کی خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے اس لیے سفر کے اختتام پر ماہرین کی ٹیم خوب داد و تحسین وصول کر رہی ہوتی ہے۔

ہمارے حکمرانوں کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی رہی ہے وہ بلندی پر پہنچنے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلتے ہیں ،خوشامدیں کرتے ہیں خوب وعدے اور دعوے کرتے ہیں ہر قسم کے جتن کرتے ہیں منتیں پر منتیں کرتے ہیں اور آخر کار بڑی ہی مشکل سے بلندی پر پہنچ ہی جاتے ہیں اور جیسے ہی وہ بلندی پر پہنچتے ہیں تو وہ پہلا کام نیچے دیکھنا ترک کردیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس خیال میں مدہوش ہو جاتے ہیں کہ اب انھیں یہاں سے کوئی بھی نہیں نکال سکتا ہے۔ اب ہمیں ہمیشہ ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور نیچے کبھی بھی نہیں جانا ہے۔ اس لیے خوب مزے کرو خوب عیاشیاں کرو خوب لوٹ کھسوٹ کرو اور نیچے کبھی مت دیکھو اور پھر وہ بلندی کے غرور و تکبر میں غرق ہو جاتے ہیں اور جب وہ بلندی کے غرور و تکبر میں غرق ہو جاتے ہیں تو پھر ان کی واپسی کے سفر کا سامان بندھنا شروع ہو جاتا ہے۔

چھٹی صدی ق م میں سولن نے کہا تھا شان و شوکت بڑی آسانی سے بدکاری کی طرف راغب کرتی ہے۔ اقبال مندی بذات خود مہلک ہے اور یہ کہ اقبال مندی تکبر کی وجہ بنتی ہے جیساکہ Heraclitus نے متنبہ کیا کہ تکبر آگ سے بھی زیادہ تباہ و برباد کرنے والی چیز ہے کیونکہ اس کے بعد تباہی کا آنا لازم ہے۔ ہیروڈوٹس کے فلسفے کا بہت بڑا حصہ اس نظریے کے گرد گھومتا ہے کہ تمام خوشیاں اور تمام خوشحالی غیر محفوظ ہے۔ یونانیوں کے نزدیک تکبر بھیانک خیال لاتا ہے۔ اسکائی لس کہا کرتا تھا کہ یہ دنیا بھوت پریت سے بھری پڑی ہے۔

ہیروڈوٹس نے ساموس کے بادشاہ پولی کریٹ جس نے 540 ق م تک حکومت کی تباہی کا سبب Excessive Power قرار دیا ہے اس وقت بھی یہ نظریہ عام تھا کہ انسانی معاملات کی گردش ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتی۔ لیڈیا کے بادشاہ کروسس کے زوال کا واقعہ تاریخ میں بار بار ملتا ہے جو دیوتاؤں کے حضور نذر و نیاز پیش کرنے میں مشہور تھا، اس نے اپنے فاتح ایرانی بادشاہ سائیرس کو کہا تھا ’’اگر تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم اور تمہارے ماتحت فوجی دستے محض انسان ہیں تو یاد رکھنا انسانی زندگی گھومنے والا پہیہ ہے اور وہ انسانی اقبال مندی کو زیادہ دیر تک جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا‘‘ یہ ہی وہ سچائیاں ہیں۔

جنھیں حکمرانوں کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے بلندی پر پہنچنے والے ان ہی سچائیوں کو سب سے زیادہ غیر ضروری سمجھ کر بلندی سے پہلی ہی فرصت میں پھینک دیتے ہیں۔ اترائی کے وقت ان کی ملاقات سب سے پہلے ان ہی سچائیوں سے ہوتی ہے جنھیں دیکھ کر وہ بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتے ہیں لیکن اس وقت ان کے پاس آنسوؤں کے علاوہ اور کچھ باقی ہی نہیں بچتا ہے۔ یاد رکھیں یہی قدرت کا قانون ہے اور قدرت کے قانون کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ پندرا کہا کرتا تھا ’’قانون سب سے بڑا بادشاہ ہوتا ہے‘‘ یہ بادشاہ کبھی نہیں بدلتا ہے۔ ہم سب بدل جاتے ہیں ۔

کاش ! ہمارے حکمران بلندی پر جانے سے پہلے انسانی تاریخ کا مطالعہ ضرور کرلیا کریں تو وہ حادثات، سانحات، ناگہانیوں اور انہونیوں سے محفوظ رہ سکیں گے اور ساتھ ہی ساتھ باتوں کی تکرار سے بھی محفوظ رہیں گے، لیکن کیا کریں ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہمارے حکمرانوں کا حال دیکھ کر عظیم شاعر الیگزینڈر پوپ کی بات بار بار یاد آجاتی ہے کہ ’’فرشتے جہاں چلتے ہوئے ڈرتے ہیں احمق وہاں دوڑتا ہے‘‘ فلسفی حاکم ایک قدیم یہودی مقولہ پیش کرنے کا شوقین تھا کہ ’’حماقت کا کوئی اقدام چاہے وہ کامیابی سے ہم کنار ہو جائے حماقت ہی رہتا ہے‘‘ دی لائف آف ریزن میں جارج سانتایانہ لکھتا ہے کہ جو لوگ ماضی یاد نہیں رکھ سکتے انھیں اس کو دہرانے کی سزا دی جاتی ہے۔

جب حضرت عیسیٰ کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تمثیلیں کیوں بیان کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا اس لیے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی لوگ نہیں دیکھتے کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے اور عقل رکھتے ہوئے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس لیے آئیں بے کار کی باتیں چھوڑیں اور اترائی کا منظر دیکھ کر اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ماہرین کی ٹیم کو مل کر خوب داد دینے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔