بعید نہیں بھوک حدِ کفر تک جا پہنچے

شاہد سردار  اتوار 24 مئ 2020

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وقت، دولت، اختیار، شہرت کے حصول کے بعد لوگوں کو بدلتے اور انھیں نئے روپ دھارتے دیکھا گیا ہے، تعلق یا رشتوں کو اناؤں کے تصادم میں ٹوٹتے اور بکھرتے بھی چشم فلک نے دیکھا ہے۔ مرجھاتے پھول، درختوں سے گرتے خزاں رسیدہ پتے اور فطرت و قدرت کے ان گنت مظاہر ہمیں یہ راز سمجھاتے اور پیغام دیتے ہیں کہ دنیا میں کسی شے کو بھی بقا نہیں، کسی کو دوام نہیں یہی زندگی کی فطرت اور یہی کائنات کا راز ہے۔

دنیائے کرکٹ میں جاوید میاں داد اور عمران خان کا نام اور مقام کسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن ان کا کریئر انتہائی عروج پر پہنچ کر تمام ہو گیا۔ وقت نے عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم اور جاوید میاں داد کو دولت کے انبار کے باوجود ایک درویش بنا دیا۔ حال ہی میں جاوید میاں داد کی درود تاج پڑھنے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس خلوص اور دردِ دل کے ساتھ وہ درود پاک پڑھ رہے تھے، یوں لگتا تھا کہ ان کے دل کا تعلق اب دنیا سے نہیں بلکہ کہیں اور اٹکا ہوا ہے۔ لیکن پھر جاوید میاں داد کا پاکستان کا قرض اتارنے کا اعلان اس بات کی نفی بھی کر رہا ہے۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ وہ روحانی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں۔ سادہ سی شلوار قمیض اور چپل میں اکثر وہ مزارات اور بزرگان دین کے قریب دیکھے جاتے ہیں۔

داتا دربار لاہور میں ایک روز ایک فقیر نے ان کا دامن پکڑ کر کہا تھا کہ میرے کفن دفن کا انتظام تم نے کرنا ہے اور میرا مزار بھی تم نے شیر گڑھ میں بنوانا ہے۔ میاں داد کو بعدازاں اطلاع ملی کہ وہ فقیر شیر گڑھ میں ہی دفن ہوا اور مجاور کو کہہ گیا کہ ایک روز جاوید میاں داد آئے گا اور میری قبر بنوائے گا۔ اور جاوید میاں داد یہ فریضہ انجام دے بھی آئے۔ اسی طرح ایک فیملی کے اسپیشل بچے نے بھی ان کی خصوصی توجہ حاصل کی اور میاں داد نے کسی نامانوس زبان میں اس بچے سے پندرہ بیس منٹ گفتگو بھی کی۔ پاکستان کے ایک سینئر اور معتبر صحافی اس موقع کے عینی شاہد ہیں انھوں نے میاں داد سے پوچھا ’’آپ ان سے کون سی گفتگو کر رہے ہیں؟‘‘ میاں داد نے کہا ’’جناب دنیا کو یہی روحانی لوگ ہی چلا رہے ہیں۔‘‘

واقعی اس بات میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ بزرگان دین، قلندر، درویش، ولی، فقیر، ابدال اور قطب خدا کی طرف سے مقرر کردہ ہوتے ہیں اور یہی باطنی طور پر اس دنیا کے نظام و امور کو چلا رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں وہ دکھائی نہیں دیتے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب دنیا میں جنگ، وبا، آفات یا معاشی زوال آتا ہے تو دو طرح کے رویے پیدا ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ مکمل طور پر مطلب پرست بن جاتے ہیں اور دنیا داری کے ہی ہوکر رہ جاتے ہیں، سماجی کھینچا تانی بڑھ جاتی ہے اور انارکی اور بے اطمینانی کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ جب کہ دوسری طرح کا جو رویہ پیدا ہوتا ہے وہ دنیا سے بے زاری اور مال و دولت پر بے اعتباری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور معاشی افراتفری کے زمانے میں ہی ہمیشہ جوگی، ملنگ، درویش اور قلندر مقبول عام ہوتے آئے ہیں۔

جاوید میاں داد کی کرکٹ کے بعد روحانیت کی طرف رغبت کیوں کر اور کیسے ہوئی اس کا تو ہمیں علم نہیں لیکن وہ باقاعدگی سے کراچی سے باہر مقیم ایک درویش کے پاس تسلسل سے حاضری دیتے اور ان سے فیض حاصل کرتے ہیں۔

میاں داد اپنے دور کرکٹ میں مشکل میں پھنسی اپنی ٹیم کو اپنی بلے بازی سے بچایا کرتے تھے۔ اس وقت پوری قوم کورونا اور حد درجہ بے روزگاری، غربت و افلاس میں دھنسی ہوئی ہے، ان کے ہم عصر اور ساتھی عمران خان بطور وزیر اعظم اپنے تئیں زور لگا رہے ہیں لیکن ان کا زور چل نہیں رہا، لہٰذا جاوید میاں داد اپنے ’’درویش باصفا‘‘ سے ہی کوئی نسخہ لے کر قوم کو بھجوائیں تاکہ ہم عامیوں کی زندگی محفوظ و مامون ہوسکے۔ جاوید میاں داد چاہے دنیا تیاگ کر جوگ اختیار کریں یا صوفی کا راستہ اختیار کرلیں لوگ ان کی ذات سے اب بھی عقیدت و دلچسپی رکھتے ہیں۔

ہماری دانست میں میاں داد نے پاکستان کا قرض اتارنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے وہ لائق تحسین تو ہے مگر وہ ایسا نہ کریں تو بہتر ہوگا کیونکہ اس سے قبل نواز شریف بھی قرض اتارو ملک سنوارو کے سلوگن پر قوم سے چندہ لے کر کسی بے نامی اکاؤنٹ میں اسے منتقل کرچکے ہیں۔

اس لیے میاں داد پاکستان کا قرض اتارنے کا کوئی دوسرا ہی طریقہ اختیار کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس لیے بھی کہ سیدھا راستہ ہی سچا راستہ ہوتا ہے لیکن اس پر بھی اگر لیٹ جاؤ تو لوگ اوپر سے گزر جائیں گے اور یہ بھی کہ زندگی میں کچھ بھی سو فیصد غلط یا سو فیصد صحیح نہیں ہوتا، اور یہ بھی کہ ماضی کی غلطی مستقبل کا مذاق ثابت ہوتی ہے۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کچھ لوگوں کو برسوں زندہ رہنے کی پریکٹس کے باوجود بھی زندہ رہنا نہیں آتا اور باشعور انسان ایک سے زیادہ زندگیاں جی لیتا ہے کیونکہ یہ فیصلہ انسان ہی نے کرنا ہوتا ہے کہ خود اپنے دماغ کا آقا بن کر جینا ہے یا غلام۔ ویسے بھی اکثر وہ سب کچھ ہمارے اندر موجود ہوتا ہے جسے ہم باہر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔

عمران خان اپنے دو سالہ دور حکومت میں ایک عام آدمی کو کچھ نہ دے سکے لیکن لاکھوں عام آدمیوں سے بہت کچھ چھن گیا جن میں ان کا چین اور روزگار بھی شامل ہے۔جاوید میاں داد اور عمران خان اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دنیا کی 50 فیصد دولت ایک فیصد سے بھی کم لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور دنیا کے نصف وسائل اور دولت پر 62 ارب پتی خاندانوں کا قبضہ ہے، جن کے اثاثوں میں ہر سال کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے جب کہ دنیا کے کروڑوں غریب دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے 99 فیصد عوام غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ایک فیصد اشرافیہ طبقہ پاکستان کے وسائل پر قابض ہے۔

کورونا کی وجہ سے اب تک 2 کروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہو چکے ہیں اور بیرون ملک سے بھی بڑی تعداد میں بے روزگار پاکستانی وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان میں حکام اور اشرافیہ کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ عام آدمی قانون کو ہاتھ میں نہ لینے لگیں۔ دولت مند ہونا ہمارے نزدیک کوئی برائی نہیں لیکن اگر دولت غریبوں کے حق حقوق پر ڈاکہ ڈال کر بنائی جائے تو ہم اس نظام کے خلاف ہیں۔ ہمارے ملک اور اس کے بد نصیب عوام کی بدقسمتی کہہ لیں کہ برسہا برس سے ان کے حقوق پر شب خون مارا جا رہا ہے۔

یہ حضرات جان لیں کہ اس ملک کے عام لوگوں کی عزتیں تک داؤ پر لگ گئی ہیں اور عزتیں وہیں داؤ پر لگا کرتی ہیں جہاں محبتیں ہوں۔ ہمارے 99 فیصد غریب عوام کو اب بھی اپنے وطن سے محبت ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کو تو دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے کے سوا آج تک اور کچھ نہیں آیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔