خوف زدہ انڈیا

تصور حسین شہزاد  بدھ 27 مئ 2020
انڈیا کا ایک ہی ماٹو ہے کہ کمزور کے گلے پڑ جاؤ، طاقتور کے پاؤں پڑ جاؤ

انڈیا کا ایک ہی ماٹو ہے کہ کمزور کے گلے پڑ جاؤ، طاقتور کے پاؤں پڑ جاؤ

سیانے کہتے ہیں کہ من میں چور ہو تو ذرا سے کھٹکے سے بھی دل دہل جاتا ہے، بندہ ڈر جاتا ہے اور خوف طاری ہو جاتا ہے۔ آج کل ہمارا ہمسایہ انڈیا ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے، بلکہ بری طرح خوف سے دوچار ہے۔ انڈیا کے اپنے مَن میں چور ہے، انڈیا پاکستان کے خلاف مسلسل سازشیں کرتا رہتا ہے، کبھی ایل او سی کی خلاف ورزی تو کبھی پاکستان پر دراندازی کا بلاجواز الزام لگا دیتا ہے۔ انڈیا اکثر اپنی خامیاں چھپانے کےلیے ملبہ پاکستان پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کےلیے ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔

انڈیا کے دل میں دو قسم کے چور ہیں: ایک انڈیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم؛ اور دوسرا پاکستان میں بھارتی دراندازی۔ جہاں تک انڈیا کے اندر کی صورتحال کی بات ہے تو اس میں اسرائیلی مشوروں سے مقبوضہ کشمیر اور ایل او سی پر ہونے والی جارحیت اہم ہے۔ انڈیا مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ توڑ رہا ہے، ان کے ردعمل میں وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ضرور بدلہ لے گا۔ مسلمانوں پر چونکہ بلاجواز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، انہیں بے جرم قتل کیا جا رہا ہے، گھروں اور دیگر املاک کو نذرآتش کیا جا رہا ہے، اس لیے اسے خوف دامن گیر رہتا ہے۔

اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بھی اسے پریشان رکھتے ہیں۔ ظالم کو کبھی چین کی نیند نہیں آتی، جو جتنا بڑا ظالم ہوتا ہے، اتنا ہی بڑا بزدل بھی ہوتا، اسی وجہ سے وہ اپنے خوف سے مجبور ہوکر مزید ظلم ڈھاتا ہے۔ پھر اس ظلم کے ردعمل سے خوفزدہ بھی رہتا ہے۔ آئے روز ایل او سی پر سول آبادی پر گولہ باری انڈیا کی عادت بن چکی ہے۔ اس کا بھی خوف بھی اسے چین نہیں لینے دیتا کہ کہیں پاکستان اس کا بدلہ لینے کےلیے انڈیا میں ہی نہ گھس آئے۔

اب گزشتہ روز ایک کبوتر کو بھارتی فوج نے پکڑ لیا۔ بے چارے بے زبان کبوتر پر یہ الزام ہے کہ وہ پاکستان کےلیے جاسوسی کرنے انڈیا آیا تھا۔ انڈیا کے متعدد ٹی وی چینلز نے اس خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا۔ پاکستان کے خلاف بے تکان پروپیگنڈا کیا گیا۔ اینکرز نے پاکستان کو لتاڑنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، یہ آتنک وادی (دہشت گرد) کبوتر پاکستان نے بھیجا ہے، پاکستان اپنی آتنک واد (دہشت گردی) سے باز نہیں آیا، وغیرہ۔ اسی طرح گزشتہ برس انڈین پنجاب کے علاقے میں ایک غبارہ گرا، جس پر پاکستان زندہ باد اور عید مبارک لکھا ہوا تھا، انڈین ٹی وی چینلز نے اس پر بھی شور مچا دیا کہ پاکستان کی جانب سے یہ آتنک وادی غبارہ انڈیا میں آیا ہے۔ ٹی وی چینلز پر کئی روز یہ خبر چلتی رہی۔

اب کبوتر کے ایشو کو بھی اسی طرح زور و شور سے اٹھایا جا رہا ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے خاصی دلچسپ بحث جاری ہے۔ انڈینز کی اکثریت پاکستان سے انتہا کی حد تک نفرت کرتی ہے، ان کی نفرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے۔

اتر پردیش کے شہر گورکھپور میں ایک خاتون ٹیچر کو اس لیے معطل کر دیا گیا کہ اس نے بچوں کو آن لائن کلاس پڑھاتے ہوئے ناؤن (اسم) کی چند مثالیں دیں جن میں پاکستان کا ذکر کیا گیا۔ پبلک اسکول کی ٹیچر شاداب خانم نے بچوں کو آن لائن پڑھاتے ہوئے مثال دیتے ہوئے لکھا: ’’پاکستان اِز آور ڈیئر ہوم لینڈ، آئی وِل جوائن پاکستان آرمی، منہاس واز آ بریو سولجر‘‘ جیسی مثالیں تھیں۔ ٹیچر کا موقف ہے کہ اس سے غلطی سے ایسا ہوگیا، وہ اس پر معافی بھی مانگ چکی ہیں، مگر اسکول انتظامیہ نے اس کی معافی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ خاتون ٹیچر کے بقول اس نے گوگل سے مثالیں تلاش کیں اور انہیں کاپی پیسٹ کردیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا ایشو بنا لیا جائے گا۔ یہ ردعمل اسکول انتظامیہ کا ہی نہیں تھا بلکہ بچوں کے والدین نے بھی اس پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

تو جو قوم پاکستان کا نام سننا تک پسند نہیں کرتی، جو پاکستان کی جانب سے آنے والے کبوتر اور غباروں سے بھی خوفزدہ ہو جاتی ہے، اس سے دوستی کیسے ہو سکتی ہے؟ سیانے کہتے ہیں بندے کی فطرت نہیں بدلتی، ہندو بنیے کی فطرت ہی ظلم ہے، اس کی فطرت ہے کہ اپنے سے کمزور کو دبا دو، اپنے سے طاقتور کی پوجا شروع کر دو۔ یہی روز اول سے یہ کرتے آ رہے ہیں۔ انڈیا میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں، جنہوں نے پاکستان کے ساتھ دوستی کےلیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش بھی کی اور اب بھی کر رہے ہیں، مگر نقار خانے میں تُوتی کی کون سنتا ہے۔

انڈیا کا خوف ہی اسے ظلم پر اکساتا ہے، انڈیا سے بہتر تعلقات کا ایک ہی حل ہے کہ اپنے آپ کو طاقتور بنا لو، یہ پوجا شروع کردے گا۔ اگر ہم نے اس کے سامنے کمزوری دکھائی تو یہ ہمیں دبا دے گا۔ انڈیا کا ایک ہی ماٹو ہے کہ کمزور کے گلے پڑ جاؤ، طاقتور کے پاؤں پڑ جاؤ، تو ہمیں انڈیا کو پاؤں میں رکھنے کےلیے خود کو طاقتور بنانا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تصور حسین شہزاد

تصور حسین شہزاد

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرچکے ہیں۔ آج کل لاہور کے ایک مقامی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور متواتر بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔