اشیاء کی بین الاقوامی نقل و حمل کیلئے فنانشل گارنٹی لازمی قرار دینے کا فیصلہ

ارشاد انصاری  منگل 26 مئ 2020

 اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2020-21 کے وفاقی بجٹ میں شپنگ کمپنیوں اورایجنٹس کیلئے ملک بھر سے سمندری بندرگاہوں کے ذریعے اشیاء کی بین الاقوامی نقل و حمل کیلئے فنانشل گارنٹی کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2020-21 کے وفاقی بجٹ میں شپنگ کمپنیوں اورایجنٹس کیلئے ملک بھر سے سمندری بندرگاہوں کے ذریعے اشیا کی بین الاقوامی نقل و حمل کیلئے فنانشل گارنٹی کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کیلئے کسٹمز رُولز 2001 میں ترامیم کی جارہی ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے موصول ہونیوالی آراء و تجاویز کی روشنی میں کسٹمز رولز 2001 میں ترامیم کے مسودہ کو حتمی شکل دیدی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ترمیمی رولز بجٹ سے قبل ہی نافذ کیا جانا تھے جس کیلئے رولز کا مسودہ تیار کرکے اسٹیک ہولڈرز کو بھجوایا گیا تھا اور اسٹیک ہولڈرز کی آراء موصول ہوچکی ہیں اور اس میں مزید کچھ ترامیم بھی متعارف کروائی جارہی ہیں جس کے بعد اسے فنانس بل کے ذریعئے بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیمی رولزکے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیوکی جانب سے کسٹمز رولز میں چھ مزید نئی شقیں شامل کی جارہی ہیں جس کے تحت شپنگ کمپنیوں اورشپنگ ایجنٹس کو بین الاقوامی نقل و حمل کی سہولیات حاصل کرنے کیلئے بندرگاہوں پر لائے جانے والے سامان کی بروقت ترسیل کو یقینی بنانے کیلئے فنانشل گارنٹی فراہم کرنا ہوگی اور اسی طرح ان ترمیمی کسٹمز رولز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے بونڈ بھی جمع کروانا ہونگے ۔

ترمیمی رولز میں تجویز کردہ رولز 510 کے تحت درآمدی سامان (کارگو) کی گیٹ وے پورٹ سے غیر ملکی پورٹ تک نقل و حمل کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی کسی بھی سمندی بندرگاہ سے انٹرنیشنل ٹرانسشپمنٹ کارگوکیلئے مجوزی پروسیجر اختیار کرنا ہوگا جس کے تحت کسی بھی شپنگ لائن اور شپنگ ایجنٹ کو کسٹمز کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں الیکٹرانیکلی آئی جی ایم و کیرئیر ڈکلیئریشن جمع کرواتے وقت یہ تمام معلومات فراہم کرنا ہونگی اور کسٹمز کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں دی جانیوالی مینیفسٹ (Manifest) میں شپنگ لائن و شپنگ ایجنٹ کو پورٹ آف لوڈنگ،پاکستان کے ٹرانسشپمنٹ پورٹ کا نام،اور جس بیرون ملک بندر گاہ پر سامان پہنچانا ہھے اس غیر ملکی بندرگاہ کا نام،اسی طرح بل آف لوڈنگ،غیر ملکی برآمد کنندہ کا نام اور غیر ملکی درآمد کننہ کا نام درج کرنا ہوگا اس کے علاوہ مجوزہ رول510 بی میں سنٹرلائزڈ کارگو کی نقل و حمل کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سنٹرلائزڈ کارگو کے تحت بین القوامی ٹرانسشپمنٹ کے تحت کنٹینرز کو ان لوڈ کرنے کیلئے اس پروسیجر پر عملدرآمد لازمی ہوگا خلاف ورزی پر کاروائی ہوگی۔

مجوزہ رول کے مطابق کنٹینرز پریوینٹو آفیسر کی موجودگی میں ان لوڈ کئے جائیں گے اور ان لوڈ کرنے کے بعد بین الاقوامی نقل و حمل کیلئے آنے والے یہ کنٹینرز سمندری بندرگاہ پر نوٹیفائی کردہ جگہ پر الگ الگ سٹور کئے جائیں گے اور پریوینٹو آفیسران کنٹینرز پر لگائی جانیوالی شپر کی سیل کا معائنہ کرے گا اور اگرکسی کنٹینر کی کوئی سیل ٹوٹی ہوئی پائی جائے گی تو اس کا فوری معائنہ کیا جائے اور کسٹمز اپنی سیل لگا کرکسٹوڈین کی موجودگی میں وہ کنٹینر فوری ریلیز کیا جائےگا اور اسکا ریکارڈ بھی رکھا جائے گا اس کے علاوہ بونڈڈ ایریا سے باہرکسی ایک جہاز سے اتارا گیا سامان کسی طور پر بھی کسی دوسرے جہاز پر لوڈ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جبکہ اشیا کی سیکورٹی اورمحفوظ سٹوریج ٹرمینل آپریٹر کی ذمہ داری ہوگی اوراگرکوئی سامان چوری ہوجاتا ہے یا اس میں کمی آتی ہے تواس صورت میں اس سامان پر ڈیوٹی و ٹیکسوں کی رقم ٹرمینل آپریٹر کو ادا کرنا ہوگی ۔

کنٹینر کے مالک کو اشیاءکا نقصان پورا کرنے کیلئے ذرتلافی فراہم کرنا بھی ٹرمینل آپریٹر کی ذمہ داری ہوگی جبکہ بیرون ممالک بھجوانے کیلئے سمندری بندرگاہ پر اسٹورکئے گئے سامان کی نقل و حمل کیلئے بیرون ملک سامان لے جانے والے جہاز کے مالک، اسکے مجازایجنٹ اور نان ویسل آپریٹنگ کامن کیریئر(این وی او سی سی) کوپاکستان کسٹمز کمپیوٹرائزڈسسٹم برائے انٹرنیشنل ٹرانسشپمنٹ میں آن لائن الیکٹرانیکلی ڈکلیریشن جمع کروانا ہوگا اور اس آن لائن ڈکلیئریشن میں کنسائنمنٹ کی مکمل تفصیلات شامل ہونگی جس میں انوائس،پیکنگ لسٹ، بل آف لیڈنگ سمیت دیگر مطلوبہ دستاویزات شامل ہوں گی۔

مجوزہ رولز میں مزید کہا گیا ہے جب تک سسٹم الیکٹرانیکلی سامان لوڈ کرنے کی اجازت نہیں دے گا اس وقت تک کوئی اشیاءبین الاقوامی نقل و حمل کیلئے کسی جہاز پر لوڈ نہیں کی جاسکیں گی رولز میں مزید بتایا گیا ہے کہ جہاز کے برتھ پر لگنے کے بعد سے تیس دن کے اندر اندر سامان کو بین الاقوامی نقل و حمل کیلئے لے جانا ہوگا اور اگر کوئی ممنوعہ اشیاءبین الاقوامی نقل و حمل کیلئے لائی جائیں گی تو ان اشیاءکو ضبط کرلیا جائےگا اور کلکٹر کسٹمز کی منظوری کے بعد ان اشیاءکی نیلامی کردی جائے گی اور سامان کی جہاز پر لوڈنگ کی الیکٹرانیکلی اجازت ملنے کے بعد کسٹمز حکام کی نگرانی میں سامان جہاز پر لوڈ ہوگا اس کے علاوہ رولز میں اور سائزِبلک اور بریک بلک کارگو کی انٹرنیشنل ٹرانسشپمنٹ کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔

مجوزہ رولز میں رول 510 ڈی کے ذریعئے اشیاء کی نقل و حمل کیلئے شپنگ لائن اورانکے ایجنٹس کو فنانشل گارنٹی بھی جمع کروانا ہوگی اس رول کے تحت شپنگ لائن و ایجنٹس کو ان اشیاءپر عائد ڈیوٹی و ٹیکسوں کی رقم کے برابر فنانشل گارنٹی فراہم کرنا ہوگی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ جہاز کے لنگر انداز ہونے کے بعد تیس دن کے اندر اندر اشیاءکی بیرون ملک روانہ کردیا جائے گا اوراگرخلاف ورزی کی جائے گی یا شپنگ لائن کی جانب سے انٹرنیشنل ٹرانسشپمنٹ فسیلیٹی کا غلط استعمال کیا جائےگا تو اس صورت میں فنانشل گارنٹی کیش کروالی جائے گی اور اگر بین الاقوامی نقل و حمل کیلئے سمندری بندرگاہ پر لائی جانیوالی اشیاءکے بندرگاہ پر آنے اور سٹور ہونے کےتیس کے اندر اندر نقل وحمل کی درخواست نہیں آتی تو اس صورت میں شپنگ لائن اور ایجنٹ کو نوٹس جاری کیا جائے گا یہ نوٹس انکی جانب سے دستاویز میں دیئے جانے والے پتے پر بھجوائے جائیں گے اور اگراس کے باوجود بھی کوئی کاروائی نہیں ہوتی اوربندرگاہ پر لائی جانیوالی اشیاء اگر60 دن تک سٹور میں پڑی رہتی ہیں تو 60 دن کے بعد یہ اشیاء نیلام کردی جائیں گی۔

اس کے علاوہ ایک شق 510 ای بھی شامل کی گئی ہے جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ شپنگ لائن و ایجنٹس کو کسٹمز رولز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اور اشیاءکی جلد ازجلد بندرگاہ سے کلیئرنس کیلیئے بونڈ بھی جمع کروانا ہوگا اور اگر کوئی شپنگ لائن و ایجنٹ جلد ازجلد سامان کی نقل و حرکت چاہتا ہے تو اسے کلکٹر کو تحریری طورپرہدایات جاری کرنا ہونگی اس کے علاوہ رول 510 میں کہا گیا ہے کہ اسلحہ ،گولا بارود، دھماکہ خیز مواد،ریڈیو ایکٹو میٹریل،نیوکلئیروبیالوجیکل ہتھیاروں سے متعلقہ ٹیکنالوجیز پر مبنی اشیاء سمیت یو این ایس سی کی عائد کردہ پابندیوں کے تحت ممنوعہ قرار دی جانیوالی اشیاء کی بین الاقوامی نقل و حمل کی اجازت نہیں ہوگی اور خلاف ورزی پر ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔