کسان نامی اقلیت

ندیم اکرم جسپال  جمعرات 28 مئ 2020
حکومت ہو یا میڈیا، کسی کو بھی کاشتکار کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حکومت ہو یا میڈیا، کسی کو بھی کاشتکار کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آٹا اور چینی کا بحران ابھی خبروں میں ہی تھا کہ نئے بحرانوں نے سر اٹھا لیا ہے۔ ڈیزل کی شدید قلت اور گندم کی کم قیمت اور اس سے جنم لینے والے مسائل کسانوں کےلیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ ریاست کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ وزیر باتدبیر آٹا چینی بحران کے ذمے داروں کو عبرت کا نشان بنانے کی نوید سنا رہے ہیں۔ ابھی وہ حتمی رپورٹ منظر عام پر آئی بھی نہیں کہ گندم کا ذخیرہ اور ڈیزل کی قلت شروع ہوگئی ہے۔ یعنی سرکار کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ ’’تم سے نہ ہوپائے گا‘‘۔

یہ دونوں کام ایسے موسم میں ہورہے ہیں جب کسانوں کی سال بھر کی محنت کا صلہ انہیں ملتا ہے۔ ڈیزل کی قلت سے گندم کی فصل کی کٹائی کا عمل شدید متاثر ہوا ہے۔ کتنی ہی فصل صرف ڈیزل کی کمی کے باعث کھیتوں میں پڑی ضائع ہوئی ہے اور کتنی بارش کی نذر ہوگئی۔ مگر ستم دیکھیے، کہیں سے کوئی ایک آواز نہیں آتی کہ اس ملک کو اناج مہیا کرنے والے کسان کے اپنے بچے اس سال کیسے گزارا کریں گے۔ سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی یاد آتے ہیں

انہاں دے بال ساری رات روندن، بھک تو سمدے نہیں
جنہاں دی کئیں دے بالاں کو کھڈیندیاں شام تھی ویندی

ان ہی کسانوں کے ووٹوں پر آنے والے منتخب نمائندے بھی چپ ہیں، میڈیا بھی لاغرض ہے، جیسے کسان کے مسائل پاکستان کے مسائل ہی نہیں۔ اشرافیہ اور صعنتکاروں کے مسائل پر گھنٹوں مناظرے کرنے اور کرانے والے میڈیا کو بیچارے کسان کےلیے چند منٹ بھی میسر نہیں۔ ستم بالائے ستم جب بیساکھ (کٹائی کا موسم) میں کسان بادل دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے تب میڈیا پر ’’خوشگوار موسم‘‘ کی خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔ یعنی کسی کا بھی کاشتکار کے مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں۔

میڈیا کے تو خیر اپنے مفادات اور مجبوریاں ہوتی ہیں، عوامی نمائندوں کو کبھی توفیق نہ ہوئی کہ دو جملے غریب کسان کےلیے بول دیں۔ عجیب جمہوریت ہے جہاں حقیقی جمہور کا کوئی نمائندہ کسی اسمبلی میں موجود نہیں۔ اس ملک میں جہاں مذہبی اقلیتوں کے نمائندے ہیں، خواتین اور علما مخصوص نشتوں پر براجمان ہیں، وہاں نمائندگی نہیں تو صرف کسان کی نہیں۔ یہاں کسان اور جاگیردار میں فرق کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ گجرات کے چوہدری یا جہانگیر ترین، دوست مزاری یا اویس لغاری کو کسانوں کے نمائندے سمجھتے ہیں تو آپ کو نمائندگی کو از سر نو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مزدور یونین کا نمائندہ مزدور ہوتا ہے، مذہبی جماعت کا نمائندہ کوئی رند نہیں ہوتا اور اقلیت کا نمائندہ ان ہی میں سے ہوتا ہے۔ مگر محض کسان کا نمائندہ ایسا ہے جو ووٹ مانگنے پراڈو پر آتا ہے جبکہ غریب کسان آج بھی پرانی اسکوٹر پر ڈیزل کےلیے خوار ہورہا ہے۔ اس نظام کے وارث کسان کو ایک معاشرتی اکائی کیا، اقلیت سمجھنے کو بھی تیار نہیں۔

ہر حکومت میں کسانوں کے ساتھ ایسی ایسی واردات ڈالی گئی کہ خدا کی پناہ۔ پچھلی حکومتوں میں جب خود ساختہ شیر شاہ سوری برادران حکمران تھے، تب موٹروے اور سڑکوں کے جال کے بڑے چرچے تھے۔ پورا الیکشن ’’سڑک‘‘ پر لڑا گیا۔ مگر ان موٹرویز نے بھی کسان کا استحصال ہی کیا ہے۔ جب صنعتکاروں کا مال فراٹے بھرتی گاڑی پر موٹروے سے گزرتا ہے تو موٹروے کے ساتھ خستہ حال سڑک پر پرانی سی ہچکولے کھاتی ٹرالی کسان کے نصیبوں کو شہر تک لے جاتی ہے۔ لاہور سے اسلام آباد 350 کلومیٹر میں موٹروے کے ساتھ ایک بھی سڑک سفر کرنے کے قابل نہیں۔ بعض تو ایسی مثالیں بھی ہیں کہ 150 کلومیٹر تک دریا پر کوئی پل ہی نہیں۔ دریائے جہلم پر منڈی بہاؤالدین سے شاہ پور (خوشاب) تک 160 کلومیٹر میں موٹروے کے علاوہ کوئی پل نہیں۔ ایسے میں کسان کو موٹروے کا کیا فائدہ؟ جب بھیرہ سروس ایریا کھڑے ہوکر آپ ودیشی برگر کی دکان سے برگر کھا رہے ہوتے ہیں تب دریائے جہلم پار کرنے کےلیے مزدور اور کسان بیڑی (کشتی) میں بیٹھے، دہائیوں پہلے کی طرح سفر کرتے ہیں۔ موٹرویز کا مقصد بھی اشرافیہ کی خوشنودی تھا، جو عوام کی بھلائی مطلوب ہوتی تو پورے ملک کےلیے اناج پیدا کرنے والوں کے ساتھ یہ سلوک نہ روا رکھا جاتا۔

کسان اس ملک کی واحد لاوارث اقلیت ہیں، جو ستر برس پہلے بھی پسماندہ تھے، اور آج بھی پسماندہ ترین۔ ستر برس پہلے بھی بے زبان تھے، آج بھی بے زبان ہیں۔ ستر سال سے پستے چلے آرہے ہیں اور نہ جانے کب تک پستے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندیم اکرم جسپال

ندیم اکرم جسپال

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے انتظامی امور میں ماسٹر ڈگری حاصل کرکے ایک غیر سرکاری ادارے میں بطور ہیومن ریسورس پروفیشنل کام کررہے ہیں۔ لکھنے کا آغاز فقط شوق کی تسکین کےلیے چند سال قبل سوشل میڈیا سے کیا تھا، اور قوی امید ہے کہ یہ شوق مستقبل قریب میں پیشے کی شکل اختیار کرلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔