صحافت کےلیے فواد چوہدری ماڈل

خرم شہزاد  جمعرات 28 مئ 2020
فواد چوہدری ماڈل وقت کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

فواد چوہدری ماڈل وقت کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستانی صحافت میں پچھلے دنوں دو بڑے واقعات ہوئے۔ اول الذکر میں وزیراعظم پاکستان نے صحافیوں کو کورونا کی موجودہ صورت حال پر بریفنگ کےلیے بلایا تھا اور دوسرے واقعے میں مولانا طارق جمیل نے میڈیا کےلیے یہ کہا کہ یہاں جھوٹ بولا جاتا ہے۔ یہ دونوں واقعات ہماری صحافت کے اس سال کے یادگار واقعات میں شمار کیے جائیں گے، اگر صحافیوں کی طرف سے سال کے رہ جانے والے دنوں میں کوئی نیا چاند نہ چڑھایا گیا۔

صحافتی اصول جو نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں، ان پر کیا ہی بات کی جائے کہ کئی ایسے بھی صاحبان ان واقعات میں پیش پیش تھے جنہوں نے صحافت پڑھی ہی نہیں۔ اس لیے ان سے کسی بھی صحافتی اصول اور سبق کی پاسداری کی امید کرنا ویسے ہی ہے جیسے ایک گٹر نکالنے والے سے اچھے جوتے سلائی کرنے کی امید رکھنا۔ افسوس تو ان صحافیوں پر بھی ہوتا ہے جن کی ڈگریوں میں صحافت کی بھی ایک ڈگری رکھی ہوئی ہے لیکن لگتا ہے کہ انہیں بھی یہ ڈگری ماسٹر جی کی ذاتی خدمت گزاری کے سبب عطا ہوگئی تھی۔ یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب ریٹنگ کےلیے کیا گیا تھا تو بھی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ ایک صحافی جسے ملک کے وزیراعظم کی بریفنگ میں بیٹھے کا موقع ملتا ہے، سوال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اسے اس سے زیادہ ریٹنگ اور کیا چاہیے ہوگی؟

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مختلف صحافیوں کو کورونا کی موجودہ صورت حال پر بریفنگ کےلیے بلایا تھا۔ وہاں پر صحافیوں کی طرف سے کورونا کے علاوہ ہر طرح کے سوال پوچھے گئے۔ سوال پوچھنا کوئی بری بات نہیں، لیکن گفتگو کے بنیادی آداب میں سب سے پہلا ادب یہی ہوتا ہے کہ جس محفل میں موجود ہیں اس کا لحاظ کیا جائے اور اس کے بارے میں ہی بات کی جائے۔ تقریباً سبھی صحافی اس بنیادی ادب سے ناآشنا ہونے کا ثبوت دیتے رہے۔ اگر یہاں یہ کہہ دیا جائے کہ کئی تو حق نمک اور لفافوں کی قیمت چکاتے نظر آرہے تھے تو بہت سے لوگ اس بات سے بھی ناراض ہوجائیں گے لیکن بہرحال بات کچھ ایسی ہی تھی۔

خیر گفتگو کا دوسرا ادب یہ بھی ہوتا ہے کہ محفل میں جو بھی شریک ہے اس کے مقام اور مرتبے کا خیال کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان ہو یا کوئی اور شخص، جس سے آپ کے چاہے لاکھ اختلافات ہوں، لیکن جب وہ ایک عہدے پر موجود ہے تو آپ کی گفتگو میں اس عہدے کی عزت لازمی موجود ہونی چاہیے۔ بالکل جیسے پاکستان میں موجود ہزاروں صحافیوں میں سے چند سینئر صحافیوں کو دعوت دی گئی تھی تو ان کی سینیارٹی کا پاس رکھنا بھی میزبان کےلیے ضروری تھا، بجائے اس کے کہ میزبان اپنے ذہن میں انہیں دو ٹکے کے لوگ یا چند اشتہاروں کی مار سمجھتا ہو۔ افسوس کہ وزیراعظم پاکستان کی طرف سے تو ہر طرح کا لحاظ رکھا گیا لیکن صحافت کے بڑے نام اپنا بھرم نہ رکھ پائے۔ صدر پاکستان کے بعد وزیراعظم ملک کا سب سے بڑا عہدہ ہے اور اس شخص سے جس لہجے اور جس انداز میں بات کی جارہی تھی وہ حیران کن تھی۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ سب پڑھے لکھے اور سینئر صحافی ہیں بلکہ کسی نائی کی دکان پر بیٹھے لوگوں جیسا انداز تخاطب، الفاظ کا چناؤ اور استعمال یقیناً دنیا بھر میں دیکھنے والے صحافیوں کے سامنے ہمارے معیار صحافت کو کھولنے کےلیے کافی تھا۔
ایک اور بات جو ہمارے سینئر صحافیوں کو دیکھ کر پتہ چلی کہ وہ سب عمومی بریفنگ اور آن ایئر کے فرق کو بھی نہیں جانتے اور انہیں پتہ نہیں کہ ایک کمرے میں آف کیمرہ بریفنگ اور آن ایئر میں آپ کی باڈی لینگویج اور سوالات کس فرق سے کیے جاتے ہیں۔ ایک اور بات یہ بھی پتہ چلی کہ ہماری صحافت میں پاکستان کی شناخت اور بحران کے دنوں میں بھی کسی حکومتی کوشش میں ملک کا امیج بنانے جیسی کسی فضول بات کی کوئی جگہ نہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے کس سوال سے دنیا میں پاکستان اور حکومت پاکستان کی کیا تصویر بنے گی اور لوگ کیسے اور کس نظر سے ان کی کانفرنس کا جائزہ لے رہے ہوں گے؟ انہیں تو بس یہ پتہ ہے کہ میں نے وزیراعظم سے بڑے سخت سوال کیے اور میں نے سخت سوال کرتے ہوئے حق و سچ کا علم بلند کیا ہے۔ ان صحافیوںکو یہ بھی نہیں پتہ کہ کون سا سوال کب، کہاں اور کیسے کرنا ہے؟

افسوس کی بات یہ رہی کہ یہی سب وزیراعظم کی ٹیلی تھون میں مولانا طارق جمیل کے ساتھ بھی پیش آیا۔ آپ کو اگر ایک عالم کئی وجوہات کی وجہ سے پسند نہیں، تب بھی اس کے علم کے باعث لحاظ کرنا چاہیے تھا۔ اپنے ذاتی پروگراموں اور انٹرویوز میں یہ اعتراف کرتے ہوئے زبانیں سوکھتی ہیں کہ میڈیا تو دس فیصد بھی سچ سامنے نہیں لاتا، لیکن اگر وہی بات کوئی اور کہہ دے تو سب ڈندے سوٹے لے کر اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل سے بھی گفتگو کرتے ہوئے ہمارے سینئر صحافیوں کے لہجے اور انداز دیکھنے والے تھے۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ آن ایئر کی وجہ سے بس گالیاں دینے اور مولانا کو گریبان سے پکڑنا باقی ہے لیکن باقی کوئی کمی کسی نے چھوڑی نہیں۔ اسی ہتک آمیز رویے کی وجہ سے مولانا کو معافی مانگ کر اپنا دامن بچانا پڑا، لیکن کیا اس سے دنیا میں ہماری صحافت کا اجلا چہرہ نمایاں ہوا یا پھر اس چہرے پر آنے والی کمینی سی مسکراہٹ کا پتہ چلا جو اپنے کسی بھی مخالف کو زیر کرنے پر لازمی آہی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی صحافت اور صورت حال کا حل کیا ہے؟ تو میرے خیال سے بہترین حل فواد چوہدری پیش کرچکے ہیں۔ جب کسی کے لیے آپ کی عزت اور وقار کوئی معنی نہیں رکھتا اور صرف اپنے پروگرام اور چینل پر چند لائیک اور وویوز لینا آخری سوچ ہو، جس کےلیے کسی بھی حد تک گر جانا قبول ہو تو فواد چوہدری کی طرح آپ کو بھی اپنی جینیٹری سے تھوڑا باہر نکلنے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ کوئی وفا لکھتا رہے اور آپ جفا پڑھتے رہو، کوئی عزت دیتا رہے اور آپ اسی تھالی میں تھوک جانا اپنی شان سمجھنے لگو تو میرے خیال سے فواد چوہدری ماڈل وقت کی ضرورت بن جاتا ہے۔

عزت ایک حد تک راس ہوتی ہے، اس کے بعد کمزوری، بزدلی اور بے غیرتی شمار ہونے لگ جاتی ہے۔ جب کسی کو عزتوں کا پاس ہی نہ ہو تو آپ کتنا ہی سمجھا لیں، اسے سمجھ نہیں آسکتی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہماری صحافت خود کسی کی عزت و تکریم کی قائل ہوگی یا پھر لوگوں کو مجبوراً فواد چوہدری کی پیروی کرنی پڑے گی، لیکن اتنا پتہ ہے کہ حالات کو ایسے کسی نہج پر لے جانے کی ساری ذمے داری ہماری صحافی برادری کی ہوگی۔

اب صحافی اپنے کیمرے اور قلم کی طاقت کے غرور اور نشے میں رہنا پسند کرتے ہیں یا دوسروں کے وقار کا بھی خیال رکھتے ہیں، یہ وہی جانیں۔ لیکن نشہ ہرن کیسے ہوتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ اب وہ وقت آتا ہے یا ٹل جاتا ہے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ حل صرف یہی رہ جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔