بانجھ پن کا علاج ممکن ہے، لیکن کیسے؟

عموماً 10 سے 20 فیصد لڑکیاں شادی کے بعد ماں بننے کے حوالے سے پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں ۔  فوٹو : فائل

عموماً 10 سے 20 فیصد لڑکیاں شادی کے بعد ماں بننے کے حوالے سے پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں ۔ فوٹو : فائل

ہمارے معاشرے میں عام رواج ہے کہ شادی کے بعد بہت جلد خاندان کے لوگ مختلف قسم کے سوالات شروع کر دیتے ہیں۔ ہر ایک کو یہ فکر ہوتی ہے کہ نئے جوڑے کے ہاں بچے کی آمد کب ہوگی؟ عام طور پر80 فیصد سے زائد  لڑکیوں میں شادی کے ایک سال بعد ولادت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ 10 سے 20 فیصد لوگ جو ابتدائی طور پر اولاد کی نعمت سے محروم رہیں، سخت ذہنی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔ انھیں اذیت دینے میں سب سے زیادہ ہاتھ ان کے اپنے چاہنے والوں کا ہوتا ہے۔

گھر کے بزرگ خاص کر خواتین ہر وقت کے سوال و جواب اور مشورے سے ایسے جوڑوں کی زندگی اجیرن کر دیتی ہیں۔ ایک تو ان کااپنا احساس محرومی اور پھر لوگوں کے سوال و جواب انھیں جینے نہیں دیتے، یہ لوگ حد سے زیادہ ذہنی دباؤ اور اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

لاولدی کے مسئلے کے شکار 10 سے 20 فیصد لوگوں میں سے تقریباً آدھے لوگ علاج کے بعد ماں باپ بن سکتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ مایوس اور پریشان ہو جاتے ہیں اس لئے ہر قسم کے اصلی اور جعلی ڈاکٹر‘ اصلی اور جعلی پیروں کے پاس جاتے ہیں اور اکثر اوقات نقصان اٹھاتے ہیں۔ اکثر دیکھا اور سنا گیا ہے کہ بعض شادی شدہ لڑکیاں جعلی پیروں کے پاس جا کر نا صرف اپنا پیسہ ضائع کرتی ہیں بلکہ بعض اوقات لفنگے پیروں کے ہاتھوں اپنی عزت بھی گنوا بیٹھتی ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ اگر شادی کے ایک سال بعد تک اولاد نہ ہو تو میاں بیوی دونوں کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ چند ٹیسٹوں کے ذریعے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں اولاد کیوں نہیں ہو رہی ہے۔ لاولدی کی وجہ معلوم کرنے کے لئے بنیادی طور پر مندرجہ ذیل ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں:

1۔شوہر کے مادہ تولید semen کا ٹیسٹ۔

2۔ بیوی کے بیضہ دانی کے کام یعنی ہر مہینے ایک انڈہ بنانے کی صلاحیت کا ٹیسٹ۔

3۔ بیوی کی ٹیوب (نلے) کے کام کا ٹیسٹ۔

تولیدی مادے کا ٹیسٹ

یہ سب سے آسان ٹیسٹ ہے اور چونکہ لاولدی کے معاملے میں مردوں کے تولیدی مادے semen کی خرابی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ (تقریباً 50 فیصد لاولد جوڑوں میں خرابی مردوں میں پائی جاتی ہے) اس لیے پہلے مرحلے میں یہی ٹیسٹ کرایا جاتا ہے، اس ٹیسٹ میں مادہ تولید میں جرثوموں sperms کی تعداد دیکھی جاتی ہے۔

اسپرم وہ مردانہ جرثومہ ہوتا ہے جو حمل ٹھہرنے کے لئے لازمی ہوتا ہے۔ اسپرم کی تعداد کم از کم بیس ملین فی ملی لیٹر ہونا چاہیے۔ ان میں کم از کم 50 فیصد آ گے کی طرف حرکت کرتے ہوئے نظر آنے چاہییں اور کم از کم 14 فیصد نارمل شکل کے ہونے چاہئیں۔ ہر جرثومے کے تین حصے ہوتے ہیں۔

ایک سر، درمیانی حصہ اور دم۔ جرثومے کی نارمل شکل جانچنا سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ اس کے لیے خاص قسم کی خوردبین (مائیکرو اسکوپ) اور بہت زیادہ مہارت اور ٹیسٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بانچھ پن کا شکار جوڑوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر مرد اولاد نہ ہونے کی صورت میں عورت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اور اپنا ٹیسٹ کروانا اپنی مردانگی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایسے مردوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ شادی کے 2، 3 سال بعد بچہ نہ ہونے کی صورت میں بیوی کے ساتھ اپنے مادہ منویہ (Semen) کا ٹیسٹ ضرور کروائیں۔

بیوی کے بیضے کا ٹیسٹ

اگر بیوی کی ماہواری کا نظام ٹھیک اور باقاعدہ ہے اور عمر 35 سال سے کم ہے تو عام طور پر انڈے دانی ٹھیک ہوتی ہے۔ یعنی ہر مہینے ایک انڈا بن رہا ہوتا ہے۔

پہلے زمانے میں اس ٹیسٹ کیلئے بچے دانی کی صفائی کی جاتی تھی۔ جو اب بالکل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہی معلومات خون کے ٹیسٹ سے معلوم ہو سکتی ہیں۔ جس دن سے ماہواری شروع ہوتی ہے وہ پہلا دن کہلاتا ہے۔ جن عورتوں کی ماہواری 20 سے 30 دن کے وقفے سے آتی ہے ان کے خون کا ٹیسٹ اکیسویں دن خون میں پروجسٹر ون کی سطح دیکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔

اگر خون میں ہارمون پروجیسٹرون کا لیول کم ہو تو اس کا مطلب ہے کہ انڈا باقاعدگی سے نہیں بنتا۔ اس کی وجہ معلوم کرنے کیلئے بھی صرف خون کا ٹیسٹ ہی کافی ہے۔ ماہواری کے شروع کے دنوں میں مندرجہ ذیل ہارمونز کی دماغ کے ایک غدود سے آتے ہیں ان کی سطح کی مقدار بھی جانچی جاتی ہے۔

سیریم ایف ایس ایچ FSH

سیرم ایل ایچ LH

سیرم پرولیک ٹین Prolactin

اگر سیرم پرولیک ٹین زیادہ ہو تو دواؤں کے ذریعے کم ہو جاتا ہے اور انڈے دانی کا کام باقاعدگی سے شروع ہو جاتا ہے۔ باقی دونوں ہارمونز کا بیلنس اگر الٹ ہو جائے تو بچہ دانی میں پانی کی تھیلیاں سی بن جاتی ہیں۔ اسے پولی سسٹک اووری کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انڈے دانی میں انڈے کی بڑھوتری متاثر ہوتی ہے۔ اس بیماری کا علاج دواؤں سے ہو سکتا ہے۔ اگر یہ دونوں ہارمونز بہت زیادہ ہوں تو انڈے دانی کام نہیں کرتی اور دوائیوں کے ذریعے بھی علاج ممکن نہیں ہوتا۔

ٹیوب کا ٹیسٹ

عورتوں کے ٹیوب کا ٹیسٹ کرنا ذرا پیچیدہ عمل ہے۔ اس کے دوطریقے ہوتے ہیں۔ بچہ دانی کے منہ کے ذریعے دوائی بچہ دانی میں داخل کی جاتی ہے جو ٹیوبز (نلوں) کے ذریعے پیٹ میں داخل ہوتی ہے اس کا ایکسرے لیا جاتا ہے جس میں (دوائی) بچہ دانی سے نکل کر نلوں کے ذریعے پیٹ میں جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے ذریعے یہ ثابت ہو جاتا کہ ٹیوبز (نلے) کھلے ہوئے ہیں۔ اس عمل میں خاصا درد ہوتا ہے کبھی کبھی درد کی وجہ سے عورت کے بے ہوش ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ ٹیوب چیک کرنے کا دوسرا طریقہ سرجری ہے۔ مریض کوبے ہوش کر کے ناف کے نیچے چھوٹا سوراخ بنا کر کیمرہ ٹیلی سکوپ (لیپرو سکوپ) پیٹ کے اندر ڈالتے ہیں اور براہ راست اندر کا معائنہ کرتے ہیں۔ بچہ دانی منہ کے ذریعے دوائی داخل کی جاتی ہے اور وہ پیٹ کے اندر جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔

لیپرا اسکوپی بہتر طریقہ ہے کیونکہ اس سے زیادہ معلومات بھی مل سکتی ہیں۔ مثلاً بچے دانی اور انڈے دانی کیسی ہے؟ اور اس کے آس پاس اور کوئی بیماری تو نہیں ہے۔ خاص کر دو اقسام کی بیماریاں اہم ہیں۔ ایک انفیکشن یعنی جرثوموں کی وجہ سے سوزش کا ہونا اگر یہ بار بار ہو تو انڈے دانی ٹیوبز اور بچے دانی آپس میں چپک جاتے ہیں۔ یا ان کے درمیان باریک جھلی بن جاتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں انڈے اور مرد کے جرثومے کا ملاپ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس انفیکشن کو پی آئی ڈی یعنی پیلوک انفلے میٹری بیماری PID کہا جاتا ہے۔

دوسری بیماری کا نام اینڈو میٹروسیس Endometriosis ہے۔ یہ انڈے دانی اور ٹیوبز کو خراب کرتی ہے۔ اس میں ہر ماہواری کے ساتھ تھوڑا سا خون پیٹ کے اندر چلا جاتا ہے اور وہاں جم جاتا ہے اس بیماری کی وجہ سے ہر مہینے پیٹ کے اندر خون جمتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔

شادی کے ایک سال تک اگر حمل نہ ٹھہرے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور ابتدائی ٹیسٹ کروا لینے چاہییں۔ اگر لڑکی کی شادی 30 سال سے زیادہ عمر میں ہوئی ہے تو مناسب ہے کہ ایک سال انتظار نہ کریں بلکہ چھ ماہ بعد ہی ٹیسٹ شروع کر دیں کیونکہ عورت کی عمر 35 سال سے زیادہ ہو جائے تو بچہ ٹھہرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلے شوہر کے تولیدی جرثوموں کا ٹیسٹ ہونا چاہیے کیونکہ یہ سب سے آسان ٹیسٹ ہے۔ اگر مرد کے تولیدی مادے میں تھوڑی بہت خرابی ہو تو امید ہوتی ہے کہ یہ علاج سے ٹھیک ہو جائے گی لیکن اگر زیادہ خرابی ہو تو ایسے مردوں کا باپ بننا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ یہ خرابی یا تو پیدائشی ہوتی ہے یا بعد میں چوٹ لگنے سے یا عفونت کے اثر یعنی انفیکشن سے پیدا ہو جاتی ہے۔

عورتوں میں اگر ماہواری کی خرابی ہو یا انڈے دانی کا کام ٹھیک نہ ہو تو دوائیوں کے ذریعے کسی حد تک علاج ہو سکتا ہے۔ اگر ٹیوبز بند ہوں تو پھر ایسی عورتوں کا نارمل طریقے سے حمل ٹھہرانا ناممکنات میں سے ہے۔ ہمارے ملک میں ٹی بی کا مرض زیادہ ہے اس لئے اکثر عورتوں کو ٹیوبز کی ٹی بی ہوتی ہے اور ٹیوبز بند ہو جاتی ہیں اگر ایک ٹیوب بند ہو اور ایک ٹیوب کھلی ہو تو علاج کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

بانجھ پن کا علاج

اولاد اللہ کی خوبصورت ترین نعمت ہے۔ شادی کے بعد ہر مرد و زن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد ماں باپ بنیں۔ شادی کے فوراً بعد اگر دو تین سال تک بچہ نہ ہو تو بالکل پریشان نہ ہوں۔ اللہ سے رحمت کی دعا کریں۔ ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔ 40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین بھی شادی کے بعد ماں بن جاتی ہیں۔ بعض اوقات سارے ٹیسٹ نارمل ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بچہ نہیں ہوتا۔ 10 سے 12 سال گزر جاتے ہیں اور پھر اللہ کی رحمت سے اولاد ہو جاتی ہے۔ اس لیے اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں عورت، مرد دونوں ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے رو رو کر دعا کریں۔ انشاء اللہ، اللہ اپنا کرم کرے گا اور آپ بارآور ہوں گے اور اولاد کی دولت سے فیضیاب ہوںگے۔

بانجھ پن کے علاج کے مختلف طریقے ہیں۔ اگر دوائیوں سے فائدہ نہ ہو یا خرابی ایسی ہو کہ دوائیاں اثر نہ کریں یا کسی خرابی کا پتہ نہ چل رہا ہو اور دوائیوں کے باوجود حمل نہ ٹھہرتا ہو تو یہ طریقے آزمائے جاتے ہیں:

مصنوعی طریقہ سے مادہ تولیدی داخل کرنا

یہ ایک سادہ طریقہ ہے۔ اس میں ٹیوبز کا کھلا ہونا اور مادہ تولید تقریباً نارمل ہونا ضروری ہے۔ اس طریقہ علاج میں پہلے بیوی کو دوائیں دی جاتی ہیں تاکہ لازمی طور پر دو یا تین انڈے بن سکیں۔ ماہواری کے بارھویں، تیرہویں یا چودہویں دن جب الٹرا ساؤنڈ میں انڈے کا سائز اگر مناسب ہو تو شوہر کا مادہ تولید لے کر تیار کیا جاتا ہے۔ مادہ تولید کو دو ڈھائی گھنٹے تک مختلف طریقے سے صاف کرتے ہیں تاکہ صرف اچھے اور تیز حرکت والے جرثومے علیحدہ ہوجائیں اور پھر ان کو ایک باریک پلاسٹک کی نلکی کے ذریعے بچہ دانی کے اندر ڈالتے ہیں۔ یہ کسی قسم کی تکلیف کے بغیر ہوتا ہے۔ اس طریقے سے 15 فیصد کامیابی ہوتی ہے۔

ٹیسٹ ٹیوب بے بی (ابتدائی)

اس طریقہ علاج کا نام اکثر لوگوں نے سنا ہے اس کو سمجھتے کم لوگ ہیں۔ یہ طریقہ علاج پہلی بار 1978ء میں برطانیہ میں آزمایا گیا اور کامیاب ہوا۔ یہ طریقہ ان لوگوں کے لئے مفید ہے جن کی ٹیوبز بند ہیں۔ جن کے انڈے مشکل سے بنتے ہوں یا جن کے یہاں اولاد نہ ہونے کی کوئی طبی وجہ معلوم نہ ہو رہی ہو اور کوشش کرتے ہوئے پانچ سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہو۔ اس طریقہ کار میں پہلے بیوی کو مختلف قسم کی دوائیں دی جاتی ہیں تاکہ اس کے انڈے زیادہ بنیں۔ تقریباً دس سے بیس انڈے بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔

الٹرا ساؤنڈ پر باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا ہے جب انڈوں کا مطلوبہ سائز تیار ہو جاتا ہے تو ایک سوئی کے ذریعے ان کو باہر نکالا جاتا ہے اور لیبارٹری میں خاص قسم کے انکوبیٹر Incubator میں رکھا جاتا ہے پھر شوہر کا جرثومہ لے کر اس کو تیار کر کے رکھا جاتا ہے پھر دویا تین دن کے بعد ان میں سب سے صحت مند اور اچھے پروان چڑھنے والے دو یا تین جنین Embryo الگ کر کے بیوی کی بچہ دانی میں باریک نلکی کے ذریعے ڈال دیتے ہیں۔ پندرہ سے بیس دن کے بعد اگر ماہواری نہ ہو تو خون میں حمل ٹھہرنے کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

اس طریقہ علاج سے 40 سے 45 لوگوں کو کامیابی ہوتی ہے اور خاص کر 35 سال سے کم عمر کی عورتوں میں بچہ صحیح طریقے سے پیدا ہونے کی امید ہوتی ہے۔

ٹیسٹ ٹیوب بے بی (ایڈوانس ٹیکنیک)

یہ طریقہ کار ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی ایڈوانس ٹیکنیک ہے۔ یہ خصوصاً ایسے معاملوں میں مفید ہے جہاں مرد کی خرابی ہو۔ اسپرم یا تو کم ہوں یا حرکت کم کرتے ہوں یا ظاہری طورپر نارمل نہ نظر آتے ہوں۔ اس تکنیک کا فائدہ یہ ہے کہ اسپرم ہزاروں کی تعداد میں درکار نہیں ہوتے بلکہ جتنے انڈے ملتے ہیں اتنے ہی اسپرم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں بھی پہلے بیوی کو مختلف دوائیاں دے کر اڈے بنائے جاتے ہیں پھر ان کو نکالا جاتا ہے۔

خاص قسم کے مائیکرو اسکوپ کی مدد سے بال سے بھی باریک سوئی کے ذریعے انڈے کے اندر ایک ایک اسپرم داخل کیا جاتا ہے۔ یہ بہت ہی مہارت اور باریک بینی کا کام ہے۔ 18 گھنٹے کے بعد ان کو چیک کرتے ہیں اور اگلے دو یا تین دن تک ان کی افزائش دیکھنے کے بعد دو یا تین جینن بیوی کے بچہ دانی میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ پندرہ سے بیس دن کے بعد ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ وہ مرد جن کے مادہ تولید میں جرثومے بالکل نہ ہوں مگر فوطے میں جرثومے بنتے ہوں، ان کا علاج اس طریقہ سے ہو سکتا ہے۔

ان کے فوطے میں سوئی ڈال کر پانی نکالا جاتا ہے۔ یا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نکال کر اس جرثومے کو ڈھونڈا جاتا ہے اور پھر اس سے ایڈوانس ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریقہ کار سے ایک ایک انڈے کے اندر ایک ایک اسپرم کو انجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ میں کامیابی 30 سے 35 فیصد ہوتی ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی یا ایڈوانس طریقے میں کوئی خاص ذیلی اثرات نہیں ہوتے۔ خطرناک قسم کی پیچیدگیاں ہزاروں میں سے ایک کو ہوتی ہیں اور اگر بروقت علاج شروع ہو جائے تو جلدی سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر

اسلامی نقطہ سے یہ سب جائز طریقے ہیں کیونکہ اس میں صرف شادی شدہ جوڑوں کا علاج ہوتا ہے اور صرف شوہر کے مادہ تولید اور بیوی کے انڈے آپس میں ملائے جاتے ہیں۔ کسی تیسرے شخص کے جسمانی مادوں کا استعمال قطعی نہیں ہوتا۔ یہ سارے طریقے ایران‘ سعودی عرب اور دوسرے ممالک میں کامیابی سے استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ اس قسم کے علاج کے جدید طریقے سے پاکستان میں بھی کئی لوگوں کی زندگی میں بچے کی آمد سے بہار آ چکی ہے۔ جن خواتین کی عمر42 سال سے زیادہ ہو یا انڈے دانی نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو یا شوہر کے اسپرم بالکل نہ بنتے ہوں ان کو راضی بہ رضا رہنا چاہیے۔ کیونکہ ایسے معاملات میں کامیابی کا زیادہ امکان نہیں ہوتا۔ اس لئے خوامخواہ ہر جگہ جانے، ٹھوکریں کھانے اور پیسے ضائع کرنے سے اچھا ہے کہ ایک دفعہ ہی تسلیم کر لیا جائے اور کوشش کر کے بچے کو گود لے لیا جائے۔ کسی بے سہارا بچے کو پالنا بہت بڑی نیکی ہے خاص کر کسی یتیم اور بے سہارا بچے یا بچی کو گود لینا بڑے ثواب کا کام ہے۔ اس سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور گود لینے والا بھی خوش و خرم زندگی گزارتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔