انسان کی ایمان داری کا امتحان ؛ راہ پہ گرا نقدی سے بھرا بٹوہ

سید عاصم محمود  اتوار 31 مئ 2020
آپ اسے اٹھا کر مالک تک پہنچائیں گے یا ہڑپ کر جائیں گے؟ ۔  فوٹو : فائل

آپ اسے اٹھا کر مالک تک پہنچائیں گے یا ہڑپ کر جائیں گے؟ ۔ فوٹو : فائل

ایک بار نبی کریم ﷺ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کچھ نصیحت فرما رہے تھے۔ایک بدو آیا اور اس نے  پوچھا ’’قیامت کب آئے گی؟‘‘ حضور اکرمﷺ نے کوئی جواب نہ دیااور بدستور کلام فرماتے رہے تو وہ چپ چاپ بیٹھ گیا۔ جب آپ ؐ اپنی بات ختم فرما چکے‘ تو فرمایا ’’ وہ کہاں ہے جس نے قیامت کی بابت سوال کیا؟‘‘ بدو کھڑا ہوا اور بولا ’’رسول اللہ ﷺ! میں یہاں ہوں۔‘‘نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’جب دنیا میں سچ نہیں رہے گا‘ تو اس وقت قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ بدو نے پوچھا ’’ سچ کیسے جاتا رہے گا؟ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ سچ اس وقت ختم ہو گا جب جھوٹے لوگ اور حکمران آئیں گے۔ تب تم قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘ (البخاری، کتاب سوم )

اس حدیث سے عیاں ہے کہ دنیا سے سچائی‘ ایمان داری اور دیانت داری کا خاتمہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ وجہ یہ کہ ہر معاشرے میں ایمان داری اور سچائی انسانی تعلقات میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں ایمان داری نہ رہے‘ تو پھر وہ جھوٹ و مکاری کانشانہ بن کر زوال پذیر ہو نے لگتا ہے۔ مفکرین کے نزدیک بھی عقل و دانش کا پہلا باب ایمان داری ہے۔عام خیال یہ ہے کہ مادی اشیا کی کثرت دنیا بھر میں انسان کو بے ایمان اور مکار بنا رہی ہے۔

وہ سچائی کادامن جھٹک کر جھوٹ کا سہارا لینے لگا ہے تاکہ دولت و آسائش پا سکے ۔ سوال یہ تھا کہ کیا یہ خیال عملی جامہ پن چکا یا محض خیالی بات یا نظریہ ہے۔ سوئٹزرلینڈ کی ایک سماجی تنظیم،گوٹلیب ڈٹ ویلر انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے اس سوال کی جانچ پرکھ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔یہ عمرانیات اور انسانی معاشرت کے مختلف پہلوؤں پہ تحقیق کرنے والی  قدیم یورپی غیر سرکاری تنظیم  ہے جس کا نعرہ ہے: ’’پیسے نہیں انسان پر توجہ دو۔‘‘

گوٹلیب ڈٹ ویلر انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے تحقیق سے دریافت کیا تھا کہ ایک انسانی معاشرے میں ایمان داری کی موجودگی ’’لازمی‘‘ ہے۔انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق سے یہ بنیادی نکتہ بھی اجاگر ہوا کہ   اگر کسی معاشرے میں یہ لازمی عنصر موجود ہے‘ تو تب ہی وہ معاشی ترقی کرتا ہے۔ اور اس کے بقیہ کل پرزے بھی ٹھیک طریقے سے کام کرتے ہیں۔ گویا کسی معاشرے میں بے ایمانی اور جھوٹ زیادہ ہو‘ تو وہ معاشی ترقی بھی نہیں کر سکتا اور وہاں غربت زیادہ ہو گی۔ایک ملک کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے میں ایمان داری بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

سوئس تنظیم نے پھر اپنی تحقیق کو عملی تجرے میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔یہ طے پایا کہ 40ممالک کے بڑے شہروں(کل 355 شہروں ) میں ایک انوکھا تجربہ کیا جائے۔ یہ کہ عوامی مقامات مثلاً سرکاری دفاتر‘ بینکوں‘ دکانوں‘ ڈاک خانوں‘ ہوٹلوں ‘ عجائب گھروں  وغیرہ میں نقدی سے بھرے یا پھر خالی بٹوے زمین پر پھینک دیئے جائیں۔

بٹووں میں رابطہ نمبر اور ای میل ایڈریس بھی رکھے گئے۔تجربے سے یہ دیکھنا مقصود تھا کہ کتنے لوگ سچائی و ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بٹوے واپس کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے کتنے فیصد لوگ ہیں جو مکاری و بے ایمانی دکھاتے ہوئے بٹوے  ہڑپ کرجائیں گے۔سوئس تنظیم نے اپنے تجربے کی خاطر تمام 40 ممالک میں مقامی سماجی تنظیموں کی خدمات حاصل کر لیں۔ چنانچہ تنظیموں کے کارکنوں کی مدد سے جولائی 2013ء تا دسمبر2016ء،  تقریباً ساڑھے تین سال تک یہ تجربہ تین سو پچین شہروں میں دہرایا گیا۔

اس دوران نقدی سے بھرے یا خالی ’’سترہ ہزار‘‘بٹوے عوامی مقامات پر چھوڑ ے گئے ۔دور حاضر کے انسان کی اخلاقی طاقت کا امتحان لینے والے اس دلچسپ تجربے کے حتمی نتائج  کچھ عرصہ قبل سامنے آئے ۔ نتائج سے نہ صرف انسانی فطرت کے اسرار نمایاں ہوئے بلکہ یہ بھی پتا چلا کہ انسان میں ہر لمحے خیر و شر کی قوتوں کے مابین کشمکش جاری رہتی ہے۔

بھرے بٹوؤں میں 14 ڈالر کے مساوی مقامی رقم رکھی گئی جبکہ خالی بٹوؤں میں صرف پتے کی تفصیل والا کارڈ موجود تھا۔ ہر شہر میں دوسو نقدی سے بھرے جبکہ دو سو خالی بٹوے عوامی مقامات پر چھوڑے گئے۔ اس کے بعد انتظار کیا گیا کہ بٹوہ اٹھانے والا کب دیئے گئے ٹیلی فون نمبر یا ای میل پتے پر رابطہ کرتا ہے۔

اس انوکھے تجربے میں ڈنمارک کے شہریوں نے اول نمبر پایا۔ وہاں بھرے بٹوے اٹھانے والے 82 فیصد مردوزن نے انہیں واپس کردیا۔ جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے والوں کی شرح 72 فیصد رہی۔ اس کے بعد سویڈن کا نمبر رہا۔81 فیصد سویڈش شہریوں نے بھرے جبکہ 81 فیصد ہی نے خالی بٹوے واپس کیے۔

دیگر پہلے پندرہ ممالک میں یہ تناسب رہا۔ سوئٹزر لینڈ (80 فیصد بھرے اور 73 فیصد خالی)، نیوزی لینڈ (80 فیصد اور 62 فیصد) ناروے (79 فیصد اور 72 فیصد)، جمہوریہ چیک (78 فیصد اور 62 فیصد) ،ہالینڈ (75 فیصد اور 71 فیصد)، پولینڈ (71 فیصد اور 68 فیصد)، آسٹریلیا (71 فیصد اور 53 فیصد)، جرمنی (67 فیصد اور 55 فیصد)، فرانس (61 فیصد اور 55 فیصد)، سربیا (57 فیصد اور 53 فیصد)۔ یہ تجربہ چھ اسلامی ممالک میں بھی بھی اپنایا گیا۔ بدقسمتی سے یہ سبھی آخری ممالک کی صف  میں آئے۔ چالیس ممالک میں پیرو کے باشندے سب سے زیادہ بے ایمان ثابت ہوئے۔ وہاں صرف 13 فیصد شہریوں نے نقدی سے بھرے بٹوے واپس کیے جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے کی شرح 15 فیصد رہی۔

اس کے بعد میکسیکو کا نمبر رہا۔ وہاں17 فیصد شہریوں ہی نے نقدی والے بٹوے واپس کیے جبکہ خالی بٹوے واپس کرنے کی شرح بھی محض 23 فیصد رہی۔ دیگر آخری دس ممالک میں شہریوں کی ایمانداری کا تناسب یہ رہا: کینیا (19 فیصد بھرے اور 16 فیصد خالی)، چین (22 فیصد اور 8 فیصد) ،قازقستان (22 فیصد اور 14 فیصد) ،گھانا (23 فیصد اور 19 فیصد)، ملائشیا (24 فیصد اور 18 فیصد)، انڈونیشیا (33 فیصد اور 18 فیصد)، متحدہ عرب امارات (36 فیصد اور 16 فیصد)،چلّی (37 فیصد اور 35 فیصد)، جنوبی افریقہ (39 فیصد اور 29 فیصد)، تھائی لینڈ (41 فیصد اور 22 فیصد) اورترکی (42 فیصد اور 20 فیصد) ۔یہ تجربہ بھارت کے بڑے شہروں مثلاً ممبئی، نئی دہلی، کلکتہ اور بنگلور میں بھی کیا گیا۔ ان نگروں کے 45 فیصد باسیوں نے نقدی سے بھرے بٹوے واپس کردیئے جبکہ صرف 22 فیصد مردوزن نے خالی بٹوے واپس کیے۔

اب آپ خود سوچ لیجیے کہ اگر پاکستانی شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں یہ تجربہ اپنایا جاتا تو کیا نتیجہ برآمد ہوتا۔ شاید بھارت کی طرح 45 فیصد پاکستانی ہی بھرے بٹوے واپس کرتے یا پھر دینی جذبہ زیادہ پاکستانیوں کو ایمان داری برتنے پر ابھار دیتا؟ اگرچہ ہمارے ہاں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ ظاہری عبادات کا دکھاوا کرنے والے زیادہ کرپٹ ہوتے ہیں۔

گوٹلیب ڈٹ ویلرانسٹی ٹیوٹ کے تجربے سے بہرحال یہ ثابت ہوگیا کہ واقعی ایمان داری اور ایک قوم کی معاشی ترقی و خوشحالی کا آپس میں تعلق ہے۔ اس تجربے میں جن ممالک کے شہریوں نے سب سے زیادہ بھرے و خالی بٹوے واپس کیے، وہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ جبکہ پیرو، میسکیکو، گھانا اور چین میں بھی خاصی غربت موجود ہے۔ غربت اور بھوک بہت بڑا شیطانی عجوبہ ہے۔ یہ بعض اوقات اعلیٰ کردار رکھنے والے انسان کو بھی اخلاقیات سے گری حرکت کرنے پر اکسا دیتا ہے۔تجربے میں جو ممالک سرفہرست آئے، وہ ایک اور خاصیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ کہ وہاں قانون کی حکمرانی مضبوط ہے۔

گویا ایمان داری کی طاقتور حسّ اور قانون کے احترام کاجذبہ مل کر دو آتشہ بن گئے۔ اسی لیے ان ملکوں میں عوام اپنے حصے کے تمام ٹیکس دیانت داری سے ادا کرتے ہیں۔حکومتوں کو جو آمدن ہو‘ وہ کرپشن کی نذر نہیں ہوتی بلکہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے۔ وہاں بیورو کریسی ہو یا نجی شعبہ‘ ہر کوئی اپنے فرائض ذمے داری سے انجام دیتا ہے۔ غرض ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی وہ خوشحالی کا راز یہ ہے کہ وہاں نہ صرف حکومتیں قانون کا سختی سے نفاذ کرتی ہیں بلکہ ہر شہری کو بھی احساس ہے کہ وہ اپنے کام ایمانداری سے کرے۔ اسی واسطے مملکت کی تمام سرگرمیاں بخیر و خوبی انجام پاتی ہیں۔

یوں سبھی فائدے میں رہتے ہیں۔درج بالا حقائق جان کر ذرا اپنے پاک وطن کی حالت پر نگاہ دوڑایئے۔ یہاں بیشتر پاکستانی ایمانداری سے اپنے ٹیکس نہیں دیتے کیونکہ ان کا دعوی ہے‘ حکومت اور بیورو کریسی ٹیکسوں کی بیشتر رقم ہڑپ کر جاتی ہے۔ حکومت کو مطلوبہ رقم نہ ملے تو وہ قرضے لیتی ہے۔ انہی قرضوں نے اب پاکستانی حکومت کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ روز مرہ اخراجات بھی قرضے لے کر پورے ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا پاکستان جدید ترین اسلحہ خرید کر اپنا دفاع مضبوط بنا سکتا ہے؟ مملکت کے مستحکم دفاع کی خاطر ہمارا معاشی طور پر طاقتور ہونا لازمی امر ہے۔

تجربے سے یہ بھی عیاں ہوا کہ اسلامی معاشروں میں اخلاقیات کی کمی امت مسلمہ کے زوال کی اہم وجہ ہے۔ جب مسلمان سادہ‘ قناعت پسند‘ جفاکش‘ دیانت دار اور معاملات میں کھرے تھے‘ انہوں نے دنیامیں سپر پاور کی حیثیت حاصل کر لی۔

لیکن جب وہ عیش و عشرت کی زندگی ‘ جھوٹ و فریب اور بے ایمانی میں گرفتار ہوئے‘ تو پستی کے گڑھوں میں جا گرے۔ زوال سے نکلنے کا ایک بنیادی راستہ یہی ہے کہ اسلامی معاشروں میں دوبارہ ایمان داری‘ خلوص‘ اتحاد‘ بھائی چارے ‘ سادگی جیسی اعلی وضاحت کو پروان چڑھایا جائے۔ اخلاقی طور پر باشعور ہونے سے مسلمان خود بخود قانون کا احترام بھی کرنے لگیں گے۔تبھی وہ دنیاوی کامیابی بھی پا سکتے ہیں۔ مگر یہ کامیابی ان خامیوں سے مبرا ہو گی جن میں مغربی ممالک مبتلا ہیں۔ مثلاً مادہ پرستی سے لگاؤ‘ فحاشی‘ حد سے بڑھی انفرادیت اور بے حسی وغیرہ۔

عالم اسلام کے زوال کی ایک اور اہم وجہ علم (سائنس و ٹیکنالوجی) سے کٹ جانا بھی ہے۔ اگر نویں دسویں عیسوی میں کوئی این جی او دنیا کے چالیس ممالک میں ایمان داری کا تجربہ کرتی‘ تو صف اول پر اسلامی ممالک مثلاً جزیرہ نما عرب‘ اندلس‘ عراق‘ مصر‘ شام‘ ایران‘ تیونس‘ مراکش وغیرہ آتے۔ جبکہ اس زمانے میں یورپی و مغربی ممالک میں غربت و جہالت کا دور دورہ تھا۔ تب اسلامی دنیا زبردست علمی و ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی کل عالم کی تاجدار بنی ہوئی تھی۔ مگر آنے والی صدیوں میں سائنس و ٹیکنالوجی کا پرچم مغرب میں بلند ہوا‘ تو رفتہ رفتہ مغربی ممالک ہی بام عروج پر پہنچ گئے۔ گویا آج اسلامی ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی کو اہمیت دی جائے تو یہ راستہ بھی انہیں دوبارہ ترقی و خوشحالی کی منزل پر پہنچا سکتا ہے۔

قرآنی تعلیم سے ٹکراتا تاثر
اہل پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر ایمان دار،اہل اور محنتی حکمران آ جائے تو وہ ساری حکومتی و معاشرتی خرابیاں دور کر دے گا۔حکمران یقیناً دیانت دار ہونے چاہیں مگر یہ سکے کا ایک رخ ہے۔دوسرارخ یہ کہ افراد ِقوم کو بھی ایمان دار ہونا چاہیے تبھی سارے معاملات درست ہوں گے۔

اگر عام لوگ بے ایمان اور کرپٹ ہوں تو محض ایک ایمان دار حاکم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اپنی قوم کی خراب حالت ٹھیک نہیں کر سکتا۔خدائے برتر وبزرگ نے بھی سورہ انفال،آیت آٹھ میں یہی بات بیان فرمائی جس کا مفہوم ہے:’’ایک قوم کی حالت اسی وقت بدلتی ہے جب وہ خود فیصلہ کر لے۔‘‘

اس آیت میں حکمرانوں نہیں عام افراد(قوم)کا ذکر آیا ہے۔اب عوام وخواص مثلاً دکان دار،پھیری والے،کلرک ،کاروباری،سرمایہ دار وغیرہ بے ایمانی سے کمائی کریں تو ایک ایمان دار حکمران کیا اخلاقی زوال کے اس قومی شعار کو بدل سکتا ہے؟تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔