ملک اقتصادی ومعاشی مسائل سے نبرد آزما

ایڈیٹوریل  ہفتہ 30 مئ 2020
اس صورتحال میں برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی بڑا مسئلہ ہے

اس صورتحال میں برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی بڑا مسئلہ ہے

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے دنیا کی معیشتوں کو متاثرکیا ہے، جب تک اس عالمی مسئلے سے جامع انداز میں اور عالمی حل کے ذریعے نہیں نمٹا جائے گا تو دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کے شکار ہونے کی وجہ سے کساد بازاری سے باہر نہیں آسکے گا۔وزیراعظم پاکستان کا ترقی کے لیے سرمایہ کاری سے متعلق عالمی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ کورونا بحران سے متاثرہ ترقی پذیرممالک کی مدد کی جائے، انتہائی صائب اور حقیقت پرمبنی امر ہے۔

ہمارا ملک لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید معاشی واقتصادی مسائل سے دوچارہوچکا ہے۔ ملکی معیشت کا پہیہ جام ہونے سے ہمارے مسائل روزبروز بڑھتے جا رہے ہیں۔قومی شرح نمو بہت تیزی سے گری ہے، اقتصادی ومعاشی ماہرین  پہلے ہی نشاندہی کرچکے ہیں کہ شرح نمو منفی میں جائے گی، ڈالرمہنگا اور روپے کی قیمت  میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ بیرونی ممالک میں مقیم لاکھوں پاکستانی جو قیمتی زرمبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں اس کی وجہ سے ملکی معیشت کو بہت سہارا ملتا تھا لیکن اب تو وہ خود بے روزگارہوچکے ہیں اوروطن واپسی کے منتظر ہیں۔

ان کی واپسی سے ملک قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہوگیا ہے۔ اسٹاک ایکس چینج میں بھی مندی کا رجحان ہے۔ ملک میں تیزی سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے، صنعتیں بند ہیں اور لاکھوں محنت کشوں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔ جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافے کی ایک بڑی وجہ غربت اور بیروزگاری بھی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث تاجروں اور درآمد کنندگان کے اربوں روپے مالیت کی وصولیاں رک چکی ہیں،اربوں روپے کا سرمایہ کئی ماہ سے منجمد ہے۔

بلاشبہ حکومت کو مسائل کا ادراک ہے، وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم خلوص نیت سے معاشی واقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں جیسے کہ پاکستان اپنے اگلے مالی سال میں یورو بانڈزکے ذریعے 1.5 بلین ڈالر اکٹھا کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

خود مختار بانڈز کے اجرا کے ذریعے ڈیڑھ ارب ڈالر کا حصول مالی سال 2020-21 میں بیرونی سرمائے یا رقوم کا حصہ ہے جس کا استعمال حکومت بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں کرے گی۔ یہ امربھی لائق تحسین ہے کہ معیشت کو بحال رکھنے اور معاشرے کے کمزور ترین طبقے کے لیے حکومت نے آٹھ ارب ڈالرکا پیکیج دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ بائیس کروڑ آبادی میں سے تقریباً پندرہ کروڑ افراد معاشرے کے کمزور ترین طبقے میں شامل ہیں اور ان میں غیر رسمی شعبے، دیہاڑی دار اور ہفتہ وار روزگار کمانے والے بھی شامل ہیں۔

۔ ملکی معیشت پر منفی اثرات مئی میں برآمدی آمدنی میں کمی کی صورت میں نظر آنا شروع ہوچکے ہیں جو آنے والے مہینوں میں بھی برقرار رہیں گے۔ نئے وفاقی بجٹ کی تیاری میں بھی حکومت یقیناً مشکلات سے دوچار ہے، مقامی صرافہ مارکیٹوں میں بھی سونے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے جب کہ پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں عیدالفطر کی طویل تعطیلات کے بعد بھی مندی کے بادل چھائے رہے، جمعرات کو انڈیکس کی33800 اور33700 پوائنٹس کی مزید دوحدیں گرگئیں، سرمایہ کاروں کے 19ارب 83کروڑ66 لاکھ 58ہزار579 روپے ڈوب گئے۔ زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوںمیں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کو تنزلی کا سامنا رہا، اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالرکی قدر 80 پیسے کے اضافے سے 161 روپے 80 پیسے پر بند ہوئی۔

پاکستان بنیادی طورپرایک زرعی ملک ہے،لیکن یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہماری تمام حکومتوں نے اس شعبے کو یکسر نظر اندازکیا ہے۔ قومی سطح پر ایک جامع زرعی پالیسی کی تشکیل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ملک میں ہم نے جس طبقے سے سب سے زیادہ  صرف نظر برتا ہے وہ ہے کاشتکار۔ بجلی کے بلوں کی بڑھتی ہوئی قیمت، زرعی کھادوں کی بلند بالا قیمتیں،بھاری شرح سود پر زرعی قرضے، ڈیزل پر سبسڈی نہ فراہم کرنے جیسے عوامل نے کسان کی کمر توڑ دی ہے۔ مرے پر سو درے کے مصداق ملک میں شوگر مافیا نے ایک عام کسان کو معاشی بدحالی کا شکارکردیا ہے۔

گزشتہ برس 160سے 180روپے من گنا بیچا گیا اور شوگرملز مالکان نے سبسڈی کے نام پر اربوں کمالیے لیے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ ایک روپے چینی کی قیمت بڑھانے سے پچاس ارب روپے کا فرق پڑتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ شوگر ملز مالکان اور ان کے غیرقانونی اقدامات کو آج بھی ہرجگہ تحفظ دیا جا رہا ہے۔

اس وقت عجیب صورتحال ہے کہ کپاس کے علاقوں میں گنا کاشت کیا جا رہا ہے،کاشتکارکے نام پر ٹیکسٹائل اور شوگر ملز مالکان سبسڈی وصول کرتے رہے ہیں،کپاس کی پیداوارکم ہونے سے چھ عشاریہ پانچ ارب ڈالرکی کمی واقع ہوجائے گی۔ قومی خزانے کو پہنچنے والا یہ نقصان کیسے پورا ہوگا، یہ سوچنے والی بات ہے۔ مقام افسوس ہے کہ سابقہ حکومتوں نے زراعت کو اولین ترجیحات میں نہیں رکھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ 48 فی صد روزگار ملکی زراعت سے فروغ پاتا ہے لیکن زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو صورتحال بہت پریشان کن ہے۔

ملک کے کم وبیش ستر اضلاع میں ٹڈی دل نے حملہ کرکے فصلوں کو اجاڑ دیا ہے۔ مناسب اور بر وقت اقدامات نہ ہونے کے باعث ٹڈی دل فصلوں کو چٹ کر رہے ہیں، جب کہ وفاق اور سندھ کے درمیان سیاسی بیان بازی کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جا رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں ہے بلکہ مل جل کر مسائل حل کرنے کا ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت کو وسیع پیمانے پرٹڈی دل کے خاتمے کے لیے اسپرے کروانا چاہیے تاکہ مزید نقصان سے بچا جاسکے۔ خدانخواستہ عدم توجہی کی روش برقرار رہی توملک میں غذائی قلت پیدا ہوجائے گی، جوملکی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔

حکومت کو زراعت کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہونگے۔کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان ترقی وخوشحالی کی منازل بہت تیزی سے طے کرے گا۔ زرعی شعبے میں انتہائی استعداد آج بھی موجود ہے کہ وہ ملکی معیشت کا بوجھ اٹھا سکے، ضرورت اس امرکی ہے کہ زرعی شعبے پر بھرپور توجہ مرکوزکی جائے اورکسانوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ وہ دن رات محنت کرکے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

کورونا وائرس اورلاک ڈاؤن نے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثرکیا ہے، وہیں ریسٹورنٹس اینڈ ہوٹلنگ انڈسٹری کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پنجاب میں فوڈ بزنس پوائنٹس کی تعداد چالیس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جب کہ تقریباًسات لاکھ افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ ہوٹل انڈسٹری کے ساتھ بھی درجنوں شعبے منسلک ہیں جیسا کہ پیکنگ میٹریل ، ڈیکوریشن ، چکن ، بیف ، مٹن ، سبزیاں و پھل سپلائی کرنیوالے،کیٹرنگ سروس والے،ایڈورٹائزمنٹ سروس سمیت دیگرکئی شعبہ جات ہوٹل سے وابستہ ہوتے ہیں۔

دوسری جانب معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی تیسری قسط کے لیے نئے وفاقی بجٹ میں ممکنہ نئے اقدامات کی شرائط اورکورونا وبا کے ملکی برآمدات پر مرتب ہونے والے اثرات رواں ماہ سے برآمدی آمدنی کی ترسیلات کے حجم میں کمی کی صورت میں ظاہر ہونے کے علاوہ ملک میں معاشی سرگرمیوں اور نئے درآمدی لیٹرآف کریڈ ٹس کھولے جانے سے ڈیمانڈ بڑھنے کے باعث امریکی ڈالرکی قدر میں اضافے کا رجحان غالب ہوا ہے۔

پاکستان ایک ترقی پذیرملک ہے۔ اپنی بساط کے مطابق حکومت غریب طبقات کوامداد فراہم توکررہی ہے، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم ایک خبر پر نظر ڈالتے ہیں، جس کے مطابق امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ نے اعلان کیا ہے،گزشتہ ہفتے مزید 21 لاکھ افراد نے بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواستیں دی ہیں۔ مارچ کے وسط سے چارکروڑ سے زیادہ افراد اپنی نوکریاں کھوچکے ہیں، جو امریکی ورک فورس کا  ایک چوتھائی ہے۔

امریکا دنیا کا ترقی یافتہ ترین ملک ہے جب کہ وہاں حالات اتنے مخدوش ہوچکے ہیں تو پاکستان کی پریشانیوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ حالیہ عید کی خریداری کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی پر بازاروں میں عوام کا ہجوم امنڈ آیا تھا،جس کوکنٹرول کرنا حکومت اور تاجروں کے بس میں نہیں تھا، تاجر برادری کی جانب سے ایک مثبت تجویزسامنے آئی ہے، جن بازاروں میں خواتین کا ہجوم ہوتا ہے وہاں لیڈیز پولیس تعینات کی جائے اور متاثرہ تاجر برادری کے لیے بلا سود قرضوں کا اعلان کیا جائے جن کاروباروں میں رش نہیں ہوتا جیسا کہ فرنیچر شاپ، جیولرز شاپ وغیرہ ان کو مکمل طور پر کھولا جائے جب کہ ایسی دکانیںجو میونسپل کمیٹی، اوقاف، کنٹونمنٹ بورڈ وغیرہ کی ذاتی ملکیت ہیں ان کا تین ماہ کا کرایہ تاجروں کو معاف کیا جائے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تاجروں کے مطالبات پر ہمدردانہ غورکریں۔

یہ خبر بھی خوش آئند ہے کہ گرین نگہبان پروگرام کے لیے ورلڈ بینک نے120 ملین ڈالر فراہم کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ پروگرام کے تحت آیندہ اڑھائی برسوں کے دوران 4 سے6  لاکھ افراد کو ملازمتیں و روزگار فراہم کیا جائے گا۔ایک اہم ترین مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم بحالی کا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے تین کروڑ سے زائد مزدور مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ صنعتیں تب تک پیداوار نہیں بڑھا سکیں گے جب تک مزدوراپنے پیداواری یونٹس میں نہیں پہنچیں گے لہٰذااحتیاطی تدابیرکے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ بحالی کا اعلان کیا جائے، کیونکہ ملک کو ستر فیصد ریوینوکراچی سے ہی ملتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔