صحافیوں کے لیے امدادی پیکیج

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 30 مئ 2020
barq@email.com

[email protected]

بڑی خوشی ہوئی یہ خبر پڑھ کر کہ صوبہ پختون خوا کی حکومت نے صحافیوں کو فرنٹ لائن خدمات سرانجام دینے پر کچھ امدادی یا مراعاتی پیکیج عطا کیے۔ ہم خود تو نہ ’’واں‘‘ کے کبھی تھے نہ ہیں اور نہ نکالے ہیں یعنی:

واں کے نہیں یہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

’’کعبے‘‘ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی

کا ساحال بھی نہیں کیونکہ ’’نکالے‘‘ تو وہ جاتے ہیں جو داخل کیے جاتے ہیں جب کسی کو داخل ہی نہیں کیا گیا ہو بلکہ داخل ہونے دیا ہی نہ گیا ہو تو وہ بیچارے تو ’’نکالے ہوؤں‘‘ یعنی دور کی نسبت بھی نہیں رکھتے۔ لیکن پھر بھی اپنی قوم اپنا قبیلہ تو ہے خون کا نہ سہی ’’سیاہی‘‘ اور قلم کا رشتہ تو ہے۔ وہ سمجھیں نہ سمجھیں ہم تو انھیں اپنا سمجھتے ہیں اس لیے بڑی خوشی ہوئی اور اس لیے ہوئی کہ ہم خود لگ بھگ پچاس سال یعنی نصف صدی اس کسمپرسی، بے یقین اور بے حقوق پیشے میں رہے ہیں جہاں نام تو بڑے ہوتے ہیں لیکن درشن اتنے چھوٹے کہ دکھائی ہی نہ دیں۔

بڑے شہروں کا تو پتہ نہیں لیکن اپنے اس صوبے میں اگر کوئی انتہائی بے اعتبار بے سہارا بے حقوق اور بے بضاعت وبے ضمانت پیشہ ہے تو وہ یہی صحافت کا ہے۔ نہ اجرت اور تنخواہ کا کوئی نظام، نہ ملازمت کی گارنٹی یا تحفظ، نہ ہی خدمات کی کوئی ستائش یا صلہ۔ ایک منٹ میں ادھر اور ایک منٹ میں ادھر۔ چند اخبارات یا اداروں کو چھوڑ کر باقی ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔بیچارے دن بھر جوتیاں چٹخانے والے جو اجرت اور معاوضہ پاتے ہیں ’’تنخواہ‘‘ تو اسے کہا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ بری سے بری ملازمت میں کم سے کم ’’نوٹس‘‘ دینے کا چلن تو ہے جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے بقول غالب:

ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ

تو کیا ہے؟ اے نہیں ہے

یہ سب کچھ ہم پر گزرتا رہا ہے۔ اس لیے جانتے ہیں کہ گزرنے والوں پر کیا گزرتی ہے بیچارے درد کے مارے، بے سہارے، زیادہ تر صحافی غربت کی لکیر تو کیا لکیر کے سائے سے بھی نیچے کہیں ’’زندگی‘‘ نہیں بلکہ شرمندگی چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ مطلب اور خلاصہ اس ساری کہانی کا یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی کوئی گارنٹی کوئی تحفظ اور کوئی بھروسہ نہیں۔ تنخواہ یا اجرت مالکان کی مرضی اور ہونا نہ ہونا بھی:

نحیف و زار ہیں کیا زور ’’باغباں‘‘ پہ چلے

جہاں بٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح

اس طبقے کا حال بھی ہوبہو ویسا ہے جو تعلیمی چھابڑی فروشوں یعنی پرائیوٹ اسکولوں کا ہے جن کی اجرت، دیہاڑی دار مزدور سے تقریباً چار گنا سے بھی کم ہوتی ہے لیکن مجبور و بے روزگار نوجوان اور خواتین اس میں بھی اپنے تعلیم یافتہ کی لاج کسی نہ کسی طرح رکھ ہی لیتے ہیں اور یہاں بھی نام تو صحافی کا ہے، کس نے دیکھا ہے کہ بیچارے کے پیٹ میں روٹی ہے یا نہیں، گھر میں چولہا جلتا ہے یا نہیں؟

مگر لکھوائے کوئی ان کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

یقین کریں اس امدادی پیکیج اور ان بیچاروں کی خدمات کا عملی اعتراف سن کر خوش ہوا، چلو دیر سے ہی سہی لیکن کچھ پوچھ تو ہوئی۔ ایک عجیب بات جو ہمیں حیران کیے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ جس مشیراطلاعات اجمل وزیر نے یہ پیکیج تقسیم کیے اور اس کے ساتھ ان بیچارے کس مپرسوں کا پرس کیا۔ ان کا نام نہ کبھی صحافیوں میں سنا ہے نہ پڑھا ہے جب کہ ان سے پہلے اسی جگہ ایک صحافی بھی صحافت کی برکت دار گاڑی میں بیٹھ کر پہنچے تھے۔

اور لگ بھگ چھ سات سال سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ لیکن کبھی نہ سنا نہ پڑھا کہ اس نے کبھی اپنے قلم و قبیلے سے نسبت کا بھی اظہار کیا ہو، کسی صحافی یا اس کے رشتہ دار کے مرنے پر دعائے فاتحہ کے سوا۔ لیکن موجودہ ایک طرح سے اجنبی اور نا آشنا نے اچھی خاصی آشنائی شناسائی اور قدردانی نبھائی جس پر ہم ان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں اور ساتھ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں اور کردار کو آگے بڑھاتے رہیں۔ کسی کو یقین نہیں آئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ کس مپرس پیشے میں آنے والے بے چاروں پر کیا گزرتی ہے، چند ایک کے سوا اور وہ چند ایک صحافت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی دوسری خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ’’بن‘‘ جاتے ہیں یا خود کو ’’بنا‘‘ ڈالتے کیونکہ ان کو بنانا اور نبھانا دونوں آتے ہیں۔

ہمارے دیکھتے ایسے لوگ بھی آج کروڑوں میں کھیل رہے اور حکومتوں کو دوہ رہے ہیں جن کو ایک جملہ تک لکھنا یا بنانا نہیں آتا تھا لیکن وہ صحافت کی وجہ سے نہیں کثافت کی وجہ سے بنے ہیں ورنہ ہم ان پچاس برسوں کے چشم دید و گوش شنید بلکہ خودگزرید گواہ ہیں۔ ان سچے صحافیوں کو بھی جانتے ہیں کہ جن کو نہ خود بنانا آتا تھا نہ دوسروں کو۔ اس انگریزی کا ’’بنانا‘‘ ہو کر اپنے چھلکے ہی میں سڑگل گئے کیونکہ ان میں سے ایک ہم بھی ہیں۔

تمہارے حلقہ بگوشوں میں ایک ہم بھی ہیں

پڑا رہے یہ سخن کان میں ’’گہر‘‘ کی طرح

اس سے پہلے ایک خوشی اس وقت بھی ہوئی تھی جب اس سے پچھلی حکومت نے ’’فنکاروں‘‘ کا ’’پوچھا‘‘ تھا کیونکہ وہ بھی بیچارے تقریباً وہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں پشتو کہاوت ہے کہ

کتہ باندے نو کٹوئی باندے۔ کتہ لاندے نوکٹوئی لاندے۔ یعنی جب تک گدھے کی پیٹھ پر بوجھ ہے تو چولہے کے اوپر ہانڈی بھی ہے اور جب بھی بوجھ اترا ہانڈی بھی چولہے کے نیچے، بہرحال ہم ایک مرتبہ پھر صوبائی حکومت اور مشیراطلاعات کا تشکر کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ توقع بھی۔ کہ اپنی توجہ ان بیچاروں پر بنائے رکھیں جو ثواب دارین قسم کا کام ہے۔

اور یہ ہم اس لیے نہیں کہہ رہے ہیں کہ اپنا قلم قبیلہ ہے یا اپنا بھی کوئی مفاد ہے، ہم تو اس دور ہی سے نکل آئے ہیں کہ جب دانت تھے تو چنے نہ تھے اور اب چنے ہوں بھی تو کھائیں گے کیسے؟۔ ہمارا تو نظریہ ’’قلم‘‘ ہی دوسرا ہے۔ نہ ہی ہمارے پاس وہ جھولی تھی جو پھیلائی جا سکتی اور نہ ہی وہ گردن جو کسی تمغے کے لیے جھکائی جا سکتی۔ ویسے بھی میرے ایک بزرگ کا قول ہے کہ خود کھاؤ گے تو کوڑا بن جائے گا دوسروں کو کھلاؤ گے تو پھول بن جائے گا اور دوسرے بھی اپنے ہی تو ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔