”باخبر ذرائع کا فون“

سلیم خالق  ہفتہ 30 مئ 2020
وسیم خان اور وسیم اکرم اب ملکر تمام معاملات چلارہے ہیں

وسیم خان اور وسیم اکرم اب ملکر تمام معاملات چلارہے ہیں

”تم لوگ اکثر شکایت کرتے ہو کہ پی سی بی میں سابق عظیم کرکٹرز کو اہمیت نہیں دی جاتی، خوش ہو جاؤ اب ایسا نہیں رہا بلکہ اہم امور میں بھی کردار بڑھتا جا رہا ہے“

ویڈیو کال پر اپنے”باخبر ذرائع“ کی یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا اور سوچنے لگا کہ چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان ہیں تو پھر کہاں کوئی سابق کرکٹر اہم پوسٹ پر آ گیا، ذاکر خان کی کرکٹ اہلیت کو سب ہی جانتے ہیں، انھیں تو بس اپنی تنخواہ اور مراعات سے مطلب ہوتا ہے، رہی بات اقبال قاسم کی زیرسربراہی قائم ربڑ اسٹیمپ کرکٹ کمیٹی کی تواس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگا لیں کہ ندیم خان کو ہائی پرفارمنس سینٹر کا سربراہ چن کر واحد امیدوار کا انٹرویو کرایا اور پھر کہا کہ ”کرکٹ کمیٹی“ کی سفارش پر تقرر ہوا، خیر بات  ”باخبرذرائع“ کی ہو رہی تھی میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس کی بات کر رہے ہیں تو وہ  کہنے لگے کہ ”احسان مانی کو عمران خان لے کر آئے اس لیے انھیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا وہ کرکٹ بورڈ کے بادشاہ ہیں، وہ وسیم خان کے ہرکام میں مداخلت کرنے لگے ہیں جس سے سی ای او پریشان ہو گئے، انھوں نے  وسیم اکرم  سے قربت کرلی جو وزیر اعظم کے انتہائی قریب ہیں، یوں دونوں وسیم مل کر اب معاملات چلا رہے ہیں“ اس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ ایسی ہی سازشی تھیوریز بناتے رہتے ہیں، وسیم خان کو احسان مانی ہی لے کر آئے بھلا وہ  کیوں انھیں کام نہیں کرنے دیں گے، یہ سن کر وہ مسکرائے اور کہا ”پاور میرے دوست پاور، یہ ایسی چیز ہے جس کیلیے بیٹا باپ اور بھائی بھائی کا مخالف ہو جاتا ہے، تم دیکھوحال ہی میں جتنی تقرریاں ہوئیں وہ سب وسیم اکرم کی منظوری سے کی گئیں، ان کو کوئی عہدہ لینا پسند نہیں مگراثرورسوخ بہت زیادہ ہے“ اگر ایسا ہے تووسیم اکرم کے رائٹ ہینڈ معین خان کیوں بورڈ میں نہیں آئے، یہ میرا اگلا سوال تھا۔

اس پر وہ کہنے لگے کہ ”وہ بھی آ جائے گا، ویسے تم یہ بتاؤ کہ معین سے تمہارے اب کیسے تعلقات ہیں“ میں یہ سن کر چونک گیا اور کہا کہ میں نے ایک، دو بار کوشش کی تھی مگر انھوں نے کال رسیو نہیں کی، ساتھی صحافی یحییٰ حسینی اور چند دیگر افراد نے بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ چیف سلیکٹر بننے جا رہے تھے مگر میرے کہنے پر احسان مانی نے تقرر نہیں کیا، مجھے یقین ہے کہ درباریوں نے ان کے کان بھرے ہوں گے مگر ساتھ یہ افسوس بھی ہواکہ وہ کانوں کے کتنے کچے ہیں، اس پر ”باخبرذرائع“ نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ”درباری  یہ اصطلاح تم صحیح لائے، ویسے میں نے بھی یہی سنا ہے لیکن فکر نہ کرو معین بھی کچھ نہ کچھ بن کر آ ہی جائے گا“ ان کی یہ بات سن کر میں سوچنے لگا کہ مجھے احسان مانی سے کتنی امیدیں تھیں کہ وہ پاکستان کرکٹ کے معاملات سدھار دیں گے مگر وہ اتنا بگاڑ لے آئے کہ معاملات ٹھیک کرنے میں بھی کئی برس لگ جائیں گے، پھرمیں نے اگلا سوال کیا کہ ”آپ کو بورڈ کے معاملات کا علم ہوتا ہے یہ بتائیں کہ ان دنوں دنیا بھر میں کرکٹ بورڈز اخراجات کم کر رہے ہیں، ملازمتوں سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے، تنخواہیں کم کر دی گئیں، پی سی بی کے پاس ایسا کون سا خزانہ ہے کہ وہ مطمئن بیٹھا ہے بلکہ لاکھوں روپے ماہانہ پر مسلسل تقرریاں ہونے لگی ہیں، میری یہ بات سن کر انھوں نے تھوڑا وقفہ لیا اور گہری سانس لے کر بولے کہ ”ڈیئر بات یہی ہے کہ سب اپنے بندوں کو فٹ کرنے کے چکر میں ہیں، ڈومیسٹک کرکٹ کو انھوں نے نئے پیکٹ میں لا کر بیچنا چاہا کیاکوئی ایک بھی اسپانسر ملا؟ اب اکیڈمی کو ہائی پرفارمنس سینٹر کا نام دے دیا تو کیا ندیم خان وغیرہ بریڈ مین تیار کرنے لگیں گے، بس پرانے چہرے ہٹانے تھے وہ ہٹا دیے، تبدیلی ویسی ہی آئے گی جیسی انتخابات کے بعد ملک میں آئی، تم یہ بتاؤ کہ جانتے ہو عصر ملک کون ہے؟ یہ ملتان سلطانز کے ساتھ منسلک ہے، اس کے مالک علی ترین کی وسیم خان سے بڑی دوستی ہے، ندیم خان بھی اس فرنچائز سے منسلک تھے، عصر پلیئرز مینجمنٹ کمپنی چلاتا ہے، کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں“۔

یہ سن کر میں نے جواب دیا کہ اب آپ ایسی مایوسی کی باتیں نہ کریں یقیناً ان لوگوں کو کام کا موقع ملے گا تو بہتری تو لائیں گے، اگر آپ کو قریب ہی کوئی باصلاحیت انسان مل جائے تو دور جانے کی کیا ضرورت ہے“اس پر وہ بدک گئے اور کہا کہ ”مسٹر سلیم تمہاری باتیں سن کر لگ رہا ہے کہ شاید تم بھی درباری بن گئے ہو ویسے بھی میں نوٹ کر رہا ہوں آج کل وسیم خان کے بڑے انٹرویوز آ رہے ہیں، آج کی تاریخ نوٹ کر لو اور بعد میں مجھے بتانا کہ کتنے عظیم کرکٹرز سامنے آئے، او بھائی کچھ نہیں ہونے والا، ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے والے ویسے ہی ایڑیاں رگڑتے رہیں گے اور پی ایس ایل میں چند چوکے چھکے لگانے والے فوراً ٹیم میں آ جائیں گے، پھر سب کریڈٹ لیں گے میں اسے لایا میں اسے لایا، بیچارے غریب کرکٹرز، امپائرز، گراؤنڈز مینز اور اسکوررز کا کیا حال ہے تمہیں کچھ پتا بھی ہے“  آپ غصہ نہ ہوں پانی پئیں میں نے ان سے اگلی بات یہ کہی،بطور صحافی میرا حق ہے کہ میں جس سے چاہے بات کروں، کوئی بورڈ آفیشل یا کرکٹر بھی انٹرویو دے کر احسان نہیں کرتا، ویسے ڈومیسٹک کرکٹرز وغیرہ کو بورڈ نے کچھ رقم دی تو ہے، یہ سن کر وہ بولے ”پی سی بی سے یہ  امدادی رقم لینے کے مقابلے میں امریکا کا ویزا ملنا آسان ہے، اتنا مشکل طریقہ کار ہے کہ بہت کم ہی اس پر پورا اتر پاتے ہیں،جسے ملازمت دینا ہوتی ہے اس کی تصویر سامنے رکھ کر اشتہار بناتے ہیں یہ تو تم بھی کہتے تھے، امداد دینے کیلیے اتنی سخت شرائط کیوں رکھیں؟ پوچھو تو بورڈ سے“ یہ سن کر میں نے کہا کہ اب  بعد میں بات کرتے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ ”میں نے سنا ہے کہ اب تو آئی سی سی بھی خبریں لیک ہونے سے پریشان ہے، ویسے کیا وہ بھی صحافیوں کی فون کالز کا ریکارڈ نکلوائے گی اور اینٹی کرپشن یونٹ کو جاسوسی پر لگایا جائے گا“ میں نے کہا کہ میرے ”باخبر ذرائع“ اتنے باخبر نہیں کہ آئی سی سی کی خبریں نکال پائیں،آپ تھوڑا آرام کریں پھر بات کریں گے، ”او کے بائے“، یہ کہہ کر انھوں نے فون بند کر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔