غلام حسین المعروف گاما پہلوان، اکھاڑے کا بادشاہ

میاں اصغر سلیمی  اتوار 31 مئ 2020
غلام حسین المعروف گاما پہلوان دنیائے پہلوانی کا ایک ایسا بادشاہ تھے جس کی جگہ آج تک کوئی نہیں لے سکا۔ فوٹو: فائل

غلام حسین المعروف گاما پہلوان دنیائے پہلوانی کا ایک ایسا بادشاہ تھے جس کی جگہ آج تک کوئی نہیں لے سکا۔ فوٹو: فائل

غلام حسین المعروف گاما پہلوان دنیائے پہلوانی کا ایک ایسا بادشاہ تھے جس کی جگہ آج تک کوئی نہیں لے سکا، ساری زندگی ناقابل شکست رہنے کا اعزاز ہو یا کوئی اور کارنامہ ، گاما نے فن پہلوانی میں ایسی تاریخ رقم کی کہ اس سے پہلے یا شاید بعد میں کوئی بھی دوسرا پہلوان رقم نہ کر سکے۔ مارشل آرٹس کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بروس لی بھی گاما پہلوان کے بہت بڑے مداح تھے۔

گاما پہلوان 22 مئی 1878ء کو بھارتی شہر امرتسر میں پیدا ہوئے،وہ کسی دیومالائی کردار کا حقیقی روپ تھے، انھیں مشرق کا ہرلوکیس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، گھنی لمبی مونچھیں، قد پانچ فٹ سات انچ، چوڑا سینہ تقریبا 46 انچ اور کمر 34 انچ تھی لیکن مزاج ایسا کہ کبھی کسی کمزور پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ دیسی کشتی لڑنے والے پہلوانوں کا خوف ہوتا ہے کہ وہ بوڑھے نہ ہو جائیں۔ لیکن گاما پہلوان تا دم مرگ شاید بوڑھا نہیں ہوا۔ انھوں نے اپنی زندگی کے 50 برس کشتی لڑی اور پھر شاید مایوس ہو کر کنارہ کشی اس لیے اختیار کر لی کہ کوئی بھی پہلوان اکھاڑے میں ان کا سامنا کرنے سے کتراتا تھا۔ تقریبا 400 مقابلوں میں فتح ان کے نام پر ریکارڈ ہے اور وہ زندگی بھر ناقابل تسخیر رہے۔

گاما پہلوان ضلع امرتسر کے ایک گاؤں جبووال میں پہلوانی سے وابستہ ایک مسلمان کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے، والد محمد عزیز بخش بھی پہلوان تھے اور ان کے بڑے بھائی امام بخش بھی پہلوانی کا ایک روشن باب تھے۔ دونوں بھائیوں نے گھر سے ہی پہلوانی کا درس حاصل کیا لیکن گاما پہلوان کی عمر چھ سال ہی تھی جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد وہ اپنے نانا نون پہلوان کے زیراثر رہے۔ نانا کے انتقال کے بعد ان کے ماموں عیدا پہلوان نے ان کی تربیت کی۔

گاما پہلوان پہلی بار پہلوانی کے میدان میں اس وقت منظر عام پر آئے جب 1888 ء میں ریاست جودھ پور کے مہاراجہ نے پہلوانی کا ایک مقابلہ منعقد کروایا۔ اس مقابلے میں ہندوستان بھر سے 400 سے زائد پہلوانوں نے شرکت کی۔ اس مقابلے کے بہترین 15 پہلوانوں میں گاما پہلوان بھی شامل تھے اور اس وقت ان کی عمر صرف دس برس تھی۔ اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر مدھیہ پردیش کی ریاست دتیہ کے مہاراجہ کے زیرسایہ پہلوانی کی تربیت حاصل کی۔

کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ گاما پہلوان کو چیلنج کرتا اور اگر کسی موقعے پر کسی پہلوان نے گاما پہلوان کو مقابلے کی دعوت دی تو گاما کہتے تھے کہ پہلے وہ ان کے بڑے بھائی امام بخش پہلوان کو چت کریں۔ لیکن گاما پہلوان پر قسمت کی دیوی اس وقت مہربان ہوئی جب 1895ء میں انھوں نے 17 برس کی عمر میں اس وقت کے رستم ہند رحیم بخش سلطانی والا کو مقابلے کی دعوت دی۔ رحیم بخش سلطانی والا کا تعلق بھی ایک کشمیری خاندان سے تھا، سات فٹ قد کا حامل یہ پہلوان کسی دیو کی مانند دکھائی دیتا تھا۔ گاما پہلوان نے رحیم بخش کوزیر کر کے رستم ہند کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔

1910ء تک گاما پہلوان رحیم بخش سلطانی والا کے علاوہ ہندوستان کے تمام نامور پہلوانوں کو چت کر چکے تھے، اس کے بعد انھوں نے اپنے بھائی امام بخش پہلوان کے ہمراہ یورپ اور انگلستان کا دورہ کیا اور دنیا کے نامور پہلوانوں کو کشتی میں دو، دو ہاتھ کرنے کی دعوت دی۔ 1910 میں ایک بینجمن نامی شخص گاما پہلوان اور امام بخش پہلوان کو اپنے ساتھ یورپ لے گیا لیکن اٹلی اور فرانس میں کوئی پہلوان ان کے مقابلے میں نہ آیا، پھر وہ لندن پہنچے جہاں دنیا بھر کے پہلوان جمع تھے جن میں ترکی کے رستم محمود، ماریکی پہلوان رولینڈ، اطالوی رستم جان لیمب،انگلینڈ کے ہاک سمتھ اور پولش پہلوان ستنیسواو زبیسکو شامل تھے۔

یہیں گاما پہلوان نے اعلان کیا کہ جو پہلوان ان سے پانچ منٹ تک کشتی لڑے گا وہ انھیں پانچ پاؤنڈ انعام دیں گے، چنانچہ گلاسکو، لیورپول، مانچسٹر وغیرہ میں 40 کشتیاں ہوئیں لیکن کوئی انھیں پچھاڑ نہ سکا تھا۔ بعد میں امریکی رستم رولینڈ نے کشتی لڑی اور گامانے اسے بھی چند منٹوں میں گرا دیا۔ 1910ء میں لندن میں زیبسکو کو ہرا کر رستم زمان کا ٹائٹل اپنے نام کیا اور سونے کی بیلٹ کے حقدار بھی قرار پائے۔ان کا یہ اعزاز 109 برس گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے۔

گاما پہلوان کے اس حوالے سے کئی واقعات مشہور ہیں کہ کس طرح انھوں نے کئی مواقع پر کمزوروں کا ساتھ دیا اور بلاوجہ کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک پھل فروش نے ان کے سر پر وزن کرنے والا باٹ دے مارا تھا جس سے ان کے سر سے خون بہنے لگا لیکن انھوں نے اس پر ہاتھ اٹھانے کے بجائے اپنے گھر کی جانب جانا زیادہ مناسب سمجھا۔ آج بھی مہاراشٹر میں نوجوان پہلوانوں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ’گاما پہلوان جیسا بنیں۔

1947 ء میں گاما پہلوان کا خاندان امرتسر سے لاہور کے علاقے موہنی روڈ پر منتقل ہو گیا تھا جوکہ ایک ہندو آبادی والا علاقہ تھا، شہر میں فسادات کی فضا تھی اور بلوؤں کا خطرہ تھا، اس دوران گاما پہلوان اور ان کے خاندان کے افراد ہندو خاندانوں کی حفاظت کے لیے محلے کے باہر کھڑے ہو جاتے تاکہ کوئی ان پر حملہ نہ کر سکے۔ جب تک تمام ہندو خاندان وہاں سے بحفاظت انڈیا منتقل نہیں ہوگئے انھوں نے یہ ذمہ داری نبھائی۔

گاما پہلوان روزانہ3000 ڈنڈ لگاتے تھے۔ گاما بیٹھکیں لگانے کے لیے 95 کلو وزنی بھاری ڈِسک اٹھاتے اور ورزش کرتے تھے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سپورٹس میوزیم، پٹیالہ، پنجاب، گاما پہلوان کو مہاراجہ آف دتیہ روزانہ 2 بکروں کا گوشت ، 3 سیر( کلو) مکھن، 6 گیلن دودھ، 3 ٹوکریاں پھل، اور 20پاؤنڈ بادام کی سردائی، فراہم کرتا تھا۔

ہمارے پاکستانیوں کو اپنے پہلوان کا تو پتا نہیں لیکن مغربی دنیا میں گاما کی بہت پہچان ہے، بروس لی کراٹے کی دنیا کے بادشاہ گاما کے مداح تھے اور ان کی ٹریننگ اور ورزش کے طریقوں کے آرٹیکل پڑھتے تھے اور ان کو عملی طور پر بھی اپناتے تھے۔اس کے علاوہ سڑریٹ فائٹر گیم میں ڈارن مسٹر کا کردار بھی گاما پر بنایا ہے ایک اور گیم شیڈو آف کنوینٹ میں گاما کا کردار کا پہلوان ڈالا گیا ہے، اس کے علاوہ جاپانی کامک کتاب ٹائیگر ماسک میں بھی گاما کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

پاکستان بنا تو گاما پہلوان اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور آ گئے جہاں انہوں نے اپنے بھائی امام بخش اور بھتیجوں بھولو برادران کے ساتھ بقیہ زندگی گزاری،گاما پہلوان سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کے نانا بھی تھے،انہوں نے اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین سے درخواست کی کہ اگر حکومت میری خوراک کا بندوبست کر دے تو میں دنیا بھر کے ٹائٹلز پاکستان کی جھولی میں ڈال سکتا ہوں مگر گورنر جنرل کو جب گاما پہلوان کی خوراک کا علم ہوا تو انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے معاملہ حکومت کو بجھوا دیا۔

گاما پہلوان بلاشبہ پاکستان کے عظیم سرمایہ تھے،انہوں نے اپنی آخری زندگی کسمپرسی کی حالت میں گزاری،گھر کا نظم ونسق چلانے کے لئے اپنے ٹائٹلز تک بیچے،آخری ایام میں بیمار ہوئے لیکن حکومت نے ان کے علاج میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہ کی اور فن پہلوانی کے بے تاج بادشاہ گاما پہلوان82 سال کی عمر میں 23 مئی1960ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے،انھیں لاہور میں پیر مکی مزار کے قریب قبرستان میں دفن کیا گیا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔