لوٹو پاکستان کو

خرم علی راؤ  پير 1 جون 2020
بجلی کے آئی پی پیز جیسے منصوبوں کے ذریعے پاکستان کو برباد کرنے کی سازش کی گئی۔ (فوٹو: فائل)

بجلی کے آئی پی پیز جیسے منصوبوں کے ذریعے پاکستان کو برباد کرنے کی سازش کی گئی۔ (فوٹو: فائل)

یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت کا ذکر ہے یعنی 1994 کا، کہ امریکا بہادر کی جانب سے بظاہر ایک ہمدردانہ منصوبہ پاکستان کو مستقبل میں لوڈشیڈنگ سے محفوظ رکھنے کےلیے پیش کیا گیا اور اس کی منظوری کےلیے کہا گیا۔ یہ منصوبہ انڈیپینڈنٹ پاور پروجیکٹس کا تھا۔ ابتدائی کارروائیوں کے بعد اس وقت کے حکمرانوں نے بجلی بنانے کی نجی کمپنیوں سے ایسے معاہدے کیے جن کی شرائط کا زیادہ تر فائدہ نجی کمپنی کو تھا، بجلی خریدنے والے سرکاری ادارے اور صارفین کو نہیں۔

ایک تو نجی کمپنیوں کو حکومت نے یہ ضمانت دی کہ وہ ہر حال میں ان کی بجلی کی ایک خاص مقدار کی قیمت لازمی طور پر ادا کرے گی، خواہ استعمال کرے یا نہ کرے۔ یہ ضمانت اس لیے دی گئی کہ بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کار اربوں روپے لگاتا ہے۔ وہ بے یقینی کی کیفیت میں سرمایہ نہیں لگا سکتا کہ اس کی بنائی ہوئی چیز منڈی میں فروخت ہو یا نہ ہو۔ دوسرے، ان کمپنیوں سے بجلی خریدنے کا جو نرخ (ٹیرف) مقرر کیا گیا وہ بہت زیادہ تھا۔ اس معاملے پر اس وقت نجی ماہرین نے بہت کچھ شور مچایا لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں بجلی بہت مہنگی ہوگئی۔

اس منصوبے پر مجموعی طور پر 17 آئی پی پیز نے 51.80 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جو اب تک 415 ارب روپے منافع اور 310 ارب روپے کا ڈیویڈنٹ حاصل کرچکے ہیں۔ 2002 کے مشرف دور میں اصل پاور پالیسی کو تبدیل کرکے آئی پی پیز کو مزید اضافی مراعات دی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ مراعات حاصل کرنے والوں میں حکومت میں شامل وزیر اور مشیر کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی کی کمپنی مبینہ طور پر پیش پیش تھی۔ پالیسی کے تحت ٹیرف کے نرخ روپے کے بجائے ڈالر میں کرنے سے آئی پی پیز کا طے شدہ منافع 17 فیصد کے بجائے 27 فیصد تک پہنچ گیا، جس میں روپے کی ڈی ویلوایشن بھی شامل تھی۔

اس کے علاوہ بجلی نہ لینے کی صورت میں بھی آئی پی پیز کو 60 فیصد کیپیسٹی سرچارج کی ادائیگی اور فیول کی مد میں اربوں روپے اضافی دیے گئے، جن سے ان کمپنیوں کا منافع 50 سے 70 فیصد تک پہنچ گیا اور سرکلر ریٹ بڑھتے بڑھتے 1400 ارب روپے تک پہنچ گیا، جبکہ آئی پی پیز کی اضافی ادائیگیوں کی وجہ سے نیپرا کو بجلی کے نرخ بار بار بڑھانے پڑے اور اس طرح ہماری صنعت کو دی جانے والی بجلی خطے میں سب سے مہنگی ہوگئی۔ جس کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ہم عالمی منڈیوں میں مقابلے کے قابل نہیں رہے اور گزشتہ کئی سال میں پاکستان کی درآمدات غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہیں۔

ایک اورحالیہ سرکاری رپورٹ میں گزشتہ20 سال سے وزارت بجلی اورنیپرا کی ناقص کارکردگی اور کوتاہیاں بھی بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزارت بجلی اور نیپرا نے آئی پی پیز کی سنگین کوتاہیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ آئی پی پیز غلطیوں والے طریقہ کار کے تحت انٹرنل ریٹ آف ریٹرن وصول کرتی رہیں اور ان کے قرض ادائیگی کے تعین کا طریقہ کار ناقص ہے۔ کمپنیوں کے ساتھ ڈالر میں طے آئی آر آر کو روپے کی قدر میں کمی کے باعث کبھی فکس کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

آئی پی پیز نے زیادہ بجلی پیداواری ٹیرف حاصل کرنے کیلیے نیپرا کو غلط معلومات دیں۔ کمرشل آپریشنز ڈیٹ ٹیرف کےلیے غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ 2002 پاور پالیسی والے آئی پی پیز نے فیول کی مد میں 210 ارب روپے کی اضافی وصولی کی۔ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو 105 ارب روپے کی اضافی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق طریقہ کار کو درست نہ کیا گیا تو آئندہ یہ کمپنیاں 1 ہزار 23 ارب روپے کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گی۔ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو 105 ارب روپے کی اضافی ادائیگی کی جاچکی۔

اب یہ ساری مذکورہ بالا رپورٹس اور تحاریر مصدقہ ذرائع سے حاصل شدہ اور پہلے سے شائع شدہ ہیں اور ان میں بیان ہونے والی مالی بے ضابطگیوں کی رقم گزشتہ پچیس سال میں ڈیڑھ ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے۔ کیا سمجھے؟ ڈیڑھ ہزار ارب روپے سے زیادہ! ذرا دیکھیں کہ 1994 میں امریکا بہادر کے ایک پیش کردہ بظاہر پاکستان کےلیے فائدہ مند منصوبے میں کیسا دام ہمرنگ زمیں تھا۔

ایک قدم جس سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کےلیے بیک وقت کئی فائدے اٹھائے گئے کیونکہ بجلی کی ضرورت زندگی کے ہر شعبے میں لازمی ہے اور ان نقصانات میں مثلاً جیسے میں اور آپ برسوں سے جو مہنگی بجلی کے بل بھر بھر کر دہرے ہوچکے ہیں، میرا صنعتکار بجلی مہنگی ہوجانے کے سبب بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی برآمدات کےلیے مقابلے سے باہر ہوگیا، زراعت کے شعبے پر جو منفی اثرات اس کی وجہ سے مرتب ہوئے وہ اپنی جگہ، مہنگی بجلی سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں تیاری کی لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ اور پھر گردشی قرضوں کی لعنت۔ یہ سب اپنی جگہ پر ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کو برباد کردینے والے ایسے منصوبے عمل میں لائے جارہے تھے جب حکومت پاکستان نہیں بلکہ ریاست پاکستان مختلف ایسی ضمانتیں دی رہی تھیں جو کہ حیرت انگیز طور پر آئی پی پیز کو ہر لحاظ سے فائدہ ہی فائدہ دے رہی تھیں، اس وقت ہمارے لیڈران اور رہبران، نوکر شاہی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل لوگ جن کی قابلیت میں اضافوں کےلیے اور قومی اور بین الاقوامی کورسز پر، تربیت پر ریاست پاکستان لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے اورتوانائی کے وزرا اور دیگرسرکاری ماہرین کیا کررہے تھے؟

ملکی تاریخ میں ایسے نہ جانے کتنے ہی چھوٹے بڑے منصوبے اور پروپوزل منظور کرلیے گئے اور پاکستان کو نقصان پہنچتا رہا لیکن وطن عزیز کے ذمے داران اور بڑے گونگے کا گڑ کھاکر چپ چاپ خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے، کیونکہ اس گڑ کی کئی قسمیں بڑی صحت افزا، ذاتی زر افزا اور میٹھی ہوتی ہیں۔ اب موجودہ حکومت نے چلیے کم از کم اس سارے معاملے کو بے نقاب تو کیا ہے لیکن اگر اس ساری بے نقاب کرنے کی کارروائی اور اس سارے فرانزک آڈٹ کے نتیجے میں آئی پی پیز کے علاوہ دیگر قصوروار پائے جانے والے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی چھوٹے بڑے لٹیروں کی خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی اور ان سے وہ سب وصول نہیں کیا گیا جو انہوں نے بڑی سرد مہری، سفاکی اور خودغرضی سے ریاستی خزانے سے اور عوام کی جیبوں سے لوٹا ہے تو پھر یہ ساری کارروائی نہ صرف نمائشی قرار پائی جائے گی بلکہ موجودہ حکومت کے گلے کا سب سے بڑا طوق بھی ثابت ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔