کورونا وبا: رویئے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟

کورونا وائرس ہمارے گلی محلوں تک پہنچ چکا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کورونا وائرس ہمارے گلی محلوں تک پہنچ چکا ہے۔ (فوٹو: فائل)

آئیے آج کورونا کی وبا کو اس کے پھیلاؤ کے حساب سے مختلف مرحلوں میں تقسیم کرکے دیکھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلا مرحلہ: کورونا کی پاکستان آمد

اس وبا کا پہلا مرحلہ چین میں پھیلتے ایک نئے وائرس کی بین الاقوامی اور قومی میڈیا میں تذکرے سے شروع کرتے ہوئے ملک میں لاک ڈاؤن کے نفاذ سے پہلے تک محیط قرار دے سکتے ہیں۔ اس مرحلے کے دوران ہمیں ایک نئی بیماری کا علم ہوا، جو کہ ہماری سرحدوں سے قریب ہی منڈلا رہی تھی، مگر ملک میں کوئی مریض موجود نہیں تھا اور نہ ہی کوئی خاص تیاری کی گئی۔ سرکاری طور پر چین میں موجود پاکستانی طلبا کو چین میں ہی رہنے کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی یہاں ان بچوں کے والدین کو چینی حکومت کی جانب سے خیال کیے جانے کی یقین دہانی کروائی گئی۔ اس اثنا میں کئی طلبا جنھیں موقع ملا، وہ وہاں سے جان بچا کر بھاگ آئے۔ کوئی بذریعہ ملائیشیا آیا تو کوئی براستہ تھائی لینڈ، لیکن ایک بڑی تعداد آج بھی چین میں ہی مقیم ہے اور وہاں حالات معمول پر آنے کے بعد آہستہ آہستہ تعلیم و تحقیق میں مشغول ہونے لگی ہے۔ اسی دوران ایران میں بڑی شدت کے ساتھ کورونا کی وبا پھوٹی اور دیکھتے دیکھتے متاثرہ افراد کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرگئی۔

ہمارے لیے چین کے مقابلے میں ایران میں وبا کا پھیلنا زیادہ خطرناک ثابت ہوا، کیونکہ ہمارے یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں اہلِ تشیع اور دیگر مسلمان مقدس و متبرک مقامات اور مزارات کی زیارت کی غرض سے ایران میں موجود تھے اور ان کی کافی تعداد ایران میں قیام و سفر کے دوران اس وائرس کا شکار ہوئی۔ ایران میں وبا پھوٹنے کی خبریں قومی و بین الاقوامی میڈیا میں آئیں اور حسبِ معمول ہم نے کوئی خاص تیاری کی اور نہ ہی کوئی حفاظتی اقدامات اٹھائے۔ نتیجتاً جب زائرین کی واپسی شروع ہوئی تو ہبڑدبڑ اور بدحواسی کا ایک ایسا عالم دیکھنے کو ملا کہ بنیادی سہولیات کے بغیر قرنطینہ مراکز بنائے گئے اور آنے والے زائرین کو ان میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔

اس عرصے میں صرف چین اور ایران ہی میں وائرس موجود نہیں تھا بلکہ باقی ممالک میں بھی اس وبا کے اثرات محسوس کیے جانے لگے۔ اگرچہ کہیں ان اثرات کی شدت زیادہ تھی اور کہیں کم۔ جس کے باعث دنیا بھر کے ممالک آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کی جانب بڑھنے لگے تو وہاں موجود پاکستانیوں نے گھروں کی راہ لی۔ کوئی یورپ سے آیا تو کوئی امریکا اور کوئی خلیج سے۔ ان سب میں ایک مناسب تعداد وائرس سے متاثرہ تھی، مگر ان کی چیکنگ کا مناسب اور بروقت انتظام نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح جہاں ایک جانب ہم نے غم سے نڈھال ہوتے ہوئے یہ خبر سنی کہ مسجد الحرام میں طواف بند کردیا گیا ہے مگر ہم اس امر کا ادراک نہیں کرسکے کہ جتنے پاکستانی اس وقت عمرہ کی غرض سے وہاں موجود ہیں وہ بھی ممکنہ طور پر وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں، اور واپسی پر ان کے ساتھ وائرس بھی پاکستان آسکتا ہے۔

باہر سے آنے والے پاکستانی چاہے وہ ایران سے آئے ہوں یا سعودیہ سے، امریکا سے پہنچے ہوں یا یورپ سے، ان سب کے ذریعے وائرس ملک میں داخل ہوا اور اسی دوران ملک میں پی ایس ایل کے میچز بھی منعقد ہوئے اور تبلیغی جماعت کا اجتماع بھی، جہاں لاکھوں لوگ جمع ہوئے اور وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔

اور پھر پاکستان میں کورونا کا پہلا مثبت مریض رپورٹ ہوا۔ کچھ عاقبت نااندیش لوگ اس دوران بھی اپنے الو سیدھے کرنے میں لگے رہے۔ کہیں اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تو کہیں مرکز اور صوبوں کے درمیان کھینچ تان کا موقع سمجھا گیا۔ اس مرحلے میں قدرت کی طرف سے ہمیں بطور ریاست و انتظامیہ تیاری کےلیے کافی وقت ملا لیکن ہم اپنے قومی شعارِ لاپرواہی کا پاس کرتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ ہم اپنے ڈاکٹروں اور نرسوں کےلیے ماسک اور دیگر حفاظتی اشیا کا خاطر خواہ انتظام نہیں کر پائے اور نہ ہی ہم نے قومی سطح پہ کوئی جامع پالیسی بنانے پر کام شروع کیا۔
دوسرا مرحلہ: لاک ڈاؤن کا نفاذ اور فوائد

دوسرے مرحلے میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کے باعث پہلے صوبہ سندھ میں اور پھر باقی ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔ دفاتر، مساجد، بازار اور تعلیمی ادارے بند کردیے گئے اور پوری قوم ٹی وی کے سامنے اپنا سانس تھامے بیٹھ کر کورونا کورونا کا ورد کرنے لگی۔ اس مرحلے میں جہاں ایک طرف وفاقی سطح پر اعتماد کی شدید کمی نظر آئی، وہیں صوبوں کے درمیان بھی رابطے کے فقدان کا مشاہدہ ہوا۔ ذاتی طور پر میں اس لاک ڈاؤن کو صحیح معنوں میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں سمجھتا، مگر جیسا کہ اپنے ایک پچھلے مضمون میں اعداد و شمار کے ساتھ بتا چکا ہوں کہ اس جزوی ہی سہی لیکن اس لاک ڈاؤن کی بدولت اپریل کے اختتام تک ماہرین کے اندازوں اور تخمینوں کے برعکس تقریباً اڑتیس ہزار لوگ اپنے گھروں میں رہنے کے سبب اس وائرس کا شکار بننے سے بچے رہے۔
تیسرا مرحلہ: لاک ڈاؤن کی اسمارٹنس

رمضان المبارک کے آغاز سے قبل ہی ایک طرف وفاقی حکومت کی جانب سے آنے والے متضاد بیانات اور تاجروں، دکانداروں، دیہاڑی دار اور علمائے کرام کی طرف سے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے مطالبات آنے لگے۔ ان مطالبات کے آگے مخمصے کا شکار انتظامیہ اور لاک ڈاؤن کی مخالف وفاقی حکومت نے گھٹنے ٹیک کر ’’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘‘ جیسے خرافاتی تصور کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔ محبوب کی کمر کی طرح کے اس اسمارٹ لاک ڈاؤن نے، جو کہ بقولِ شاعر
تمہارے، لوگ کہتے ہیں، کمر ہے
کہاں ہے، کس طرح کی ہے، کدھر ہے

دوسرے مرحلے کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔ کیسے؟ مئی کے پہلے ہفتے میں جب وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن کو ’’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘‘ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تقریباً ختم ہی کردیا تھا، اس وقت ملک بھر میں تقریباً 21-22 ہزار کے لگ بھگ مریض تھے اور 30 مئی کو یہ تعداد 69 ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے۔

ایک بات جان لیجیے لاک ڈاؤن صرف اسی صورت میں موثر ہوگا اگر مکمل طور پر کیا جائے، لیکن نیم دلانہ قسم کا واجبی سا لاک ڈاؤن چاہے آپ اسے کتنا ہی اسمارٹ سا نام کیوں نہ دے دیں وہ اپنی تاثیر کھو دے گا۔ اس امر کی وجہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کا مقصد وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، اور وائرس پھیلتا ہے لوگوں کے ملنے جلنے اور بے احتیاطی سے۔ اگر آپ دفاتر، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، مساجد غرض سب کچھ بھی بند کردیں لیکن لوگ احتیاطی تدابیر نہ اختیار کریں تب بھی وائرس پھیلے گا اور اگر آپ کچھ جگہیں مثلاً مساجد اور بازار کھول دیں اور دفاتر اور تعلیمی ادارے بند کردیں تب بھی وائرس نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے۔

زیرِ نظر چارٹ میں آپ کو یکم اپریل سے 30 مئی تک ہر دس دن کے مریضوں کی اوسط تعداد دکھائی دے رہی ہے۔

اپریل کے ابتدائی عشرے میں اوسطاً ساڑھے تین ہزار کورونا کے مریض تھے جو اگلے دس دنوں میں دگنے ہوکر 6800 ہو گئے۔ اسی طرح اپریل کے اختتامی عشرے میں مریضوں کی اوسط 13100 کے لگ بھگ تھی. اس ایک ماہ میں مریضوں کی اوسط تعداد میں 10 ہزار کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ جبکہ اگلے مہینے کے ابتدائی دس ایام میں یہ تعداد چھلانگ مار کر 13 ہزار سے 23900 تک پہنچ گئی. یعنی جتنا اضافہ پورے اپریل کے مہینے میں ہوا وہ محض مئی کے ابتدائی عشرے میں ہی ہوگیا۔ مئی کے درمیان میں پھیلاؤ کی رفتار میں مزید تیزی آئی اور 16 ہزار کے اضافے کے ساتھ کورونا سے متاثرین کی اوسط تعداد 40 ہزار کے لگ بھگ ہوگئی۔ مئی کے اختتام تک تقریباً 20 ہزار کے اضافے کے ساتھ مریضوں کی اوسطاً تعداد 69 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ جبکہ اس دوران عید کے ایام میں معمول سے تقریباً نصف تعداد میں ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور مزید ڈیٹا بھی ابھی آنا باقی ہے۔

عزیزانِ من مجھ میں اس وبا کے چوتھے مرحلے کی بابت لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ یہ وائرس ہمارے گلی محلوں تک پہنچ چکا ہے اور خدا بچائے، ہمارے گھروں کی دہلیز پار کرکے اند داخل ہونے کو ہے۔ مریضوں کی تعداد میں جتنا اضافہ (تین ہزار سے تیرہ ہزار تک) پورے اپریل کے مہینے میں ہوا وہ (ساٹھ سے ستر ہزار) صرف گزشتہ 4 ایام میں ہو چکا ہے۔ آپ اسی سے اس وائرس کے پھیلاؤ میں آتی تیزی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

70 ہزار کے لگ بھگ مریضوں کی تعداد ہمارے نظامِ صحت کی استعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اوپر سے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف میں پھیلتا یہ وائرس مستقبل کی نہایت بھیانک منظرکشی کررہا ہے۔ آپ سے اس سوال پر رخصت چاہوں گا کہ عوام کی لاپرواہی و بے احتیاطی کی قیمت کوئی ڈاکٹر، کوئی نرس یا پھر کوئی ٹیکنیشن اپنی جان سے کیوں ادا کرے؟ اسپتالوں میں اپنی روزی روٹی کمانے والے چاہے ڈاکٹر ہوں یا نرس، لیبارٹری میں کام کرتا کوئی ٹیکنیشن ہو یا صفائی کرنے والا جمعدار، یہ سب کیوں اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیاں آپ کی بے احتیاطی کی بھینٹ چڑھائیں۔ ذرا سوچیے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔