جامعات میں تدریس کیسے ہو۔۔۔؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 2 جون 2020
’ایچ ای سی‘ اور دیگر ذمے داران پالیسی مرتب کرنے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

’ایچ ای سی‘ اور دیگر ذمے داران پالیسی مرتب کرنے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

’کورونا‘ کی صورت حال میں ایک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ’سماجی فاصلے‘ کے ساتھ تعلیمی عمل کیسے ممکن بنا یا جائے۔

راقم چوں کہ جامعہ کراچی میں تدریس وتحقیق کے فرائض انجام دے رہا ہے، جہاں کم و بیش 25 ہزار سے زائد طلبہ ’سیمسٹر سسٹم‘ کے تحت تعلیم حاصل کرنے جامعہ آتے ہیں، چناں چہ اس تناظر میں ذیل میں چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر غور کر کے ملک بھر کی سرکاری و نجی جامعات، ’ایچ ای سی‘ اور دیگر ذمے داران پالیسی مرتب کرنے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔

1۔ جامعات میں طلبہ کی بڑی تعداد فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ اور فورتھ ایئر کی ہوتی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر جامعہ پہنچتی ہے، لہٰذا سب سے پہلے (عارضی طور پر) ہفتے کی چھٹی ختم کر دی جائے، اس طرح ہفتے میں چھے دن تدریس کے ہوں گے، اس کے بعد فرسٹ اور سیکنڈ ایئر کو ہفتے کے ابتدائی تین دن اور تھرڈ ایئر و فورتھ ایئر کو آخر کے تین دن کلاس کے لیے بلا یا جائے یا پھر متبادل دنوں میں بلایا جائے، اس طرح ہر جامعہ میں طلبہ کا آدھا رش اس ایک فیصلے سے ختم ہو جائے گا۔

2۔ تمام ڈین فیکلٹی اور ان فیکلٹی کے تمام شعبہ جات کے صدور کو باہمی رضا مندی سے طلبہ کی کلاسوں کے دورانیے اور پیریڈ طے کرنے کی مکمل آزادی دی جائے کہ وہ جس طرح چاہیں، اس تناظر میں تقسیم کر کے طے کرلیں کہ طلبہ کا رش یا تعداد ایک وقت میں کم سے کم جمع ہو۔ مثلاً فرسٹ ائیر کے طلبہ کے لیے کلاسز کے پیریڈ صبح ساڑھے آٹھ بجے سے اور سیکنڈ ائیر کے گیارہ بجے سے شروع کیے جائیں، نیز اسی طرح جو اساتذہ اپنے طلبہ کی کچھ کلاسوں کو ’آن لائن‘ لینا چاہیں اس کی انہیں اجازت دی جائے۔

3۔ تمام طلبہ کو سختی کے ساتھ پابند کیا جائے کہ وہ صرف اپنے اوقات میں ہی جامعہ میں رہیں اور اپنا طے شدہ وقت ختم ہونے کے بعد ’کیمپس‘ سے چلے جائیں۔

4۔ اسی طرح اساتذہ کو اس بات کی بھی اجازت دی جائے کہ وہ طلبہ کا رش کم کرنے کے لیے خود سے بھی پیریڈ کے اوقات کار (مضمون کے ضرورت کے مطابق) کم کرکے انہیں پڑھنے کا مواد مہیا کرے، تاکہ طلبہ کا وقت ’کیمپس‘ میں کم سے کم گزرے۔ یہ عمل لازمی مضامین مثلاً اردو، انگریزی، اسلامیات اور اردو کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ ان تمام لازمی مضامین کی کلاسوں میں طلبہ کی بہت بڑی تعداد بہ یک وقت شریک ہوتی ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات کمرے میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔

5۔ طلبہ کے سیمسٹر کے دورانیے کو طے شدہ پروگرام سے ایک ماہ مزید بڑھا دیا جائے اور آئندہ کے دو سیمسٹر بریک سے پندرہ، پندرہ روز کم کر لیے جائیں۔ یوں گزشتہ ایک ماہ کی تعلیمی و تحقیقی عمل کے بند ہونے کا ازالہ ہو جائے گا، (گو کہ اس میں اساتذہ کی چھٹیوں کا نقصان ہوگا، تاہم جامعات کے وائس چانسلر اور ’ایچ ای سی‘ کے ذمے داران اساتذہ کے دبے اور رکے ہوئے جائز مطالبات مان کر اساتذہ کو خوش دلی سے اس پر راضی کر سکتی ہے۔)

6۔ کلاس کے علاوہ بھی طلبہ کے لیے ’ایس او پیز{‘ پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے، کہ وہ جامعہ کی حدود میں ڈھابے اور کینٹین وغیرہ میں اپنی بیٹھکوں میں بھی آپس میں ’سماجی فاصلے‘ کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

7۔ امتحان کے انعقاد کے لیے بھی طلبہ کی تعداد کو تقسیم کر دینا مناسب ہوگا اور اس سلسلے میں اساتذہ کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنی کسی بڑی کلاس (مثلاً 50 طلبہ کی کلاس) کے امتحانی پرچے دو گروپ بنا کر لیں یا شعبے کی سطح پر امتحانی شیڈول اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ایک وقت میں گنجائش کے مطابق کم سے کم طلبہ حاضر ہوں، مثلاً عام حالات میں ایک ہی شعبے میں چار سے پانچ کلاسوں کے امتحان منعقد ہوتے تھے، لہٰذا اب سماجی فاصلے کے تناظر میں گنجائش کم کر کے دو یا تین کلاسوں کے امتحان روزانہ کی بنیاد پر لیے جائیں۔

امید ہے کہ کورونا کے حوالے سے ان احتیاطی تدابیر پر غور کرکے تعلیمی نقصان دور کرنے اور مسائل حل کرنے میں مدد حاصل کی جائے گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔