یہ لوگ کون ہیں؟ 

سعد اللہ جان برق  منگل 2 جون 2020
barq@email.com

[email protected]

ہمارے صوبے کے مدرالہام جناب محمود خان نے کہاہے کہ ’’لوگوں‘‘کو مختلف خدمات اور سہولیات گھر بیٹھے فراہم کی جاری ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے لیکن ’’سچ‘‘ہونے کے باوجود تھوڑی سی رسوائی تو نہیں البتہ ’’رازداری‘‘کی ہے، اس لیے ہم ان ’’لوگوں‘‘کے بارے میں تو بتا نہیں پائیں گے جن کو ’’گھربیٹھے بیٹھے‘‘ یہ سب کچھ پہنچایا جارہاہے۔ حالانکہ ہمارے پیشے،مشغلے اور شوق بلکہ فرض کا بھی تقاضا ہے کہ ہم اپنی تحقیقی صلاحیت اور ٹٹوئے تحقیق کو کام میں لاکر یہ تحقیق کرلیں کہ وہ’’لوگ ‘‘کون ہیں؟کہاں ہیں؟ کس طرف ہیں اور کدھر ہیں۔

جن کو اتنا سارا مال ومتاع گھر بیٹھے یا دہلیز پر یا وزیراعلیٰ کے ایک اور بیان کے مطابق ’’کچن‘‘میں پہنچایا جا رہاہے۔اور وہ یقیناً وہی لوگ ہوں گے جن کی دہلیز پراس سے پہلے انصاف پہنچایا جارہاتھااور ’’انصاف‘‘ کا مطلب تو آپ جانتے ہیں کہ نصف نصف، ففٹی ففٹی، آدھی تیری آدھی میری ہوتاہے لیکن ہم یہ تحقیق نہیں کریں گے کیونکہ بات نہ صرف رازداری کی ہے بلکہ ثواب دارین کی بھی ہے، بتانے دکھانے اور بیان کرنے سے ’’نیکی‘‘کا ثواب زائل ہوجاتاہے ع

می خور کہ صد گناہ زاغیار درحجاب

بہترز طاعتے کہ بہ روئے ریا کنند

یعنی شراب پیو چھپا چھپا کے، کچھ بھی کرو کہ  ’’ایسا‘‘اس ثواب سے بہتر ہے جو دکھانے کے لیے کیا جائے اور پھر ریاست مدینہ میں تو آپ کوپتہ ہے کہ خلیفہ خود بیت المال سے وہ سب کچھ جس کا ذکر وزیراعلیٰ نے کیاہے، اپنے کاندھے پراٹھا کر مستحقین کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔ویسے کچھ باوثوق ذرایع سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کچھ پراسرار لوگ رات کو بکل مار گلیوں کوچوں میں نکلتے ہیں۔ع

اندھیری راتوں میں

سنسان راہوں میں

ایک مسیحا نکلتاہے

لیکن یہاں’’نکلتا‘‘ہے کی جگہ ’’نکلتے‘‘ہیں، یہاں وہاں سن گن لیتے ہیں، کسی گھر سے بچوں کے رونے، جوانوں کے گرجنے، بوڑھوں کے کھانسنے، بیوی کے چیخنے اور شوہر کے منمنانے کی آواز آتی ہے تو فوراً نوٹس بلکہ سختی سے نوٹس لیتے ہیں، تھیلے سے ’’اولین ترجیح‘‘نکالتے ہیں اور آگے وہ سب کچھ جو وزیراعلیٰ نے کہاہے، وزیراعظم کہتے ہیں، وزیر ومشیر گاتے ہیں، اخبارات چھاپتے ہیںاور چینل اڑاتے ہیں اور یہ بات کہنے کی توضرورت نہیں کیونکہ آپ خود جانتے ہیں کہ یہ سب صرف سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا اور کچھ نہیں بولتے۔یہ تو ہم نے صرف ان صادقوں اور امینوں کی بات کی ہے جو صادق اور امین بھی ہیں اور انصاف دار بلکہ انصاف کے علمبردار بھی اور’’انصاف‘‘کا مطلب تو ہم بتاچکے ہیں۔

ان کے علاوہ سنا ہے اور بھی بہت سارے ’’پروگرام‘‘ ہیں جو چل رہے ہیں اور ’’رضاکار‘‘ ان کو ’’چلا‘‘ رہے ہیں اور یہ دونوں کام یعنی ’’ چل اور چلا‘‘بھی اسی پرنسپل اصول ’’نصف لی ونصف لک‘‘کی بنیاد پر ہورہے ہیں۔ یہاں پر ہمیں اچانک محسوس ہوا کہ شاید پڑھنے والے انصاف کا غلط مطلب نہ نکالیں مثلا’’بیت المال‘‘سے جو تحفہ یا مال ومتاع ’’باہر‘‘سے آیا ہوتا ہے اب آگے بہت سارے مقامات بلکہ پڑاؤ بلکہ ترازو اور بھی ہوتے ہیں اور ان سب میں ’’انصاف‘‘کا سلسلہ چل رہا ہوتاہے۔نصف کا نصف، پھر اس کا نصف، یوں نصف درنصف۔ مطلب یہ کہ انصاف ہی انصاف ع

بر روئے شش جہت در آئینہ باز ہے

یا ۔۔ناقص وکامل نہیں رہا

بہرحال ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ وہ سب کچھ گھر بیٹھے یا دہلیز پر ’’لوگوں‘‘کو پہنچایا جا رہا ہے اور اس کا ہلکا سا ثبوت یہ بھی ہے کہ ’’لوگ‘‘ بھی ’’پہنچ‘‘ رہے ہیں جہاں انھیں ’’پہنچنا‘‘چاہیے۔ خبرمیں یہ بات بڑی کام کی بتائی گئی ہے کہ وزیراعلیٰ کے اسی رضاکار پروگرام کے تحت کال سینٹرز کے ٹول نمبرپر ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے معلومات حاصل کیں البتہ جن لوگوں نے معلومات حاصل کیں ان کے بارے میں معلومات کا کوئی پتہ نہیں کہ ان میں سے ’’کھیت‘‘کتنے تھے اور گھوڑے کتنے اور اب وہ گھوڑے اور کھیت کہاں ہیں کیونکہ یہ گھوڑے اور کھیت بھی ’’لوگوں‘‘یا ان لوگوں کی طرح صیغہ راز میں ہیں جن کو گھر بیٹھے بیٹھے ’’انصاف‘‘ پہنچایا جا رہا ہے، وہ انصاف جو ’’انصاف‘‘ کے ذریعے چل رہا ہے۔

کل ملا کر بات یہ بنی کہ صوبے میں ’’کورونا‘‘ کے خلاف جنگ انتہائی شدت سے جاری ہے، اس کاپتہ اخباری بیانات سے ہوتاہے جن میں ’’ہمارے سوا ‘‘باقی سب نے جان پر (دوسروں کی) کھیل کر کام کیاہے یا دکھایا ہے، ہم نے ’’ہمارے سوا ‘‘اس لیے کہاہے کہ ابھی تک کورونا کے خلاف ’’جہادیوں‘‘میں ہمارا نام نہیں آیا ہے حالانکہ ہم نے ’’کورونا‘‘ کو جتنی بددعائیں دی ہیں، اتنی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نے بھی نہیں دی ہوں گی کیونکہ ہم نے بددعاوں کے ساتھ گالیوں کا اضافی پیکیج بھی دیاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔