ایک کالے کی موت پر ہڑبونگ

وسعت اللہ خان  منگل 2 جون 2020

ہمارے معیار کے اعتبار سے کسی بھی گناہگار یا بے گناہ کا پولیس کے ہاتھوں ٹارچر یا غلطی سے مرجانا، تھوڑی بہت ہاہا کار مچنا اور پھر اسی طرح کے اگلے واقعے تک زندگی معمول پر آجانا کوئی بڑی بات نہیں۔

ریاست، عدلیہ اور عام آدمی سب نے ایسے واقعات و سانحات کو ایک ناخوشگوار معمول سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ایسے ممالک میں قانون محض کاغذی ہے لہذا مثالی انصاف کا حصول ناممکن ہے۔ ابھی ہمیں تہذیب کے اگلے مرحلے تک پہنچنے تک کئی عشرے درکار ہیں۔

مگر جب ہم غیر مہذب لوگ امریکا جیسی درجہِ اول کی آزاد دنیا سے آنے والی خبریں سنتے ہیں کہ وہاں ایک بار پھر نسلی کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔سرکاری املاک کو نذرِ آتش کیا جا رہا ہے اور فسادات جنگل کی آگ کی طرح ایک سے دوسری ریاست میں پھیل گئے ہیں اور وفاقی حکومت نے ریاستی حکومتوں کی مدد کے لیے نیم فوجی نیشنل گارڈز بھیج دیے ہیں تو اچانک سے جھٹکا لگتا ہے کہ ہمارے غیر ترقی یافتہ اور ان کے ترقی یافتہ سماج میں تعصب و تہذیب کے بیچ فرق اگر ہے بھی تو آخر کتنا؟ اور وہ اگر ہم سے برتر ہیں تو کس اعتبار سے اور ہم ان سے کیا واقعی ہر لحاظ سے کمتر ہیں ؟

ہمارے دیسی معیار سے یہ کوئی اتنے بڑے ردِعمل کو جنم دینے والی بات تو نہیں تھی کہ پچاس ریاستوں میں سے ایک ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں جارج فلائیڈ نامی کوئی سیاہ فام کنگلا ایک اسٹور میں بیس ڈالر کے جعلی نوٹ سے خریداری کی کوشش میں پکڑا گیا۔پولیس نے اسے بے بس کرنے کے لیے نیچے گرا لیا اور ایک نے اس کی گردن کے پچھلے حصے پر اپنا گھٹنا رکھ دیا۔ جارج فلائیڈ کہتا رہا میرا دم گھٹ رہا ہے۔مگر پولیس افسر نے تب تک گھٹنا نہیں ہٹایا جب تک جارج کا دم نہیں نکل گیا۔

جارج فلائیڈ کے آخری الفاظ ’’ میرا دم گھٹ رہا ہے‘‘ شہری حقوق کی سیاہ فام تحریک کا نیا نعرہ بن گیا ہے۔فسادات پھیل گئے۔صدر ٹرمپ نے بھی ایک متنازعہ ٹویٹ کر دی ’’ جہاں لوٹ ہو گی وہاں شوٹ ہو گی‘‘۔

چار پولیس افسروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔مگر فرسٹ ڈگری کے بجائے تھرڈ ڈگری مرڈر کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔یعنی اگر ہوئی بھی تو زیادہ سے زیادہ بارہ برس قید سزا ہوگی۔مگر اس کا بھی امکان کم ہے۔

پولیس زیادتیوں پر نگاہ رکھنے والی ایک سرکردہ امریکی ویب سائٹ میپنگ پولیس وائلنس کے مطابق دو ہزار تیرہ سے انیس کے چھ برس کے دوران مقدمہ چلنا تو دور کی بات ہے، ننانوے فیصد پولیس افسروں پر فردِ جرم ہی عائد نہ ہو سکی۔

کسی بھی سماج میں کسی خاص اکثریتی یا اقلیتی گروہ کے درمیان گہرا تعصب پایا جانا کوئی انہونی بات نہیں۔کچھ ریاستیں اور ان کے حکمران طبقات کی بقا اس نفرت اور تعصب کو مزید توانا کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جب کہ بہت سی مہذب ریاستیں رنگ و نسل و عقیدے کی بنا پر پھیلنے والی نفرتی عمل کو لگام دینے کے لیے مسلسل قانون سازی کرتی رہتی ہیں اور اندرونی نظام میں چیک اینڈ بیلنس بڑھاتی رہتی ہیں۔اس تناظر میں امریکی سماج کو دیکھا جائے جو خود کو فخریہ تارکینِ وطن کا معاشرہ اور ہر ایک تارکِ وطن کے لیے برابر کے مواقع کی دعویداری جتاتا ہے۔ منطقی اعتبار سے تو ایسے سماج میں نسلی مساوات و تعلقات قابلِ رشک ہونے چاہئیں۔ مگر موثر قانون سازی کے باوجود صورتِ حال بالکل الٹ دکھائی دیتی ہے۔

کسی بھی سماج میں عام آدمی کا سڑک پر جس ریاستی ادارے سے سب سے زیادہ سابقہ پڑتا ہے وہ پولیس ہے۔پولیس اور عام آدمی کا آمنا سامنا ہونے کا انداز بہت آسانی سے بتا سکتا ہے کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا انداز کیا ہے۔

امریکا میں پولیس افسروں کی نسلی قسم بندی کی جائے تو اکہتر فیصد پولیس والے سفید فام ہیں۔ اگرچہ سیاہ فام کل قومی آبادی کا لگ بھگ تیرہ فیصد ہیں۔مگر سڑک پر ایک سیاہ فام امریکی کو ایک سفید فام کے مقابلے میں پوچھ گچھ کا اوسطاً دس گنا زائد خطرہ ہے۔

وفاقی، ریاستی و بلدیاتی یا نجی جیلوں میں کسی بھی جرم یا الزام میں بند بائیس لاکھ قیدیوں میں سفید فاموں کی تعداد تیس فیصد ہے۔حالانکہ وہ قومی آبادی کا چونسٹھ فیصد ہیں۔ جیلوں میں بند تیس فیصد قیدی سیاہ فام ہیں۔ حالانکہ ان کی قومی آبادی بارہ فیصد ہے۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ڈیٹا بیس کے مطابق  بیس سے چالیس برس کی عمر کے کسی غیر مسلح سیاہ فام  کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کا امکان کسی غیر مسلح سفید فام کے مقابلے میں چار گنا ہے۔جب کہ کسی بھی مسلح واردات، پولیس مقابلے یا پولیس تعاقب کے دوران ایک مسلح سیاہ فام کے مرنے کا امکان ایک مسلح سفید فام کے مقابلے میں دوگنا ہے۔

ریاست کا تو سیدھا سیدھا حساب کتاب ہے جو قانون توڑے گا وہ بھگتے گا۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ سیاہ فاموں کو جان بوجھ کر قانون شکنی میں مزہ آتا ہے اور ان کے خمیر میں ہی قانون سے بغاوت بھری ہوئی ہے یا پھر وہ بنیادی تہذیبی اوصاف اور عقل ِ سلیم سے ہی عاری ہیں ؟

اچھا تو یہ بھی وضاحت کر دیں کہ امریکا میں کون کون اپنی مرضی سے آ کر آباد ہوا اور کسے مرضی کے خلاف بیڑیاں پہنا کر لایا گیا۔کسے منڈی میں بطور غلام خریدا اور بیچا گیا اور کسے کس نے بتایا کہ اگر تم کالے ہو تو غلام ہو اور گورے ہو تو آقا ہو۔کتنے جرائم پیشہ کالوں کے ہجوم نے پچھلے چار سو برس میں بے گناہ گوروں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسیاں دیں؟ کتنے کالوں نے کسی بس یا ٹرین یا عمارت پر لکھا کہ ’’یہاں گوروں کا داخلہ منع ہے‘‘۔

اس سب کے باوجود صرف رنگ کی بنیاد پر ایک پوری برادری کے بارے میں یہ نفسیاتی رویہ جلی یا خفی شکل میں پورے گورے سماج کی فطرتِ ثانیہ بن گیا کہ کالے جبلی طور پر بد اور جرائم پیشہ ہیں لہذا ان سے سختی سے بنا لچک نمٹنا اور سماجی و معاشی و تعلیمی و روزگاری طور پر اوقات میں رکھنے میں ہی گوروں کی بقا ہے۔

جب اس لاشعور کے ساتھ کوئی گورا اور کالا بچہ بڑا ہوتا ہے تو سوچئے وہ ایک دوسرے کو کیسے دیکھے گا اور کس طرح سے نمٹے گا؟ مگر ریاست ہے کہ کینسر کا علاج مسلسل اسپرین سے کرتے رہنے پر ڈٹی ہوئی ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔