جسٹس فائز کیس؛ سپریم کورٹ کے وفاقی حکومت سے 4 سوال

ویب ڈیسک  منگل 2 جون 2020
جسٹس قاضی فائز کیخلاف شکایت صدر یا جوڈیشل کونسل کی بجائے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی، سپریم کورٹ

جسٹس قاضی فائز کیخلاف شکایت صدر یا جوڈیشل کونسل کی بجائے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی، سپریم کورٹ

 اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے 4 سوال کے جواب مانگ لیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ سابق وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر اور سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملائکہ بخاری سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے فروغ نسیم پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ ایک مقدمے میں واضح کرچکی، سرکار کی طرف سے پرائیویٹ وکیل پیش ہوکر دلائل نہیں دے سکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وفاقی حکومت کو نمائندگی کا مکمل حق حاصل ہے، ایک اٹارنی جنرل انور منصور ریٹائرڈ ہوئے دوسرے اٹارنی جنرل نے مقدمے کی پیروی سے معذرت کرلی، اب عدالت کی معاونت کیلئے وفاقی حکومت نے وکیل تو کرنا ہے، اعتراض مناسب نہیں ہے، ہم آپ کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئی، پاکستان سے جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر کیسے گیا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی منی ٹریل نہیں دیتے تو یہ مس کنڈکٹ ہے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے،  کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟  ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے، کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟۔

سپریم کورٹ نے فروغ نسیم سے 4 سوالات پر جواب اور دلائل طلب کرتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف مواد غیر قانونی طریقے سے اکھٹا کیا گیا، آپ نے مواد کو قانونی اکھٹا کرنے پر دلائل دینے ہیں، شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی اور صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی؟۔

جسٹس مقبول باقرنے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کی؟۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو وحید ڈوگر کی شکایت کی کاپی درخواست گزار جج کو فراہم کرنی چاہیے تھی، وحید ڈوگر کی شکایت کی دستاویزات کا دس مرتبہ عدالت نے پوچھا ، میڈیا پر کئی بار دستاویزات دکھائی گئیں لیکن عدالت کو نہیں دی گئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کیا ہے پہلے یہ بتائیں، شکایت یونٹ تک کیسے پہنچی اور اس یونٹ کا آرٹیکل 209 کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔