سائنس، مسئلہ کا حل

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 3 جون 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سائنس کی تحقیق درست ثابت ہوئی۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیق کے مطابق عید الفطر 24مئی کو ہوئی۔ پہلی دفعہ پورے ملک میں ایک ساتھ عید منائی گئی اور صرف پورے ملک میں ہی نہیںبلکہ پاکستان نے سعودی عرب، ترکی اور یورپی ممالک میں آباد مسلمانوں کے ساتھ عید منائی ۔

رویت ہلال کمیٹی رات گئے تک چاند کی رویت کے بارے میں فیصلہ نہ کرسکی۔ ٹی وی چینلز نے پسنی سے سینیٹر کہدو بابر کا انٹرویو نشر کیا اور انھوں نے بتایا کہ پسنی میں بہت سے لوگوں نے چاند دیکھا ہے جس میں مسجد کے پیش امام بھی شامل ہیںاور وہ رویت ہلال کمیٹی کے اراکین سے رابطے میں ناکام رہے، اسی بناء پر انھیں ٹی وی چینلز کی مدد حاصل کرنی پڑی۔ چمن سے ملنے والی شہادتوں سے ثابت ہوگیا کہ چاند نظر آگیا ہے۔ پسنی بلوچستان کی ساحلی بندرگاہ ہے جو مشرق وسطیٰ کی ریاست اومان کے قریب ہے۔ اسی طرح چمن پاکستان کا آخری شہر ہے ، جہاں سے کچھ میل کی دوری پر افغانستان اور پاکستان کی سرحد واضح نظر آتی ہے۔

عید الفطر پر چاند کی رویت کا جھگڑا پرانا ہے۔ مذہبی امور کی وزارت کے وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری فرماتے ہیں کہ ان کی پیدائش سے پہلے ، عید کے چاند کا تنازعہ موجودہے۔ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے شاہی مسجد دہلی کے امام چاند کے بارے میں فیصلہ کرتے تھے، یوں ان کے ماننے والے دہلی اور اطراف کے علاقوں میں عید مناتے تھے۔ اس زمانہ میں مواصلات کے ذرائع موجود نہیں تھے، اس بناء پر ہر شہر کی مرکزی مسجد کے امام یہ فریضہ انجام دیتے تھے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ چاند نظر آنے کی صورت میں گولے داغے جاتے اور نقارہ بجایا جاتا تھا، یوں گولوں کی آواز سن کر لوگ رمضان کے اختتام اور عید کی تیاریاں شروع کردیتے تھے۔

پاکستان میں جب جنرل ایوب خان کے دور میں چاند کے بارے میں ایک سنجیدہ تنازعہ پیدا ہوا تو اس زمانہ میں علماء کی ایک کمیٹی تھی جس کے بارے میں تصور تھا کہ وہ حکومت کے دباؤ میں فیصلہ کرتی ہے۔ اس کمیٹی نے 29 رمضان کو رات گئے یہ اعلان کیا کہ کچھ مقامات پر چاند نظر آگیا ہے ،ا س بناء پر دوسرے دن عید ہوگی۔ اس زمانہ میں بعض عناصر نے یہ تاثر پیدا کیا تھا کہ جمعہ کو دو خطبہ ہوتے ہیں اور یہ عید حکمراں پر بھاری ثابت ہوتی ہے۔ اس بناء پر  ایوب خان کی حکومت نے زبردستی جمعرات کو عید کا فیصلہ کیا۔

جامع مسجد جیکب لائن کراچی کے امام اور معروف عالم دین مولانا احتشام الحق تھانوی نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا اور فتویٰ جاری کیا کہ عید کا چاند نظر نہیں آیا، اس بناء پر جمعہ کو عید ہوگی۔ تمام مسالک کے علماء نے مولانا احتشام الحق تھانوی کے مؤقف کی حمایت کی، یوں ملک میں دو عیدیں منائی گئیں۔ بعد میں مغربی پاکستان کی حکومت نے مولانا احتشام الحق تھانوی ، مولانا مودودی، مفتی محمود،مولانا غوث ہزاروی ، مولانا نعیمی اور مولانا اظہر حسین زیدی کو ڈیفنس پاکستان رولز (DPR) کے تحت کچھ دنوں کے لیے نظربند کردیا گیا۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت قائم ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو دوبارہ عید کے چاند کا تنازعہ پید اہوا۔ مولانا احتشام الحق تھانوی نے حکومت کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مذہبی امور کے وزیر مولانا کوثر نیازی کے ذریعہ مولانا احتشام الحق تھانوی اور دیگر علماء سے مذاکرات کیے اور ایک قانون کے تحت رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل ہوئی اور مولانا احتشام الحق تھانوی  نے کمیٹی کی سربراہی قبول کی، وہ جنرل ضیاء الحق کے دور تک اس عہدہ پر فائز رہے۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے اور ان عظیم جنگوں کے دوران سائنسی تحقیق پر بہت زیادہ توجہ دی گئی۔

سائنسدانوں نے نظام شمسی کا مطالعہ کیا۔ اب چاند سورج کی گردش ، سورج کی گرمی کی جدت کے کم ہونے اور اس کے دنیا کے مختلف علاقوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا جانے لگا۔ اس تحقیق کے نتیجہ میں یورپ اور امریکا میں زرعی شعبہ میں زبردست تحقیق ہوئی۔ اب کسان بارش کا انتظار نہیں کرتا بلکہ مصنوعی بارش کے ذریعہ زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ اس تحقیق کی بناء پر چاند کی گردش کا پورا ریکارڈ تیار ہونے لگا اور سائنس دان یہ بتانے کے قابل ہوئے کہ دو سو پانچ سو سال بعد عید کا چاند پاکستان میں کس تاریخ کو نظر آئے گا۔

ایک بھارتی عالم دین نے پاکستان میں 24 مئی کی عید کی یہ توجیہ بیان کی کہ وہاں سیٹلائٹ کی دوربین سے یہ پتہ چلایا گیا کہ چاند 6ڈگری پر ہے، یہ چاند عام دور بین سے نظر نہیں آتا، ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں کیونکہ مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہیں آیا ، اس لیے وہاں 25 مئی کو  عید منانے کا فیصلہ درست تھا۔ ان کی پیشگوئی ہے کہ پاکستان میں عید الاضحی پر دوبارہ چاند کا تنازعہ پیدا ہوگا، یہ تو بھارت کے ایک عالم دین کا بیان ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان سے اب تک برسر اقتدار حکومتوں نے چاند کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے علماء سے مدد تو لی ، مگر اس جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کا نہیں سوچا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں سائنس و ٹیکنالوجی نے انقلاب برپا کیا ہے۔ کئی مصنفین نے لکھا ہے کہ 50ء کی دھائی تک مکہ اور مدینہ کی سخت گرمی میں حج کی ادائیگی ایک مشکل کام تھا مگر آل سعود نے سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعہ ایئرکنڈیشن راستے بنوائے ، طواف اور سعی کرنے کے لیے کئی منزلہ عمارت تعمیر کیں جن میں جدید لفٹس نصب ہیں اور اب تو ایک فائیو اسٹار ہوٹل خانہ کعبہ کی حدود میں تعمیر ہوا ہے۔

اس ہوٹل کے مکین ہوٹل میں ہی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ فواد چوہدری نے جرات کے ساتھ چاند کی رویت کو سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعہ حل کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ علماء اس فیصلہ کو اسی طرح قبول نہیں کریں گے جس طرح انھوں نے ماضی میں ہر ٹیکنالوجی کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ آنکھ کمزور ہونے سے چشمہ لگانے، لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ نماز پڑھانے، کیمرہ کے ذریعہ تصویر بنوانے، ٹی وی چینل پر پروگرام سے پہلے میک اپ کرانے، خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت سے لے کر پولیو کے قطرے پلانے، سرسید احمد خان کے انگریزی کے مطالعہ کے فلسفہ سے لے کر خواتین کی آزادی تک معاملہ میں مزاحمت کی تاریخ موجود ہے۔

کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کی مخالفت اور مساجد میں سماجی دوری کے خاتمہ کے حالیہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ رجعت پسند ذہن ترقی کی ہر لہر کے مخالف ہوتے ہیں اور بعد میں اس کو قبول کرلیتے ہیں۔ اس صورتحال میں دائیں بازو کے وہ دانشور تذبذب کا شکار ہیں جنھوں نے حالات سے مجبور ہو کر سائنس کی حقیقت کو تو تسلیم کیا ہے مگر کسی خوف کی بناء پر حکومت کو سائنسی راستہ سے اجتناب کا مشورہ دیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا تیار کردہ کیلنڈر کابینہ سے منظور کرائیں، یوں تہواروں پر کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔