بدترین معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے بہترین ٹیم ورک کی ضرورت

ارشاد انصاری  بدھ 3 جون 2020
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 اسلام آباد: ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات کافی عرصہ سے ایک انتشار کا شکار ہیں اورعوام کوتبدیلی کے بیانیہ کے ساتھ ملک میں ٹو پارٹی سیاسی سسٹم کو چیلنج کرکے اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت سے بہت امیدیں واسطہ تھیں مگر پچھلے دوسال سے زائد عرصے سے حالات جس تیزی کے ساتھ بگڑے ہیں اس سے عوام پریشانی میں مبتلا ہیں۔

عوام کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے اورعوام  کی عدم دلچسپی و لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ اگلے مالی سال کا وفاقی بجٹ سر پر  آن پہنچا  ہے مگر کسی کو کوئی خبر  نہیں۔ ماضی میں بجٹ میں عوامی دلچسپی دیدنی ہوا کرتی تھی۔ اب کیا بجٹ سازی ہو رہی ہے کس کی کچھ معلوم نہیں ہے اور بجٹ سازی کیلئے حکومت اپنی جگہ پریشیان ہے۔

پہلے ہی مالی و معاشی مسائل سنبھل نہیں پا رہے تھے کہ کورونا نے مزید حالات بگاڑ دیئے  ہیں۔ معاشی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر کورونا وائرس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو دنیا میں کساد بازاری اور معاشی بحران اکتوبر 1929اور 2008کے عالمی مالی بحران سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے، جس کا پاکستان سمیت کمزور معیشت رکھنے والے دیگر ممالک متحمل نہیں ہوسکتے جبکہ ہم تو پہلے ہی ایسی پوزیشن پر کھڑے ہیں کہ غیر ملکی امداد کے بغیر بجٹ تک بنا نہیں پاتے اور اس وقت بھی وفاقی حکومت اگلے مال سال کے بجٹ میں ملکی تاریخ کا سب زیادہ قرضہ لینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

گلے سال پندرہ ارب ڈالر کے قرضے لینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ پہلے عوام کو بتایا جاتا تھا کہ ن لیگ کی حکومت نے دس سال کے دور میں ملک پر قرضہ بڑھا کر تیس ہزار ارب کردیا لیکن آج عوام کو نہیں بتایا جارہا کہ دوسال کے عرصے میں ملک پر قرضہ کتنا ہوگیا ہے جبکہ عالمی بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے کھول کھول کر بتا رہے ہیں کہ پاکستان کا قرضہ بلندی کی تمام حدیں کراس کرنے جا رہا ہے  اور قرضہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے ساتھ میں کسی قسم کے نہ کوئی میگا ترقیاتی منصوبے لگ رہے ہیں اور نہ ہی اقتصادی سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں اور غیر یقینی  صورتحال کے باعث معیشت مسلسل تنزلی کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں کوئی بہتری کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔

پیر کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری ہونے والی رپورٹ اور گیلپ سروے رپورٹ نے تو مزید خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ گیلپ پاکستان کے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ملک بھر میں ایک کروڑ 73 لاکھ سے زائد افراد ملازمتوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ بیروزگاری کے خدشے میں آنے والی یہ تعداد ملک بھر میں ملازمت پیشہ افراد کا 28 فیصد بنتی ہے۔ سندھ میں ملازمت سے محروم ہونے والوں کی شرح سب سے زیادہ 37 فیصد سے زائد ہوسکتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں 29 فیصد، بلوچستان میں 27 فیصد اور پنجاب میں یہ شرح 24 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے تو اپنی رپورٹ میں واضع لکھا ہے کہ کورونا کے سبب تجارت مثاثر ہوئی، کئی کمپنیاں دیوالیہ ہوسکتی ہیںکورونا وائرس کے سبب تجارت مثاثر ہوئی۔  کورونا کے باعث مقامی سطح پر کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں، عوام کی قوت خرید گھٹ گئی اور بیرونی سرمایہ کاری بھی کم ہوگئی،معاشی سست روی سے محصولات میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی، وبا کو قابو کرنے کیلئے لاک ڈاؤن کیا گیا جس سے فیکٹروں اور کاروباروی طبقے کا کیش فلو مثاثر ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو کئی کمپنیاں دیوالیہ ہوسکتی ہیں جبکہ روپے کی قدر میں کمی کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو روپے کی قدر میں کمی کا خدشہ ہے، معاشی ترقی کی شرح اور بجٹ متاثر ہوگا جبکہ عالمی معیشت مثاثر ہونے سے ترسیلات زر اور سرمایہ کاری میں بھی کمی آئی البتہ تیل کی کم قیمتوں سے درآمدی ممالک کو فائدہ ہوا۔

رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ  لاک ڈاؤن سے کھانے پینے اور معاشرتی تحفظ کی فراہمی چیلنج ہوگااور انہیں تمام چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی رابطہ کمیٹی نے پیر کو  اپنے اجلاس میں لاک ڈاون میں سختی کرنے کی بجائے موجودہ صورتحال ہی برقرار رکھنے کا  فیصلہ کیا ہے۔

ساتھ ہی سیاحت بھی کھولنے کا اشارہ دیا ہے اگرچہ ملک میں کورونا کیسز کی تعداد تباہ کن  و خطرناک مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ کورونا کے مریضوں کی تعداد اور مرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے مگر حکومت نے عوام کو بتادیا ہے کہ اب کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا اور ساتھ ہی خبردار بھی کیا ہے کہ اس سے مزید اموات ہونگی اب عوام کو خود ہی احتیاط کرنا ہوگی اور ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا لگ یہی رہا ہے کہ حکومت نے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں اور پھر حکومت سیاسی مسائل میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اس اہم مسئلے پر بھی سیاست ہورہی ہے جس سے سیاسی  عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال مزید بڑھے گی جسکے معیشت پر مزید منفی اثرات ہونگے کیونکہ معیشت کی بہتری کے لیے ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ بھی ضروری ہے جو کہ ختم ہوتی دکھائی نہی دے رہی۔  اوپر سے کورونا نے حشر نشر کر رکھا ہے اور اس وقت کورونا کی وباء  و معاشی بحران میں عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد اٹھ رہا ہے جبکہ ملک میں گراں فروشی و ذخیرہ اندوزی ایک معمول بن چکی ہے۔ بہت سے کاروبار بند ہونے سے مہنگائی کیساتھ ساتھ بیروزگاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اسکے ساتھ حکومت کیلئے بھی مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں اورحکومت بھی مسلسل سکینڈلز کی زد میں ہے ایک کے بعد ایک سکینڈل سامنے آرہا ہے اور سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کے خلاف چارج شیٹ طویل ہوتی جارہی ہے۔ موجودہ نظام مکمل طور پر ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور مزید چند ماہ کا مہمان معلوم ہوتا ہے۔ یہ نظام اسی طرح زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا۔  بجٹ کے بعد نئی گیم شروع ہونے کو ہے اور اگر سیاستدانوں نے دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر جمہوری بساط بی لپیٹی جا سکتی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حال ہی میں پبلک کی جانیوالی شوگر کمیشن کی رپورٹ ایک ایسی دلدل ہے جس میں بہت ساروں نے  بالآخر دھنس جانا ہے۔ کوئی جلد دھنسے گا اور کوی بعد میں دھنے گا اور دلدل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس سے نکلنے کی کوی جتنی زیادہ جدوجہد کرے اتنا ہی تیزی سے دھنستا ہے اس رپورٹ میں اگر ایک طرف اپوزیشن کو لپیٹ میں لینے کا سامان مہیا کیا گیا ہے تو  دوسری طرف عمران خان  اور ان کے کچھ ساتھیوں کی گردنوں کے گرد بھی رسی لپیٹ دی گئی ہے، اور اس رسی کو بھی کسی مناسب وقت کھینچ دیا جانا ہے اب یہ حکومت کی حکمت عملی ہے کہ مناسب وقت کو مزید کتنا کھینچتی ہے  اور یقینی طور پرحکومت پہلے سے موجود قوانین، اداروں سے بہترانداز میں کام لیکر عام عوام کی مشکلات کافی حد تک کم کر سکتی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ درست سمت کا تعین جلدازجلد کیا جائے تاکہ عوام الناس کو ریلیف دیا جا سکے۔

اس کیلئے ٹیم ورک کا ہونا ضروری ہے جسکا فقدان ہے اور ٹیم کی کپتان کے ساتھ الائنمنٹ کا ہونا ضروری ہے۔  وزیراعظم پاکستان عمران خان شروع دن سے بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ حکومتی معاملات کو شفاف و موثرترین انداز میں چلایا جائے لیکن ان کے ویژن پر عملدرامد کیلئے فی الحال حکومتی ٹیم کے بیشتر ممبران موثر طریقے سے کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے جبکہ عوام کے مسائل کے حل کیلے مزید سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ خاص کر غیرمنتخب ممبران کابینہ کی غیرسنجیدگی ، عوامی مسائل کے حل میں عدم دلچسپی اور محض میڈیا پر شہرت کے حصول کی کوششیں تحریکِ انصاف کے منشور پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور تبدیلی کے جس نظریہ کی بنیاد پر عوام نے اعتماد کا اظہار کیا اسکی بھی نفی ہے۔

ادھر عالمی سطع پر بھی حالات کشیدہ ہورہے ہیں اور کرونا وائرس نے بھی دنیا تبدیل کر دی ہے۔ دنیا کی ترجیحات میں یکسر تبدیلیاں آچکی ہیں، لوگوں کا فلسفہ حیات بدل گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ کورونا نے دنیا کے تمام ملکوں کی معیشت کیساتھ ساتھ عالمی معیشت کو بھی برباد کر دیا ہے ۔عالمی معیشت کو 4کھرب ڈالر یعنی 683کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے، صنعتیں، ایئرلائنز بند اور معاشی سرگرمیوں کے سکڑنے سے ایک وقت تیل کی قیمت صفر ہو گئی ملکی معیشتوں کو سنبھالنے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کے مرکزی بینکوں نے اپنی شرح سود منفی کردی لیکن اس کے باوجود وہ ملکی معیشت میں کوئی بہتری نہ لا سکے۔

غریب ملکوں کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بیروزگاری کا طوفان اُمڈ آیا ہے جبکہ امریکہ جیسی سپر پاور کہلانے والے ملک میں مارچ میں بیروزگاری کے اعداد و شمار 4.4فیصد بتائے گئے ہیں جبکہ فروری میں یہ 3.5فیصد تھے۔

دنیا کی بہت بڑی ریٹیل چین اپنے اسٹورز کے مالکان کو کرایہ معاف کرنے کی درخواست کی ہے اور ساتھ خبردار بھی کررہی ہیں کہ اگر کرائے معاف نہ کئے گئے تو وہ سٹورز خالی کردیں گے۔ جبکہ امریکی معروف چین نے تودیوالیہ ہونے کی درخواست بھی فائل کردی ہے اسی طرح لندن و امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میںقائم بڑے ڈپارٹمنٹل سٹورز جہاں دنیا کے مہنگے ترین نامور برانڈز کی مصنوعات پر خریداروں کا رش رہتا تھا آج تمام برانڈز کے شو کیسز لوٹ مار کے خوف سے سے ہٹادیے گئے ہیں جبکہ آئی ایم ایف،عالمی بینک  سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے منفی اثرات طویل مدت تک رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔

دنیا کی 3بڑی معیشتوں میں امریکہ کی مجموعی جی ڈی پی 21.2کھرب ڈالر ہے جو دنیا کی جی ڈی پی کا 23.6فیصد ہے جبکہ یورپ کی جی ڈی پی 20کھرب ڈالر ہے جو دنیا کی جی ڈی پی کا 22فیصد ہے۔ چین کی جی ڈی پی 14.3کھرب ڈالر ہے جو دنیا کی جی ڈی پی کا 15.5فیصد ہے۔ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی 90کھرب ڈالر ہے جس میں کورونا وائرس کی وجہ سے فروری اور مارچ 2020میں گلوبل جی ڈی پی میں 3.2 کھرب ڈالر کی کمی ہوچکی ہے۔کورونا وائرس کے باعث دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں کو اب تک 6.4کھرب ڈالر نقصان ہو چکا ہے لیکن  اس خوفناک صورتحال میں بھی جو ادارے پہلے سے کھرب پتی تھے، انکی دولت میں مزید اضافہ کر دیا ہے ان کھرب پتی اداروں کی دولت میں 434 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے اور وہ بھی کورونا کی وبا کے تین ماہ کے دوران۔ امریکہ کے 600 کھرب پتی افراد کی آمدنی اور دولت میں 15فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں کورونا کے سب سے زیادہ 18لاکھ مریض ہیں اور سب سے زیادہ کورونا سے ایک لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں لیکن امریکیوں دولت میں اضافہ ہوا ہے۔

سب سے زیادہ مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس کی دولت میں اضافہ ہوا ہے’’فیس بک‘‘ کے سی ای او مارک زکر برگ اور دیگر آئی ٹی کمپنیوں کے مالکان کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’ایمازون‘‘ نے بھی آن لائن بزنس کی وجہ سے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا منافع کمایا ہے۔

کورونا کی عالمی وبا کے دوران قومی اور عالمی معیشتوں کی تباہی کے دوران امریکہ اور اسکے اتحادی ملکوں کی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی والی کمپنیوں نے اپنے ملکوں کی معیشت کو سنبھالا دیا اور دنیا کی ساری دولت سمیٹی۔ امریکہ اور مغرب نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر ٹیکنالوجی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی ہے تو وہ ٹھیک ہے اور اگر چین یا کسی اور ملک کی ہے تو وہ قابل قبول نہیں کیونکہ ٹیکنالوجی دنیا پر قبضے کا ہتھیار ہے  یہ مختلف سازشی تھیوریاں ہیں جو اس وقت انٹریشنل میڈیا و سوشل میڈیا پر موضو ح بحث ہیں اب ان میں کتنی حقیقت ہے یہ کہنا بہت مشکل ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ  امریکہ اور یورپ میں بل گیٹس کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور اسے تاریخ انسانی کا سب سے قابلِ نفرت انسان قرار دیا جا رہا ہے۔

حالانکہ اس نے پولیو سمیت دنیا میں کئی بیماریوں کے خاتمے کیلئے بہت زیادہ فنڈز مختص کئے اور ’’ٹائم میگزین‘‘ اپنی اسٹوری میں یہ  عندیہ دے رہا ہے کہ دنیا کی 15فیصد ٓابادی کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی پر بھی باتیں ہو رہی ہیں  اور دوسری طرف خود امریکہ شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے اورسیاہ فام پر تشدد کے واقعہ کے بعد سے امریکہ میںنسلی فسادات پھوٹ پرے ہیں اورامریکہ کی 25 ریاستیں بد ترین ہنگاموں کی زد میں ہیں 17 ریاستوں کے گورنر نیشنل گارڈ اور فوج طلب کر چکے ہیں۔

مظاہرین کو سختی سے کچلنے اور ربڑ کی گولیوں کے بے دریغ استعمال سے سینکڑوں امریکی عورتیں جوان کالے گورے ہسپتالوں میں پہنچ گئے ہیں ،لیکن اس سختی کے باوجود شاپنگ سنٹر لوٹے جا رہے ہیں پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی جا رہی ہے اور امریکی شہر حقیقی معنوں میں جل رہے ہیں امریکی معیشت جو پہلے ہی دنیا کی سب سے بڑی مقروض معیشت تھی کرونا وائرس نے گویا جلتی پر تیل چھڑک دیا ہے۔سیاہ فام کی پولیس تشدد سے ہلاکت امریکہ میں کوئی انوکھی چیز نہیں۔ ماضی میں بھی سیاہ فام نوجوان پولیس میں شامل نسل۔پرست افسران کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ کرونا وبا کی وجہ سے دو کروڑ امریکی بے روزگار ہوئے ہیں اور ان ہنگاموں میں کالوں کے ساتھ گوروں کی شمولیت کی ایک وجہ معاشی بحران اور بے روزگاری بھی ہے۔

مظاہرین کی بہت بڑی تعداد بے دریغ بڑے بڑے شاپنگ سنٹر لوٹ رہی ہے اور پولیس مکمل بے بس ہے اورامریکی فوج اگر ہنگاموں کو طاقت سے کچلے گی تو اس میں بے شمار اموات ہونگی اور لڑکھڑاتی ہوئی امریکی معیشت اور جمہوریت امریکی ہلاکتوں کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔ امریکی ہانگ کانگ کے سپانسرڈ ہنگاموں میں چینی حکومت کو زچ کرتے تھے۔ہانگ کانگ میں مسلسل تین ماہ جاری رہنے والے ہنگاموں میں صرف تین اموات ہوئیں وہ بھی پولیس اہلکاروں کی لیکن امریکی ہنگاموں میں چھ ہلاکتیں اور دوہزار گرفتاریوں کے ساتھ سینکروں لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔

امریکی ریاستوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والے ہنگامے امریکہ کے عالمی طاقت کے طور پر زوال کی ابتدا بھی بن سکتے ہیں  یہی وجہ ہے کہ امریکی قیادت اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہو رہی ہے جسکی جھلک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کے حالیہ بیاں میں واضع د کھائی دے رہی ہے۔ جس میں امریکی صدرنے سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کا الزام بائیں بازو کے گروپ انٹیفا پر لگا یا ہے امریکی صدرنے انٹیفا کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ بائیں بازو کے گروپ نے پرامن احتجاجی مظاہرے کو ہائی جیک کیا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ مینی پولس کے میئر انٹیفا پر پہلے دن پابندی لگا دیتے تو سب ٹھیک ہوتادوسری جانب ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے بھی نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کے مقام کا دورہ کیا اور ڈیلا ویئر کے علاقے ولمنگٹن پہنچے جہاں گزشتہ رات احتجاج کیا گیا تھاجوبائیڈن کا کہنا تھا ہم تکلیف سے دوچار قوم ہیں لیکن ہمیں اس تکلیف کے ہاتھوں تباہ نہیں ہونا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔