جو ہونے جارہا ہے، وہ ٹالا نہیں جاسکتا

نصرت جاوید  جمعـء 6 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جنرل راحیل شریف کے بطور آرمی چیف انتخاب کے فوری بعد جو کالم میں نے لکھا اس میں یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کر بیٹھا کہ ان کی تعیناتی میں ایک گہرا پیغام مضمر ہے۔ میرے چند پڑھنے والے اس بات پر بہت ناراض ہوئے کہ میں اس ’’پیغام‘‘ کی وضاحت کرنے کی جرأت کیوں نہ کر سکا۔ جھکی لوگوں کا ایک بہت بڑا گروہ الگ سے موجود ہے جو اپنا سارا وقت انٹرنیٹ کی نذر کر دیتا ہے۔ ہر حوالے سے فارغ نظر آنے والے یہ لوگ دراصل مردم بیزار ہو چکے ہیں۔ انھیں سارے صحافی غدار یا اس ملک میں کرپشن کو فروغ دینے والوں سے لفافے وصول کرتے محسوس ہوتے ہیں۔

نیّتوں کا حال تو خدا جانتا ہے مگر ایسے لوگوں کی اکثریت نے فرض کر لیا کہ میں نے ’’گہرا پیغام‘‘ لکھتے ہوئے دراصل چڑھتے سورج کو سلام کرنا چاہا۔ سچ تو مگر یہ ہے کہ میں جنرل راحیل شریف کو ہرگز نہیں جانتا۔ اپنی رپورٹنگ کی صلاحیت اور تجربے کو استعمال کرتے ہوئے ان کی ذات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ جو کچھ معلوم ہوا اسے ایک خاص تناظر میں رکھا اور ’’گہرے پیغام‘‘ والی بات لکھ ڈالی۔ میں ایک بار پھر اصرار کر رہا ہوں کہ جنرل راحیل شریف کی شخصیت پر زیادہ غور کرنے کے بجائے ہمیں نواز شریف کے اندازِ فیصلہ سازی کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کرنا چاہیے۔ میاں صاحب تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ اپنے پہلے دورِ حکومت میں وہ نسبتاََ ’’کھلے ڈلے‘‘ انسان تھے۔

چند صحافی اور وزیر ان کے بہت قریب ہوا کرتے تھے۔ ان لوگوں سے محض سرسری ملاقاتوں کے بعد یہ معلوم کیا جا سکتا تھا کہ نواز شریف کیا کرنے والے ہیں اور کن وجوہات اور مقاصد کے تحت۔ ان کی پہلی حکومت کو جب غلام اسحاق نے چلنے نہ دیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کی اپوزیشن میں رہتے ہوئے میاں صاحب بتدریج Secretive ہونا شروع ہو گئے۔ اپنے پتوں کو سینے سے لگائے رکھنے کی یہ عادت ان کے دوسرے دورِ حکومت میں بہت زیادہ مستحکم ہو گئی۔ اتنے سال گزر گئے ہیں۔ ابھی تک ہمیں کوئی بیان نہیں کرسکا کہ دوسری مرتبہ اقتدار میں آتے ہی انھوں نے پہلی فرصت میں اس وقت کے صدر اور چیف جسٹس کو کونسی چالیں چلتے ہوئے اپنے راستے سے ہٹایا۔

بہت سارے لوگ اب بھی اصرار کرتے ہیں کہ اکتوبر 1998ء میں اس وقت کے چیف آف اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو استعفیٰ اس لیے دینا پڑا کہ انھوں نے نیول کالج لاہور میں ایک تقریر فرما دی تھی جس میں قومی سلامتی کے لیے کسی ایسے ادارے کے قیام کا مطالبہ کر دیا جس میں فوج کا کردار نمایاں ہو۔ ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ والے وزیر اعظم کو یہ تقریر پسند نہ آئی اور جہانگیر کرامت فارغ ہوگئے۔ معاملہ مگر اس سے کہیں زیادہ گھمبیر تھا۔ اگر کوئی سنجیدگی سے تحقیق کرنا چاہے تو پتہ چلا سکتا ہے کہ جہانگیر کرامت کی استعفیٰ والی ملاقات سے چند ہی گھنٹے پہلے نواز شریف کو ایک خلیجی ملک، جس کا نام سعودی عرب نہیں، کی ایک بڑی اہم شخصیت ملی تھی۔ اس شخصیت سے ملکی سیاست میں جہانگیر کرامت کے ارادوں کے بارے میں بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ بالآخر راز یہ کھلا کہ اسلام آباد کے مضافات میں بنائے فارم ہاؤسوں میں رہنے والوں کا ایک گروہ ’’ملک کو ٹھیک کرنا‘‘ چاہ رہا ہے اور انھوں نے جہانگیر کرامت کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔ جہانگیر کرامت نے نیول کالج لاہور میں ایک طویل مقالہ پڑھا تھا۔ مگر ان کے خطاب کی پریس ریلیز ایسے ہی ایک فارم ہاؤس میں تیار ہوئی تھی۔ اس پریس ریلیز میں قومی سلامتی کونسل کے قیام کی تجویز کو اخباری زبان میں موثر بنانے کا فریضہ انگریزی اخباروں سے متعلقہ ایک مشہور شخصیت نے سرانجام دیا اور بات بگڑ گئی۔

جنرل مشرف سے میاں صاحب کے اختلافات واجپائی کے دورۂ لاہور کے درمیان ہی شروع ہوگئے تھے۔ پھر کارگل ہو گیا۔ اس سب کے باوجود ہم ابھی تک نہیں جان پائے کہ وہ کونسے واقعات تھے جن کی بنیاد پر نواز شریف نے 12 اکتوبر 1999ء کی سہ پہر ’’اچانک‘‘ اس وقت کے آرمی چیف کو ہٹا کر ضیاء الدین بٹ کی تعیناتی کا اعلان کر دیا۔ یہ دو اہم واقعات جو میں نے بیان کیے ہیں یہ بات عیاں کرنے کو کافی ہیں کہ نواز شریف کے ذہن کو پڑھنا کوئی آسان کام نہیں۔ آپ کو اس ضمن میں مسلسل تگ ودو کرنے کی ضرورت ہے۔ میاں صاحب کی خاموشی اور غیر معمولی حدوں کو چھوتی Secrecy  کے باوجود کبھی کبھار ان کی زبان سے کوئی فقرہ مگر ادا ہو جاتا ہے جو آپ کو ان کی جانب سے ممکنہ فیصلوں کے لیے تیار کر دیتا ہے۔

اپنے حالیہ دورۂ امریکا میں صدر اوباما سے ملاقات کے فوراََ بعد انھوں نے ’’ہمیں اپنا گھر بھی سیدھا کرنا ہوگا‘‘ والا فقرہ کہا تھا۔ آپ سے کیا پردہ۔ میں نے جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کو اسی فقرے کے پسِ منظر میں رکھ کر دیکھا تھا۔ جنرل صاحب کے حوالے سے لڑاکو FF  کا ذکر بھی اسی وجہ سے کیا تھا اور اب میں ہرگز حیران نہیں ہوا کہ اپنی تعیناتی کے فوراََ بعد انھوں نے سوات آپریشن کے اہم فرد کو اپنا چیف آف جنرل اسٹاف لگا دیا۔ اس ہفتے کے آغاز میں انھوں نے وزیر اعظم سے ایک ملاقات کی۔ اس کے دوسرے روز ایک طویل بریفنگ لینے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر چلے گئے اور پھر جمعرات کے دن اپنا زیادہ وقت شمالی وزیرستان میں گزارا۔

میری دانست میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے اب ٹالا نہیں جا سکتا۔ مگر اس سب کے ہونے سے پہلے عین ضروری ہے کہ Missing Persons  والے قضیے کو مناسب انداز میں Tackle کر لیا جائے۔ ایسی باتیں کہنا آسان مگر کرنا مشکل ہوا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں آئین اور قانون کی بالادستی طے شدہ امر ہے۔ اس کے باوجود ذرا یاد کر لیں کہ اوباما اس ملک کا پہلی مرتبہ صدر بننے سے پہلے اپنی انتخابی مہم کے دوران تواتر کے ساتھ گوانتانامو بے کو بند کرنے کے وعدے کرتا رہا۔ اپنے دوسرے دورِ صدارت میں بھی وہ ابھی تک یہ نہیں کر سکا ہے۔ Snowden  کی وجہ سے بلکہ اب ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ امریکا کا NSA صرف اپنے شہری ہی نہیں بلکہ جرمنی جیسے دوست ممالک کے حکمرانوں کے فون بھی سنتا ہے اور ان کی ای میلز پر کڑی نظر رکھتا ہے۔

’’قومی سلامتی‘‘ کے لیے کام کرنے والے پاکستان جیسے ملک کے ادارے امریکا جیسے ملکوں سے کہیں زیادہ Intrusive  اختیارات استعمال کرنے پر بضد رہتے ہیں۔ انھیں کچھ قواعد کے ذریعے Regulate  کرنا بڑی حکمت ، صبر اور تخلیقی ذہن کا تقاضہ کرتا ہے۔ کوئی نہ کوئی حل تو مگر ڈھونڈنا ہو  گا۔ پاکستان کا حق ہے کہ بالآخر اس کا شمار ان مہذب اور پرامن ممالک میں ہو جہاں دہشت گردی کا راج نہ ہو۔ معاشی ترقی اور استحکام کے راستے نظر آ رہے ہوں اور ان سب کے ساتھ یہ ایسا معاشرہ بھی بن سکے جہاں اقتدار سے متعلق تمام ادارے خود کو آئین اور قانون کے تحت بنائے ضوابط کے مطابق کام کرتے نظر آئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔