کراچی: موت کے سائے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 7 دسمبر 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کراچی پر موت کے سائے گہرے ہو گئے۔ شہر میں ایک دن میں ٹارگٹ کلنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 سے بڑھ گئی۔ قتل ہونے والوں میں علما کرام، طالب علم، شہری، پولیس والے اور غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ تمام وارداتیں شہر کی اہم شاہراہوں پر ہوئیں۔ نامعلوم حملہ آور موٹر سائیکلوں پر سوار اپنے اپنے اہداف مکمل کر کے کمین گاہوں میں چلے گئے۔ قتل کی وارداتوں کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے شہر کے ٹریفک کو درہم برہم کر دیا۔ لاکھوں لوگوں کو کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر گزارنے پڑے۔ کراچی میں ایک دن زندگی مشکل ہوئی، شہر میں 3 ماہ قبل شروع ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن کے نتائج ظاہر ہوگئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے ہنگامی اجلاس بلا کر اپنا فریضہ انجام دے دیا۔ کراچی میں یوں تو بہت سے تضادات موجود ہیں جن میں سیاسی، لسانی، فرقہ وارانہ تضادات کے علاوہ مختلف مافیاز کے راستے میں آنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ بھی شامل ہے۔

3 ماہ قبل کراچی کے حالات خراب ہوئے اور ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سیکڑوں تک پہنچ گئی۔ محدود آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ سندھ اسمبلی میں نمایندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے ٹارگٹ کلنگ کے خلاف محدود آپریشن کی حمایت کی۔ اس آپریشن کے لیے رینجرز کو پولیس کے اختیارات بھی دیے گئے۔ پولیس کے محکمے میں نچلی سطح تک تبدیلیاں کی گئیں۔ رینجرز اور پولیس کے ذریعے ایک مربوط آپریشن کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ ملزمان کو جلد سے جلد سزائیں دینے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ سندھ اسمبلی نے گواہوں کے تحفظ کے لیے قانون منظور کیا۔ رینجرز نے شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کی۔ بہت سے افراد گرفتار ہوئے۔ پولیس حکام نے ناجائز اسلحہ کی بھاری تعداد برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس آپریشن کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ شہر میں سیاسی اور لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھوڑی دیر کے لیے رک گیا مگر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اسی طرح لیاری میں ہونے والی خونریز گینگ وار بغیر کسی وقفے کے جاری رہی۔

فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے معاملات ریاستی اداروں کی مخصوص سوچ سے منسلک ہیں۔ اگر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پختونخوا، کراچی اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کی جڑیں انتہائی گہری ہیں مگر پنجاب بھی اس سے محفوظ نہیں۔ 2008ء سے کے پی کے کا علاقہ پارا چنار فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا مرکز رہا۔ پارا چنار میں آباد شیعہ برادری کے لیے اس علاقے سے نکلنا ناممکن ہو گیا۔ مذہبی انتہا پسندوں نے بسوں اور کاروں پر حملوں اور پارا چنار میں خودکش دھماکوں کے ذریعے بہت سے افراد کو قتل کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور اطراف کے علاقے میں اقلیتی فرقے پر مسلسل حملے کیے گئے۔ اسلام آباد منتقل ہونے والے ایک سینئر وکیل کے خاندان کے 25 سے زائد افراد خودکش حملوں میں جاں بحق ہوئے۔ ان کے خاندانوں نے اپنی جائیدادیں بچانے کی کوشش کی تو مذہبی انتہا پسندوں نے دھمکیوں سے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ پھر قیمتی جائیدادوں کو کوڑیوں کے داموں خرید لیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اعلانات کے باوجود اس صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ جب تک نواب اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ کے عہدے پر تعینات رہے ہزارہ برادری کی آبادی  کے کم ہونے کا سلسلہ نہیں رکا۔

کراچی میں امن و امان کی صورتحال یوں تو گزشتہ صدی کے آخری عشرے سے خراب ہے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر پہنچی۔ اس زمانے میں علما، طلبا، ڈاکٹروں اور وکلا کو نشانہ بنایا گیا۔ جن پولیس افسروں نے قاتلوں کو قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کی وہ بھی مارے گئے۔ خفیہ پولیس والے بھی اس لہر کی زد میں آ گئے۔ کہا جاتا تھا کہ بھارتی کشمیر اور افغانستان میں جہاد کرنے والے بعض گروہوں کے انتہا پسند ان وارداتوں میں ملوث تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی ہدایت تھی۔ اس لیے یہ ٹارگٹ کلر گرفتار نہیں ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد حکومت کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں تو ان انتہا پسندوں نے حب چوکی، بلدیہ ٹاؤن، منگھو پیر، میٹروول، اورنگی ٹاؤن کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کے وسیع درمیانے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور طالبان نے ان علاقوں میں ٹی وی کیبلز دیکھنے پر پابندی کے ساتھ ساتھ پولیو کے قطرے بچوں کو پلانے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ پیپلز پارٹی کا دور حکومت سیاسی انارکی سے شروع ہوا۔

صوبائی حکومت پولیس اور خفیہ ایجنسیوں پر کنٹرول نہیں رکھ سکی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے صلح کل کے فارمولے کے تحت ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی صوبائی حکومت کا حصہ بنیں مگر ان جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان خونریز لڑائی شہر کی سڑکوں پر ہوئی۔ سیاسی ٹارگٹ کلنگ میں شدت آتی گئی۔ مگر 2009ء میں کراچی میں مختلف مذہبی تنظیموں  کے متحرک افراد قتل ہونے لگے۔ کراچی میں گزشتہ ماہ جاری ٹارگٹڈ آپریشن نے سیاسی قتل کی وارداتوں کو کنٹرول کر لیا، اسی طرح لسانی بنیادوں پر ہونے والی وارداتیں رک گئیں مگر بعض مسلکی گروپوں  سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کی خوفناک صورتحال پیدا ہوئی۔ اس جنونی جنگ میں صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ بوڑھے، خواتین اور بچے بھی جاں بحق ہوئے۔ کئی دفعہ تو ایسا ہوا کہ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے آنے والے وکیل اور مذہبی عالم بھی قتل کر دیے گئے۔ یہ کہنا مشکل ہو گیا کہ قتل ہونے والے کا حقیقی جرم کیا ہے؟ کراچی میں صورتحال خاصی خراب ہے ۔ قتل وغارت کی مذہبی و فرقہ وارانہ جہتیں تشویش ناک ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر کا کہنا ہے کہ اچانک وارداتوں کے بڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی تیسری قوت ان معاملات میں ملوث ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقتولوں  کو ایک جیسے اسلحہ سے ہلاک کیا گیا مگر آج تک تیسری قوت کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ  بیرونی عناصر کی جنگ کراچی میں لڑی جا رہی ہے ۔ تاہم تجزیہ کار اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ دو متحارب مسلکی عناصر ہی اس جنگ میں ملوث ہیں، جن کی سرپرستی نادیدہ قوتیں کرتی ہیں۔ محض عوام میں مذہبی عناصر کے امیج کو برقرار رکھنے کے لیے کسی تیسرے فریق پر الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ الزام کی صداقت میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جب بھی پولیس کسی برادری  سے تعلق رکھنے والے فرد کو قتل کے الزام میں گرفتار کرتی ہے تو فوراً پولیس پر جانبداری کا الزام لگایا جاتا ہے اور بجائے عدالت کے فیصلہ کرنے کے یہ افراد سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ یوں کسی بھی ملزم کو آج تک سزا نہیں ہو سکی۔ اس تناظر میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا طاہر اشرفی کے تیار کردہ ضابطئہ اخلاق کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

مولانا طاہر اشرفی نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے محدود استعمال، اشتعال انگیز مواد کی اشاعت پر پابندی اور نفرت انگیز تقاریر کے سدباب کے لیے جامع تجاویز پیش کی ہیں مگر اس ضابطہ اخلاق کی حمایت میں مذہبی جماعتوں اور گروپوں نے کوئی بیان نہیں دیا اور نہ کسی خطیب نے اپنے جمعہ کی تقریر میں اس ضابطہ اخلاق کا ذکر کیا ہے۔ اس صورتحال میں کراچی کے شہری مزید قتل ہونے والوں کا ماتم کرنے اور شہر میں ہفتے میں دو سے تین دفعہ سرگرمیاں معطل ہونے کے نقصانات کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔