عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کیا جائے

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 7 دسمبر 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان دنیا میں دہشت گردوں کے اڈے کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے اور ہم پاکستان کو اسلام کے قلعے کا نام دے کر فخر کر رہے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارا مذہب امن اور محبت کا مذہب ہے اور ہمارا عمل ہمارے اس دعوے کی نفی کر رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے سفاک لوگ گزرے ہیں چنگیز خان، ہلاکو خان کا نام آج بھی سفاکانہ مظالم کا حوالہ بنا ہوا ہے۔

ہماری سپریم کورٹ کراچی میں امن اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے ازخود نوٹسوں کی سماعت کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کراچی میں قتل و غارت کے اسباب جاننا چاہتی ہے تا کہ ان اسباب کے تناظر میں کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے سنگین جرائم کو روکا جا سکے۔ سپریم کورٹ بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے ہزاروں افراد کا پتہ لگانا اور انھیں بازیاب کرانا چاہتی ہے لیکن سپریم کورٹ سے تعاون نہیں کیا جارہا ہے۔ ہمارے سابق اور موجودہ حکمران اس نیک خواہش کا اظہار بار بار کرتے ہیں کہ ملک میں قانون اور انصاف کی برتری کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا لیکن قانون اور انصاف کے ادارے جب قانون اور انصاف کی برتری کی کوششیں کرتے ہیں تو قانون اور انصاف کے اداروں کے راستے میں قانون ہی کا سہارا لے کر روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ ملک میں دو ادارے اس حوالے سے بے حد اہم ہیں عدلیہ اور انتظامیہ۔ عدلیہ کا کام فیصلے کرنا ہوتا ہے اور انتظامیہ کا کام عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا۔

عدالت عظمیٰ بلوچستان لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک عرصے سے انتظامیہ کو حکم دے رہی ہے کہ وہ تمام لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرے۔ اس حوالے سے 35 افراد کو عدالت میں بلا تاخیر پیش کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے لیکن متعلقہ وزیر اور سرکاری وکیل بار بار عذر لنگ کا سہارا لے کر عدلیہ کے حکم کی تعمیل سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ عدالت کے شدید اصرار پر عدالت کو بتایا جا رہا ہے کہ ان 35 لاپتہ افراد میں سے دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک دبئی میں ہیں۔ اس انکشاف سے دو باتیں بہت واضح ہو رہی ہیں، ایک یہ کہ 35 افراد حکومت کی تحویل میں موجود ہیں دوسرے یہ کہ ان 35 افراد میں سے دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دو افراد کیسے ہلاک ہوئے ہیں؟ جب حکومتی وکیل، حکومتی اداروں کی تحویل میں دو افراد کی ہلاکت کا اعتراف کرتے ہیں تو منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں اور کراچی میں ملنے والی دو سو لاشیں کہاں سے آئیں، انھیں کس نے قتل کیا؟

حکومت کے ترجمان عدالت میں کہہ رہے ہیں کہ ہم ان وحشی قاتلوں کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے جنھوں نے ہمارے جوانوں کے سر تن سے جدا کیے ہیں۔ حکومت کا یہ اعتراض یا شکوہ درست تو ہے لیکن نہ قانونی ہے نہ آئینی۔ ملک میں قانون اور انصاف کی برتری اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب قانون اور انصاف کا احترام کیا جاتا ہے لیکن جب قانون کے رکھوالے انصاف کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہتے ہیں کہ ہم ان قاتلوں کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے جنھوں نے ہمارے جوانوں کے سر کاٹے ہیں تو قانون اور انصاف عدالتوں اور قانون کی کتابوں سے نکل کر انتظامیہ کی جیب میں چلا جاتا ہے، جب ایسا ہوتا ہے تو قانون اور انصاف کی برتری کمتری میں بدل جاتی ہے۔

ملکی سالمیت کا احترام ماضی قریب ہی نہیں ماضی بعید میں بھی کیا جاتا تھا۔ دنیا کی ساری جنگوں کی وجہ تلاش کی جائے تو ان میں ملکی سالمیت کی حفاظت اور ملکی سالمیت کی مخالفت ہی دو بنیادی محرک نظر آتے ہیں۔ پاکستان ’’جیسا بھی ہے جہاں بھی ہے‘‘ ایک ملک ہے، اس کی سالمیت کا احترام ضروری ہے۔ بلوچستان کے عوام کے ساتھ روز اول ہی سے ظلم ہو رہا ہے، یہ ظلم کوئی اور نہیں کر رہا بلکہ ہماری حکومتیں ہی کر رہی ہیں۔ 1971ء کے بعد ہمیں ہوش آ جانا چاہیے تھا کہ ظلم اور ناانصافیاں جب حد تک سے گزر جاتی ہیں تو ملکی سالمیت داؤ پر لگ جاتی ہے اور مسلسل ظلم سہنے والے ظلم سے تنگ آ کر خود ظالم بن جاتے ہیں۔

کیا بلوچستان اسی مقام پر کھڑا ہے؟ بلوچستان کی شکایات سر آنکھوں پر لیکن کیا اس کا یہی حل ہے کہ بندوق اٹھالی جائے اور جب جوش جنوں میں بندوق اٹھا لی جاتی ہے تو انسان اپنوں پرائیوں کی تمیز ہی نہیں کھو بیٹھتا بلکہ خود اپنے نفع نقصان کو بھی بھلا دیتا ہے۔ یہی کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے۔ سر کاٹنے کا جواب سر کاٹ کر دینا انسانی فطرت تو ہوسکتی ہے لیکن مہذب معاشروں میں سر کاٹنے کا جواب سر کاٹ کر یا گولی مار کر نہیں دیا جاتا، اس جرم کی سزا بھی عموماً موت کا بدلہ موت ہی ہوتی ہے۔ لیکن یہ سزا قانون اور انصاف دیتا ہے، اگر اس سزا کا اختیار مظلوموں کو دے دیا جائے تو شہر جنگلوں میں بدل جاتے ہیں، جنگلوں اور شہروں میں یہی فرق ہے اور یہ فرق قائم رہنا چاہیے ورنہ ساری دنیا ایک جنگل میں بدل جائے گی۔

بلوچستان کے عوام کو اپنے حقوق کی جنگ ضرور لڑنی چاہیے اور یہ جنگ بعض اوقات بغاوت تک پہنچ جاتی ہے، اس حوالے سے ہم مشرقی پاکستان کی مثال بھی پیش کرتے ہیں لیکن مشرقی پاکستان کی صورت حال مختلف تھی، وہاں صرف ایک قوم رہتی تھی اور ان میں یکجہتی تھی، سو انھوں نے اپنی بغاوت سے نقصان نہیں اٹھائے، بغاوت کی کامیابی کے بعد بھی وہ ایک قوم ہی رہے۔ بلوچستان دو بڑی قومیتوں میں بٹا ہوا ہے، بلوچستان میں موجود بے تحاشا قدرتی وسائل پر باہر والوں کی نظر بھی ہے اور الزام ہے کہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں بیرونی ہاتھ بھی کارفرما ہے۔ کیا اس پس منظر میں بلوچستان آزاد ہوتا ہے تو وہ بنگال کی طرح متحد رہ سکے گا؟

یہ وہ سوال ہے جس پر بلوچستان کی تحریک آزادی یا بلوچستان کی جنگ لڑنے والوں کو غور کرنا چاہیے، کیونکہ کنویں سے نکل کر کھائی میں گرنا نہ عقلمندی ہے نہ قوم و ملک کی خدمت۔ بلاشبہ ہمارے حکمرانوں نے بلوچوں کے ساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں لیکن اس کا جواب مسلح بغاوت نہیں کیونکہ اس کا انجام خود جنگ لڑنے والوں کے حق میں برا ثابت ہونے کے خدشات ہیں۔ باغیوں کو ختم کرنا بغاوت کا جواب نہیں کیونکہ باغی ہمارے ناراض بھائی ہیں ان کے مطالبات پر دھیان دیجیے۔ انھیں جھوٹے وعدوں پر مت ٹرخائیے۔ باغی ہوش سے کام لیں۔ حکمران جھوٹے وعدوں کے بجائے اپنے عمل سے بلوچستان کو یہ یقین دلائیں کہ وہ ان کے حقوق دیں گے انھیں ان کا انتظامی حق اور ان کے قدرتی وسائل پر ان کے حق کو تسلیم کریں گے۔ نہ باغی قانون اور انصاف کی حدوں سے گزریں نہ حکمراں سر کا بدلہ سر کے اصول پر اتر آئیں، جرم کا فیصلہ عدالت کو کرنے دیں۔

عدالت عظمیٰ جس دوسرے کیس کی سماعت کر رہی ہے وہ ہے کراچی بد امنی کیس۔ یہ بڑا گمبھیر کیس ہے، اس بد امنی میں حکومت سمیت کئی طاقتیں ملوث ہیں۔ کراچی کی بد امنی صرف کراچی تک محدود نہیں، اس بد امنی کا تعلق خیبر سے کراچی تک پھیلی ہوئی بد امنی سے ہے اور یہ بد امنی جرائم پیشہ گروہوں کی پھیلائی ہوئی ہے، نہ اس بدامنی میں صرف جرائم پیشہ گروہ ملوث ہیں۔ جرائم پیشہ گروہ استعمال ضرور ہو رہے ہیں لیکن اس ملک گیر بد امنی میں وہ منظم گروہ شامل ہیں جو اس ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور جس کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان بھی کر رہے ہیں۔

بلاشبہ ہماری عدلیہ خلوص دل سے کراچی کی بد امنی کو ختم کر کے کراچی کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتی ہے لیکن اسے اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ کراچی کی بد امنی صرف کراچی تک محدود نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ بد امنی محض جرائم پیشہ گروہوں کا کام نہیں بلکہ یہ منصوبہ بندی اتنی جامع ہے کہ اس کا مقابلہ سیاستدانوں کے احمقانہ بیانوں اور بے ربط اقدامات سے کیا جا سکتا ہے نہ عدلیہ کی خلوص نیت سے کی جانے والی کوششوں سے۔ اس کے لیے سیاست دانوں میں خلوص نیت چاہیے، اس کے لیے قومی یکجہتی چاہیے، اس کے لیے قومی اتحاد چاہیے، اس کے لیے عوام کو آگے لانے اور گلی گلی محلہ محلہ بستی بستی امن دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی چاہیے۔ ہواؤں میں تیر چلانے اور سیاسی مفادات کی جھرمٹ میں اس ملک بھر میں پھیلی یا پھیلائی گئی بد امنی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔