محاذ پر ڈٹے سپاہیوں پہ ظلم

شاہد کاظمی  جمعرات 4 جون 2020
کورونا محاذ پر ڈٹے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف سہولیات کی عدم فراہمی پر احتجاج کناں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا محاذ پر ڈٹے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف سہولیات کی عدم فراہمی پر احتجاج کناں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وفاق کے اس وقت سب سے بڑے اسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں چلڈرن آپریشن تھیٹر کے ایک ٹیکنیشن کی شہادت کے بعد ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کےلیے مشکلات کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

وینٹی لیٹرز مناسب تعداد میں ہیں نہیں۔ مریض ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ اب تو لاکھ کی نفسیاتی حد بھی سمجھیے عبور ہوئی۔ اور جو لاہور سے خبریں ہیں کہ لاکھوں افراد متاثر ہوسکتے ہیں، وہ بھی باعث پریشانی ہے۔

یقین مانیے دل رنجیدہ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل اسٹاف وہ لوگ ہیں، جن کے سامنے یقینی موت ہے لیکن یہ میدان سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بزدل سپاہی جنگ چھڑنے پر چھٹی کی درخواست دیتے ہیں اور بہادر سپاہی جنگ کی دعائیں مانگتے ہیں اور جنگ چھڑتے ہی رضاکارانہ طور پر اگلے محاذ پر جانے کی درخواست کردیتے ہیں۔ ہمارے یہ سپاہی بھی اگلے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

یہ سفید وردی پہنے ہوئی سپاہی میدان سے تو پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ لیکن ہم بطور قوم ان کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ ہم بطور قوم ان کو اپنا حصہ نہیں سمجھ رہے۔ اور یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ان کی پکار شاید وقتی مفادات کےلیے ہے۔ اور ان کا واویلا بھی شائد فرائض سے جان چھڑانے کےلیے ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے ڈاکٹرز اور طبی عملے کے اس وبائی صورتحال میں معمولات زندگی جاننے کی کوشش کی؟ کالم، آرٹیکل، بلاگ لکھا اور فرض ادا ہوا، تقریر کی اور سمجھا ہم نے حق ادا کردیا۔ زبانی جمع خرچ دکھانے کے لیے پریس کانفرنس کی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم تو اپنی ذمے داری نبھا بیٹھے۔ صاحبانِ عقل ان کی پکار پر توجہ دیجیے، ان کے واویلے میں پوشیدہ بین سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔ ان کی پریشانی کی وجہ کیا ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق اب پورے پاکستان سے انتہائی سینئرز ڈاکٹرز اس وائرس کا شکار ہوکر جان سے جارہے ہیں۔ پیرامیڈیکل اسٹاف کےلیے بھی صورتحال حوصلہ افزا نہیں۔ ڈاکٹر اسامہ ہوں یا او ٹی ٹیکنیشن ظفر اقبال، دونوں نے ہی میدان عمل سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔ ہولی فیملی اسپتال کی ڈاکٹر رابعہ طیب ہوں یا حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور کے ڈاکٹر جاوید، یہ سپاہی اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ واویلا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سہولیات موجود نہیں۔ ہمیں کٹس نہیں فراہم کی جاتیں۔ ہمیں حفاظتی لباس کی کمی کا سامنا ہے۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں یہ اپنے ذاتی مفادات کےلیے یہ رونا رو رہے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں کہ ڈاکٹرز و طبی عملہ آج نہ ہوتا تو ہمارے ہاں حالات کس قدر مختلف ہوسکتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز جب مفادات کےلیے ہڑتال کرتے تھے تو ہم نے ان کی مخالفت کرنے کے ساتھ اس پر تحریروں کے انبار بھی لگائے۔ لیکن آج اگر یہی ینگ ڈاکٹرز سہولیات کی فراہمی کےلیے ہڑتال یا احتجاج کرتے ہیں تو یقین جانیے راقم الحروف کی طرف بہت سے دیگر لکھاری بھی ان کو حق پر سمجھتے ہیں۔

کورونا وارڈز میں فرائض سر انجام دینے والے ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل اسٹاف دو دھاری تلوار پر چل رہے ہیں۔ ان کے پاس سہولیات کا فقدان ہے اور یہ اپنے گھر والوں سے بھی کٹ کر رہ رہے ہیں۔ سرجیکل اسٹور پر فرائض سر انجام دینے والے ایک صاحب بولے کہ ان کے انچارج نے ان سے کہا کہ آپ کےلیے مشکل نہ ہو تو آپ عید کی چھٹیوں میں بھی اسٹور پر ڈیوٹی دے سکتے ہیں؟ تو اسپتال اسٹور پر کام کرنے والے ان صاحب، جو اوپن ہارٹ سرجری کے مرحلے سے بھی خود گزر چکے ہیں، بخوشی رضامندی ظاہر کردی چھٹیوں کے دنوں میں ڈیوٹی سر انجام دینے کےلیے۔ اور انہوں نے عید اسپتال ہی میں منائی۔ یہ ان کا جذبہ ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟

ڈاکٹرز شور کر رہے ہیں کہ آپ لاک ڈاؤن نہ ختم کیجیے، جب کہ ہم ان کی ایک سننے کو تیار نہیں۔ ڈاکٹرز وارننگ دے رہے کہ جس طرح سے عوام باہر نکل رہے ہیں یہ صورتحال کو سنگین بنادے گا۔ لیکن ہمارے نزدیک تو ڈاکٹرز صرف اور صرف مفاداتی ٹولہ ہے اور کچھ نہیں۔

یہ جو ڈاکٹڑز رو پیٹ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن نہ ختم کیجیے اور تمام کمرشل کاروبار نہ کھولیے تو کیوں ایسا کہتے ہیں؟ ان کے کہنے میں خدشات چھپے ہیں۔ ہم نے برسوں محنت کرکے اپنا صحت کا نظام اور انتظامی ڈھانچہ تباہ کیا ہے۔ اور ڈاکٹرز جانتے ہیں کہ ہمارا صحت کا نظام جس نہج پر ہے وہ اچانک اور بڑھتی ہوئی مریضوں کی تعداد کو سنبھالنے سے قاصر ہے۔ اور ڈاکٹرز ہی جانتے ہیں کہ اسپتال بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔

ابھی تو صورتحال کسی نہ کسی طرح قابو میں ہے، لیکن ہم نے جس طرح لاک ڈاؤن کو عملاً مکمل طور پر ختم کردیا ہے، کچھ بعید نہیں کہ کورونا کی وبا ہمارے قابو سے باہر ہوجائے۔ جس انداز سے بازار کھلے، جیسے ہم نے عوام کا ہجوم سڑکوں پر لا کھڑا کیا، کچھ بعید نہیں کہ ڈاکٹرز کے خدشات اور پریشانی ہمیں عملی سطح پر نظر آنا شروع ہوجائے۔

ہم نے ڈاکٹرز کی ہدایات اور خدشات مکمل طور پر نظر انداز کردیے ہیں۔ ہم نے ان سپاہیوں کی بات سننا چھوڑ دی ہے جو ہمارے فرنٹ لائن وارئیر ہیں۔ ہم اگر اپنے فرنٹ لائن وارئیرز پر ہی بھروسہ نہیں کریں گے تو ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ کورونا جیسے دشمن سے لڑ سکیں گے۔ ہم یہ تو توقع کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کورونا کے خلاف لڑیں لیکن ہم اس کے ساتھ انہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنے کو تیار نہیں۔

سڑکوں پر اکا دکا گاڑیوں کے بعد اس وقت عملاً ٹریفک جام کی صورتحال ہوگئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہر طرح کے ایس او پیز کی دھجیاں اڑانا شروع کردی گئی ہیں۔ مخصوص دکانوں کے بعد رفتہ رفتہ چھوٹی مارکیٹیں کھل چکی ہیں۔ اور اب بڑے شاپنگ مالز کھلنے کی نوید بھی سننے کو مل رہی ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ کچھ دن میں یہ بھی ہوجائے گا۔ عید پر ہم نے کھل کر شاپنگ کی اور نتیجہ ہر چوبیس گھنٹے میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوگیا۔ عوام کا ہجوم بتا رہا ہے کہ وہ کورونا کو ایک مذاق سے بڑھ کر سمجھنے کو تیار نہیں۔ لیکن واحد ہمارے فرنٹ لائن پر کھڑے سفید کوٹ پہنے سپاہی ہیں جو حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ معاملات کس نہج پر جا سکتے ہیں۔

دعا ہے کہ حالات ان خدشات کے برعکس بہتر ہی رہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور لاک ڈاؤن کو عملاً ختم کرنے کے بعد وبا نے حقیقت میں وبائی صورتحال اختیار کرلی تو اموات کا ذمے دار کون ہو گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔