اُس جیسا اب کہاں ملے گا؟

نیلسن منڈیلا نے عملی سیاست کا آغاز 1948ء میں اُس وقت کیا جب نسلی امتیاز کی حامی جماعت افریقناز نیشنل پارٹی برسراقتدار آئی. فوٹو:فائل

نیلسن منڈیلا نے عملی سیاست کا آغاز 1948ء میں اُس وقت کیا جب نسلی امتیاز کی حامی جماعت افریقناز نیشنل پارٹی برسراقتدار آئی. فوٹو:فائل

زندہ قومیں غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر اوج ثریا تک تب پہنچتی ہیں جب اُن کے اندر آزادی کی تڑپ پیدا ہو جائے، اُنہیں یہ شعور مل جائے کہ وہ سر اُٹھا کر جینے کا حق رکھتی ہیں، اور اس حق کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

یہی وہ تڑپ ہے جو انسان کو محنت کرنے، اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے اور کٹھن راہوں میں ثابت قدم رہنے پر اُکساتی ہے۔ اس سارے عمل میں ایک کردار ایسا بھی ہو تا ہے جو انسانوں کے اس ہجوم کو قوم کی شکل دیتا ہے، جو ان کی جدوجہد کو صحیح سمت فراہم کرتا ہے، جو مصائب سہتا ہے، اذیتیں جھیلتا ہے، ہر ستم برداشت کرتا ہے، اور بعض اوقات جان سے بھی گزر جاتا ہے، مگر اپنی قوم کو منزل مقصود تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ جنوبی افریقہ کے باسیوں کی خوش نصیبی کہ انھیں بھی ایک ایسا راہ نما میسر آیا جس نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر انھیں غلامی کی زنجیروں اور ظلم سے نجات دلائی۔

آج سے تقریباً ایک صدی قبل، جنوبی افریقہ کے ٹیمبو قبیلے میں پیدا ہونے والا یہ شہزادہ، جسے دنیا آج نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے، اگر اپنے والد کی سرداری کا تاج اپنے سر سجا لیتا تو وہ بھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کر سکتا تھا، لیکن اس نے سرداری کو ٹھوکر ماری اور اپنی اُس قوم کو نئی زندگی دلانے میں لگ گیا، جو صرف اس وجہ سے رسوا تھی کہ اُن کی رنگت کالی تھی۔

اس نے تشدد برداشت کیا،27 برس جیل کاٹی، لیکن اپنی قوم کو غلامی کی کالی گھٹاؤں سے نکال کر آزادی کے کھلے آسمان تلے لے آیا اور آج جب یہ عظیم لیڈر دنیا سے رخصت ہو گیا ہے تو نہ صرف جنوبی افریقہ کے باشندے بلکہ دنیا کا ہر وہ فرد جو سام راج سے آزادی حاصل کر چکا ہے یا آزادی کی جدوجہد کر رہا ہے، آنسوؤں کے نذرانے لیے اسے خراج تحسین پیش کر تا دکھائی دیتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے عوام منڈیلا کو اب منڈیلا نہیں بلکہ ’’ماڈیبا‘‘ کہہ کر پکار رہے ہیں جس کا مطلب ہے’’بابا‘‘۔ جنوبی افریقیوں کا یہ نجات دہندہ اور بابائے قوم ایک مثالی اور تاب ناک زندگی گزار کر دنیا سے چلاگیا۔ نیلسن منڈیلا نے منڈیلا سے ماڈیبا تک کا سفر کیسے طے کیا، کیا کیا رکاوٹیں ان کی راہ میں حائل ہوئیں، آئیے اُن کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں۔

٭ابتدائی زندگی
نیلسن منڈیلا 18جولائی 1918ء کو جنوبی افریقہ کے علاقے ترانسکی میں پیدا ہوئے۔ والدین نے اُن کا نام ’رولہلالا‘ رکھا، جس کا مطلب ہے ’’غاصبوں کو للکارنے والا۔‘‘ اگرچہ منڈیلا کے والدین تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر ان کی والدہ نے سات سال کی عمر میں انھیں اسکول بھیجا۔ وہ اپنے قبیلے کے پہلے فرد تھے جنہوں نے اسکول میں داخلہ لیا۔ منڈیلا بتا تے ہیں، ’’اسکول کے پہلے روز ہماری اُستانی نے تمام طلباء کو انگریزی نام دیے۔ یہ اُن دنوں افریقہ میں رواج تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ برطانویوں کا ہماری تعلیم کے خلاف تعصب تھا۔ مجھے نیلسن کا نام دیا گیا اور مجھے نہیں معلوم کہ اُنہوں نے میرے لیے اس نام کا انتخاب کیوں کیا۔‘‘

منڈیلا کی عمر جب 19برس ہوئی تو فورٹ ہیر یونیورسٹی میں اُن کی ملاقات ’’اولیور ٹامبو‘‘ نامی ایک نوجوان سے ہوئی، اور یہ دونوں عمر بھر ساتھ رہے۔ منڈیلا نے اپنی زندگی کی پہلی بغاوت کالج میں فرسٹ ایئر کے اختتام پر یونیورسٹی کی پالیسیوں کے خلاف کی۔ ان سے کہا گیا کہ وہ یا تو طلباء نمائندہ کونسل کے انتخابات کو تسلیم کریں یا پھر کالج چھوڑ دیں۔ منڈیلا نے کالج چھوڑ دیا لیکن تعلیم کا شوق اُن کے دل میں برقرار رہا۔ اُنہوں نے جیل میں رہتے ہوئے یونیورسٹی آف لندن سے، پرائیویٹ طالب علم کے طور پر قانون کی تعلیم حاصل کی۔

٭عملی سیاست کا آغاز
نیلسن منڈیلا نے عملی سیاست کا آغاز 1948ء میں اُس وقت کیا جب نسلی امتیاز کی حامی جماعت افریقناز نیشنل پارٹی برسر اقتدار آئی۔ اس کے بعد 1952ء میں منڈیلا نے اے این سی (افریقی نیشنل کانگریس ) نامی پارٹی کی دفاعی مہم اور 1955ء کے کانگریس آف پیوپل کی قیادت کی، جس کے چارٹر آف فریڈم کی بدولت نسلی امتیاز مخالف مہم کو تقویت ملی۔ اس دوران منڈیلا اور اُن کے ساتھی اولیور ٹامبو نے ایک قانونی فرم چلائی۔

یہ لوگ سیاہ فارم باشندوں کو ارزاں قانونی معاونت فراہم کر تے تھے ۔ انہی برسوں میں منڈیلا نے اُن قوانین کی بھی سختی سے مخالفت کی، جن کے تحت جنوبی افریقہ کے کچھ علاقے صرف سفید فام باشندوں کے لیے مخصوص کیے گئے تھے، جہاں جانے کے لیے سیاہ فام باشندوں کو دستاویزات دکھانے کی ضرورت ہو تی تھی۔ اُنہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا اور لوگوں کو ان امتیازی قوانین کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی۔

نیلسن منڈیلا کی نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد نے انہیں حکم رانوں کا اہم ہدف بنا دیا، جس کے نتیجے میں 1956ء میں اُن پر پابندیاں عاید کردی گئیں۔ اب نہ ہی وہ سفر کر سکتے تھے، نہ ہی کسی سے ملاقات، ان کے تقریر کر نے پر بھی پابندی تھی۔ 5 دسمبر1956ء کو انہیں150 ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور ان پر غداری کا الزام عاید کیا گیا۔ یہ قانون خصوصی طور پر نسلی امتیاز کے خلاف متحرک کارکنوں کو ہراساں کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ منڈیلا پر مقدمہ چلتا رہا اور بالآخر1961ء میں انہیں رہا کر دیا گیا۔

٭مسلح جدوجہد
1960ء میں پولیس کی جانب سے نہتے افریقیوں کے قتل عام اور اس کے بعد اے این سی (افریقن نیشنل کانگریس) پر پابندی کے بعد منڈیلا نے اپنی غیرمسلح تحریک کو خیر باد کہہ دیا۔ اب اُن کی زندگی کا مقصد افریقی حکومت کا خاتمہ تھا۔

اس دوران وہ مسلسل روپوشی کی زندگی بسر کر تے رہے۔ اُن کی مسلسل روپوشی اور پولیس کی اُنہیں گرفتار کرنے میں ناکامی نے اُنہیں ’’بلیک پمپیرنل‘‘ کے نام سے مشہور کردیا۔ بلیک پمپیرنل درحقیقت ایک سویڈش ڈراما فلم ہے جو ہیرالڈ ایڈلسٹم نامی سویڈش سفیر پر بنائی گئی ہے۔ ہیرالڈ ایڈلسٹم چلی کے لیے سویڈن کا سفیر تھا، جس نے 1973ء میں فوجی آمر پنوشے کی حکومت آنے پر 1300افراد کو اپنے سفارت خانے میں پناہ دی اور اُنہیں سویڈن منتقل کرکے ان کی زندگیاں بچائیں۔

٭گرفتاری اور شہرت
1961ء میں نیلسن منڈیلا اے این سی کی فوجی ونگ کے سربراہ بن گئے۔ 1962ء میں وہ الجیریا گئے جہاں اُنہوں نے گوریلا جنگ اور ہتھیاروں کی تربیت حاصل کی۔ اُن کی افریقہ واپسی کے تھوڑے ہی عرصے بعد 5 اگست 1962ء کو اُنہیں ٹریفک جام کے دوران گرفتار کرکے پانچ برسوں کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ اکتوبر 1963ء میں نیلسن منڈیلا اور ان کے دیگر ساتھیوں پر تخریب کاری اور غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ مقدمے کے دوران ان کی ایک تقریر جس کا عنوان تھا،’’میں مرنے کو تیار ہوں‘‘ نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

اس تقریر میں اُنہوں نے واضح کیا کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کے باعث اُن کی جماعت، اے این سی، پرامن جدوجہد ترک کرکے اسلحہ اُٹھانے پر مجبور ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کیا، ’’میں نے اپنی زندگی افریقی عوام کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ میں نے سفید فام باشندوں کے غلبے کے خلاف لڑ ائی لڑی ہے اور میں سیاہ فام غلبے کے بھی خلاف ہوں۔ میں ایک آزاد اور جمہوری معاشرے کا خواہش مند ہوں، جس میں تمام لوگ پیارومحبت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اُنہیں مساوی حقوق حاصل ہوں۔ یہی میرا خواب ہے جس کے لیے میں زندہ ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں اسے حاصل کرکے رہوں گا اور اگر اس کے لیے کسی قربانی کی ضرورت ہے تو میں مرنے کو تیار ہوں۔‘‘

12جون 1964ء کو نیلسن منڈیلا کے ایک کے سوا تمام ساتھیوں کو مجرم قرار دیا گیا، لیکن وہ سزائے موت سے بچ گئے اور انہیں عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ 1964ء سے1982ء تک18 برس منڈیلا نے کیپ ٹاؤن کے رابن جزیرے میں قید کاٹی۔ جزیرے پر انہوں نے دیگر قیدیوں کے ساتھ انتہائی سخت تکالیف برداشت کیں۔ جیل کی حالت انتہائی خستہ تھی، قیدیوں کو سیاہ اور سفید میں تقسیم کیا گیا تھا، جہاں سیاہ فام قیدیوں کو بہت کم کھانا دیا جاتا تھا۔ منڈیلا نے لکھا کہ سب سے نچلے درجے کے قیدی کی حیثیت سے اُن کے ساتھ کس قدر اذیت ناک سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ اُنہیں ہر چھ ماہ بعد ایک شخص سے ملاقات اور ایک خط لکھنے کی اجازت ہوتی اور باہر سے جب خطوط آتے تو انہیں پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

٭رہائی
قید کے دوران نیلسن منڈیلا کی شہرت میں بھرپور اضافہ ہوا اور وہ افریقہ میں اہم ترین سیاہ فارم راہ نما کے طور پر اُبھرے۔ مارچ 1982ء میں منڈیلا اور اے این سی کے دیگر راہ نماؤں کو جزیرہ رابن سے پولسمور جیل منتقل کیا گیا۔ یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ یہ اقدام جیل میں اعلیٰ سیاہ فارم راہ نماؤں اور نئے قیدیوں کے درمیان اثر رسوخ روکنے کے لیے اُٹھایا گیا ہے، تاہم نیشنل پارٹی کے ایک وزیر نے ان افواہوں کے جواب میں کہا کہ منتقلی کا مقصد افریقی حکومت اور ان رہنماؤں کے مابین منقطع روابط کو بحال کرنا ہے۔ منڈیلا کی رہائی کے لیے شدید عوامی دباؤ کے باعث فروری 1985ء میں صدر پی، ڈبلیو بوتھا نے منڈیلا کو اس شرط پر رہائی کی پیشکش کی کہ وہ مسلح جدوجہد کو مکمل طور پر ترک کردے۔

منڈیلا نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’اس طرح کے مذاکرات کے لیے انسان کا آزاد ہونا ضروری ہے۔‘‘ 1989میں ’’منڈیلا کو رہا کرو‘‘ کا نعرہ اس قدر مقبول ہوا کہ افریقی حکومت ایک منجدھار میں پھنس گئی۔ اس دوران صدر بوتھا پر فالج کا حملہ ہوا اور اُس کی جگہ فریڈرک ولیم ڈی کلرک کو ملک کا نیا صدر منتخب کیا گیا۔ 1988ء میں منڈیلا کو وکٹر ورسٹر جیل منتقل کیا گیا۔ اس دوران منڈیلا پر کئی پابندیاں اُٹھالی گئیں اور وہ لوگوں سے ملنے لگے۔ نئے صدر نے فروری1990ء میں نیلسن منڈیلا کی رہائی کا اعلان کیا۔ رہائی کے فوری بعد نیلسن منڈیلا نے اے این سی کی قیادت سنبھالی اور آئندہ چار برسوں میں پارٹی کو عام انتخابات کے لیے تیار کیا۔

انتخابات
27 اپریل1994ء کو جنوبی افریقہ میں انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ پہلی مرتبہ اس میں ہر رنگ و نسل کے باشندوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ ان انتخابات میں اے این سی نے 62 فی صد ووٹ حاصل کیے اور نیلسن منڈیلا 10مئی 1994ء کو ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے۔ اپنی مدت صدارت کے دوران اُنہوں نے نسلی امتیاز اور اقلیتی حکم رانی کے خاتمے کو اپنا مقصد اولین بنائے رکھا۔ اُن کی سیاہ و سفید فام باشندوں کے مابین مفاہمت کی پالیسی کو عالمی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ 1995ء میں جب جنوبی افریقہ نے رگبی ورلڈ کپ کی میزبانی کی تو منڈیلا نے سیاہ فارم باشندوں پر زور دیا کہ وہ اپنی ٹیم کو سپورٹ کریں۔ اُن دنوں سیاہ و سفید فام باشندوں کے مابین بہت بڑی خلیج پائی جاتی تھی۔ افریقی رگبی ٹیم نے جب نیوزی لینڈ کے خلاف تاریخی فتح حاصل کی تو منڈیلا نے اپنے ہاتھوں سے سفید فام کپتان فرانکوائس نینار کو ٹرافی دی۔ اس موقع پر منڈیلا نے رگبی ٹیم کی شرٹ پہن رکھی تھی۔

جو لوگ جو کبھی سیاہ فام باشندوں کو اپنے پیر کی جوتی سمجھتے تھے اور اُنہیں خدشہ تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد یہ لوگ اُنہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنائیں گے، منڈیلا کے اس طرز عمل نے اُن کی سوچ بدل دی۔ منڈیلا اورکپتان فرانکوائس نینار کی اس موقع پر لی گئی تصویر کو افریقہ میں نسلی مفاہمت کی ایک خوب صورت مثال کے طور پر دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔

منڈیلا کے دور صدارت میں بڑے پیمانے پر سماجی اور معاشی اصلاحات ہوئیں۔ انہوں نے 1995ء میں ’’truth and reconciliation commissionبنایا، جو نسلی امتیاز کے تحت انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کرتی ہے۔ انہوں نے سیاہ فارم کمیونٹی کا معیار زندگی بہتر بنا نے کے لیے ہاؤسنگ، تعلیم اور معاشی ترقی کے موثر اقدامات کیے۔ منڈیلا کو جنوبی افریقہ کی دوسری مدت کے لیے صدر بننے کی خواہش نہیں تھی۔ ان کی جگہ 1999ء میں تھابو مبیکی صدر بنے۔

صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد نیلسن منڈیلا نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن امن، مفاہمت اور سماجی انصاف کا پیام بر بن کر دنیا میں ان کی خدمات جاری رہیں۔ منڈیلا کا شمار ایلڈرز کے بانی ارکان میں بھی ہوتا ہے۔ عالمی راہ نماؤں پر مشتمل اس گروپ کا قیام 2007 ء میں عمل میں آیا جس کا مقصد دنیا بھر میں مسائل اور تنازعات کو حل کرنا ہے۔

2008 ء میں منڈیلا کی 90 ویں برسی پر جنوبی افریقہ، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں منڈیلا کی نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کو بھر پور خراج تحسین پیش کیا گیا۔ نیلسن منڈیلا کو اُن کی خدمات پر 250 سے زاید اعزازات سے نوازا گیا ہے، جن میں سب سے قابل ذکر 1993ء کا نوبل انعام برائے امن ہے۔ نومبر 2009ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے 18جولائی، نیلسن منڈیلا کی تاریخ پیدائش، کو ’’یوم منڈیلا‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔

نیلسن منڈیلا کی تحریک تو ختم ہوئی، سیاہ فارم باشندوں کو مساوی حقوق حاصل ہوئے لیکن اب بھی دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں رنگ ونسل کے بجائے، امیر ی اور غریبی کا فرق قائم ہے۔ جہاں آج بھی ایک قلیل، مراعات یافتہ طبقہ ملکی دولت پر قابض ہو کر غریبوں کا خون چوس رہا ہے، جہاں آج بھی امیر کے بچے کے لیے الگ تعلیم اور غریب کے بچے کے لیے الگ تعلیم ہے، جہاں آج بھی کئی بستیاں امیری اور غریبی کا واضح منظر پیش کر تی ہیں، جہاں جیلوں سے لے کر اسپتالوں، تعلیمی اداروں سے لے کر تھانہ کچہریوں تک امیری اور غریبی چلتی ہے۔

لیکن ان ملکوں کے سیکڑوں نام نہاد راہ نما روزانہ ٹیلی ویژن پر یا اونچے اونچے محلات میں بیٹھ کر غریب کی غربت کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ نہ جانے کب وہ دن آئے گا جب ان ملکوں کے غریب عوام کی بھی تقدیر جاگے گی اور کب انہیں نیلسن منڈیلا جیسا راہ نما میسر آئے گا، جو دنیا میں مخلص، پُرعزم اور جُرات مند قیادت کی مثال بن چکا ہے۔

 اقتدار اور سیاست سے علیحدگی کے بعد نیلسن منڈیلا کی مصروفیات

1994ء میں پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہونے کے بعد دسمبر 1997ء میںنیلسن منڈیلا نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا، اور بہ تدریج اقتدار نئے صدر کو منتقل کرتے ہوئے 16 جون 1999ء کو مکمل طور پر قصر صدارت سے الگ ہوگئے۔

ساتھ ہی انہوں نے عملی سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی اور انسانی حقوق، امن اور سماجی انصاف کے لیے خدمات انجام دینے لگے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے 1999ء میں ’’نیلسن منڈیلا فاؤنڈیشن‘‘ بھی تشکیل دی۔ نیلسن منڈیلا 2007 ء میں عالمی تنازعات اور مسائل کے حل کے لیے بننے والے مختلف بین الاقوامی نمائندوں کے گروپ ’’The Elders‘‘ کے بھی بانی راہ نماؤں میں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی انان بھی اس گروہ کا حصہ ہیں۔

2008ء میں ان کی نوے ویں سال گرہ کے موقع پر اس دن کو اقوام متحدہ کے 192 اراکین کی متفقہ قرار داد کے ذریعے منڈیلا کا بین الاقوامی دن قرار دیا گیا اور 18 جولائی 2009ء کو یہ دن پہلی بار منایا گیا۔ انہوں نے اس دن لوگوں سے 67 منٹ تک فلاح عامہ کے لیے کام کرنے کی درخواست کی۔ واضح رہے کہ انہوں نے 67 سال اپنی قوم کے لیے جدوجہد کی تھی اسی مناسبت سے انہوں نے 67 منٹ تجویز کیے۔

سیاست سے کنارہ کشی کے باوجود انہوں نے عراق پر امریکی حملے کی سخت مذمت کی۔ امریکی عوام سے اس امن دشمن اقدام کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر سخت تنقید کی۔ یہی نہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو طاقت کے حامل ممالک پر بھی انہوں نے اس جنگ کے خلاف موثر حکمت عملی اپنانے پر زور دیا۔

2001ء میں ان کے پھیپھڑوں کے سرطان کی تشخیص کی گئی۔ اقتدار اور سیاست سے علیحدگی کے بعد انہوں نے ایڈز کے مرض کے خلاف بھی آگاہی کے لیے جدوجہد کی اور اس ضمن میں سیکڑوں مہمیں چلائیں۔ جولائی 2004ء میں وہ بنکاک میں منعقدہ عالمی ایڈز کانفرنس میں بھی شریک ہوئے۔ 2006 ء میں ان کا ایک بیٹا مک گاتھو (Makgatho ) بھی اس مہلک مرض کی نذر ہوا۔

نیلسن منڈیلا نے 2004ء میں خرابی صحت کی بنا پر گوشہ نشیں ہونے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ اب وہ زیادہ وقت اپنے خاندان کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بہت کم کسی عوامی تقریب میں دکھائی دیے۔ جوہانسبرگ میں فٹ بال ورلڈ کپ 2010ء کی اختتامی تقریب، وہ آخری موقع تھا جب نیلسن منڈیلا کسی عوامی تقریب میں دکھائی دیے۔ جنوری 2012ء میں جب پورا افریقہ ’’اے این سی‘‘ کی صد سالہ تقریبات کا جشن منا رہا تھا، اُس وقت منڈیلا کی غیر موجودگی نے ان تقریبات کی رونقیں مانند کر دیں۔

اے این سی کے ایک رہنما نے اس موقع پر کہا کہ، ’’نیلسن منڈیلا گھر پر ہی رہیں گے۔ اُن کی صحت اچھی ہے مگر اُن کی عمر بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ‘‘ 2012ء میں نیلسن منڈیلا کی 94 ویں سال گرہ کے موقع پر اسکولوں کے ایک کروڑ بیس لاکھ بچوں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔8 جون 2013ء کو انہیں انتہائی تشویش ناک حالت میں پریٹوریا کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا۔

گزشتہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ چوتھی مرتبہ ہو رہا تھا کہ اُنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا ہو لیکن اس مرتبہ ان کی صحت یابی کے امکانات کافی معدوم دکھائی دے رہے تھے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ منڈیلا صحت یاب ہو جائیں۔ ملک بھر میں اُن کی صحت یابی کے لیے اجتماعی دعائیں ہونے لگیں، لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور بالاخر ڈاکٹروں کی محنت اس مرتبہ رنگ نہ لا سکی اور پھیپھڑوں کا سرطان اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔