یہ کیسی تبدیلی؟

شہاب احمد خان  ہفتہ 6 جون 2020
یہ کیسی تبدیلی ہے جس میں ملک اور مذہبی اقدار زوال کی جانب گامزن ہیں؟ (فوٹو: فائل)

یہ کیسی تبدیلی ہے جس میں ملک اور مذہبی اقدار زوال کی جانب گامزن ہیں؟ (فوٹو: فائل)

ہمارا ملک اس وقت ایک ایسی تبدیلی سے گزر رہا ہے جسے اس ملک میں رہنے والے نہ سمجھ پا رہے ہیں، نہ ہی وہ اس کے عادی ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ سے روزانہ ایک نہ ایک تنازعہ جنم لیتا ہے۔ اگر اس تبدیلی کی وجہ کو بیان کیا جائے تو اکثر لوگ شاید اس سے اتفاق نہ کریں۔ کیونکہ ہمارے ملک کی اکثریت بھی ایک ایسی مخلوق ہیں جن کا نہ ماضی سے رشتہ ٹوٹ سکا ہے، نہ ہی وہ مذہب سے بالکل آزاد ہوسکے ہیں۔

اس تبدیلی کی سب سے بنیادی وجہ جمہوریت ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ جمہوریت بذات خود ایک مذہب ہے۔ اس میں کسی اور مذہب کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ آج ہمارے ملک میں جمہوریت کو کسی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا۔ اس لیے اب وہ اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے لگی ہے۔ جہاں جہاں بھی جمہوریت مستحکم ہوجاتی ہے، وہاں ہر قسم کی مذہبی سرگرمی اسے کھٹکنے لگتی ہے۔ چاہے وہ صرف عید کا چند دیکھنے کا معامله ہی کیوں نہ ہو۔

آج ہمارا سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر رویت ہلال کمیٹی میں شامل مذہبی شخصیات کا میڈیا پر بیٹھ کر مذاق اڑاتا ہے۔ ایسا وہ اس لیے نہیں کرتا کہ وہ کوئی بہت قابل شخص ہے، جس کے سامنے دوسرے طفل مکتب ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں ایسی کسی کمیٹی کا وجود برداشت نہیں ہوتا جس کا کوئی تعلق مذہب سے ہو۔ جہاں جہاں بھی جمہوریت مکمل طور پر اپنے پنجے گاڑ چکی ہے، وہاں کسی بھی چیز کا فیصلہ کرنا صرف جمہوری اداروں کا حق ہوتا ہے۔ کیا حلال، کیا حرام، اس کا فیصلہ جمہوریت اور جمہوری ادارے کرتے ہیں۔ ابھی ابتدا میں یہ کمیٹی نشانے پر ہے، آہستہ آہستہ پورا مذہب نشانے پر آ جائے گا۔

یہاں ہمارے تہجد گزار، مذہبی وزیراعظم کی اپنے مسخرے وزیر کی شوخیوں پر اختیار کی جانے والی خاموشی بھی بڑی معنی خیز لگتی ہے۔

آج کا مسلمان اپنے فرض منصبی سے بالکل ہی غافل ہوچکا ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کا کام صرف نیکی کی تلقین اور برائی سے انسانیت کو روکنا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں لوگ لبرل ازم کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں جیسے اسلام کا نچوڑ ہی یہی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی برائی میں مبتلا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل قرار دیا جانا چاہیے۔ اس برائی کو اس وقت تک چیک نہیں کیا جانا چاہیے جب تک وہ ہمیں کوئی نقصان نہ دے۔ یہ بالکل وہی ذہنیت ہے جو آج یورپ اور امریکا میں مکمل طور پر رائج ہے۔ آپ ان کے معاشرے میں کسی برائی کو دیکھ کر اگر منہ بھی بناتے ہیں تو آپ کو وہاں رہنے نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ آپ کا یہ عمل شخصی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں سب سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے روک دیا جاتا ہے۔ جو کہ ایک مسلمان کا فرض منصبی ہے۔

آج ہمارے مذہب پر اور ہماری تاریخ پر جس طرح ہر طرف سے وار کیے جارہے ہیں انھیں اس ملک میں بسنے والا ایک عام آدمی سمجھ نہیں پارہا۔ آج ہمارے مارننگ شوز کو اگر دیکھیں تو آپ کو وہاں خواتین کی اکثریت ایسے بیٹھی نظر آئے گی جو باقاعدہ حجاب پہنے ہوئے ہوگی۔ شاید جان بوجھ کر ایسی خواتین کو ہی مدعو کیا جاتا ہے جو حجاب کرتی ہوں۔ لیکن ان کے سامنے ایک خاتون اداکارہ اور ایک مرد اداکار کو مدعو کیا جاتا ہے، جو ان کے سامنے آکر آپس میں نہ صرف ہاتھ ملائیں گے بلکہ ایک دوسرے کے گالوں سے گال بھی ملائیں گے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان باحجاب خواتین کو جو ان اداکاروں کو دیکھنا چاہتی ہیں اور ان کو پسند بھی کرتی ہیں، ان کی برین واشنگ کی جارہی ہے۔ انھیں دکھایا جارہا ہے کہ وہ تو کنوئیں کی مینڈک ہیں۔ اصل زندگی اور اس زندگی کا مزہ تو یہ ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک میں خواتین کا پینٹ پہننا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ حال ہے کہ ٹائٹس اور پینٹ پہنی ہوئی خواتین عام سڑکوں پر نظر آرہی ہیں۔ ابھی صرف شرٹ تھوڑی لمبی ہے، جو کچھ ہی عرصے میں شارٹ ہوجائے گی۔

آج ہمارے سوشل میڈیا پر ایسے کئی یوٹیوب چینلز بن چکے ہیں جو باقاعدہ ہمارے مذہب اور ہماری تاریخ پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ کیا واقعی محمد بن قسم 17 سال کا تھا، جب اس نے سندھ فتح کیا تھا؟ یا کیا طارق بن زیاد نے واقعی کشتیاں جلائی تھیں؟ کچھ لوگ تو اس پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ ہمارا ہیرو محمد بن قسم ہے یا راجہ داہر؟

کوئی نام نہاد مفتی کا روپ دھار کر صحابہ اور دیگر اکابرین ملت کی کرامت و بزرگی پر بحث کر رہا ہے۔ مقدس مقامات کی حرمت پر لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا کررہا ہے۔ ہمارے رسولؐ کی شان میں ابھی کسی کو گستاخی کی جرأت نہیں ہورہی۔ لیکن اس کی ابتدا صحابہ اور اکابرین امت سے کی جاچکی ہے۔ جب لوگ اس کے عادی ہوجائیں گے تو نوبت رسول کی حرمت تک بھی پہنچ جائے گی۔

ہمارے علمائے کرام اور اکابرین امت کی پچھلی بداعمالیاں، غیر متاثر کن اور نیم دلانہ کوششیں جو وہ اسلام کی ترویج کے نام پر کرتے رہے ہیں، وہ بھی جمہوریت کا کام اس ملک میں آسان کررہی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنھیں قرآن کی صرف دو چھوٹی چھوٹی سورتیں بمشکل یاد ہیں۔ جب کبھی الله انھیں نماز کی توفیق دے دیتا ہے تو وہ یہی دو سورتیں پڑھ لیتے ہیں۔

اگر صورت حال یہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب آہستہ آہستہ پورا مذہب ایک مرکزی مسجد یا ایک کمرے میں بند کردیا جائے گا۔ جیسا کہ یورپ میں مذہب اور پوپ کو ویٹیکن میں بند کرکے انتہائی عزت اور احترام دیا جارہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔