پاکستان کا بھارت کودوٹوک جواب

ایڈیٹوریل  جمعـء 5 جون 2020
کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں بھی عروج پر ہیں: فوٹو: فائل

کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں بھی عروج پر ہیں: فوٹو: فائل

بھارت جارحیت کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جواب کے لیے تیار ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آرنے اپنے اس بیان کے ذریعے بھارت کو واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جو پیغام دیا ہے وہ بلاشبہ قومی امنگوں کا ترجمان ہے۔

توسیع پسندانہ عزائم اور نفرت بھری سیاست کے پیروکار نریندرمودی دراصل مقبوضہ کشمیرمیں دس ماہ سے جاری لاک ڈاؤن اور جبروستم پر سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔کسی کو پتہ نہیں ہے کہ مظلوم کشمیری کس حال میں ہیں، انھیں پہلے ہی علاج ومعالجے کی سہولتیں میسر نہیں ہیں اورکورونا وائرس نے انھیں کس حد تک متاثرکیا ہے، دنیا کوکچھ خبر نہیں۔ جہاں بھارت کی شاطرانہ چالیں اور مکارانہ سوچ نے مظلوم کشمیریوں پرعرصہ حیات تنگ کردیا، وہیں بھارت میں اسلاموفوبیا کی لہرکو پوری دنیا نے محسوس کیا ہے۔

کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں بھی عروج پر ہیں۔ بھارت کا خطے میں سپر پاور بننے کا خواببہت پرانا ہے، اس خواب کی تعبیرکے لیے وہ عیارانہ روش پرچل رہا ہے۔ خطے کے ہر ایک ملک کواپنا دشمن سمجھنا یا بنانا موجودہ بھارتی سرکار نے اپنا وطیرہ بنا لیاہے،حالانکہ بھارت کو چین، نیپال سرحد کے علاوہ دیگر محاذوں پر بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن ڈھٹائی اورہٹ دھرمی میں بھارتی سرکارکا ثانی نہیں ہے۔ اس طرح کی توسیع پسندانہ سوچ خطے کے امن  کے لیے شدید ترین خطرہ ہے۔

بھارت نے 5 اگست 2019کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں کرفیو نافذکیا اورلاک ڈاؤن کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی اور پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیرکو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اورقرارداد اکثریت کی بنیاد پرمنظورکر لی گئی اوریوں کشمیریوں پر ظلم وستم کے نئے دورکا آغازکیا گیا۔ ویسے توکشمیریوں پر ظلم وستم پون صدی سے جاری ہے، مگر اس کے باوجود کشمیریوں کی صدائے حریت بھی برسوں سے ہی گونج رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عالمی برادری تاحال کشمیریوں کو جینے کا حق دلوانے میں ناکام نظر آتی ہے۔

کشمیری گزشتہ برس پانچ اگست سے اپنے گھروں میں قیدیوں کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے ظلم وستم کی انتہا کر دی ہے، نوجوان کشمیریوں کی نسل کشی کا عمل بھی جاری ہے۔اس وقت انسانی المیہ یہ ہے کہ ادویات کی کمی کی وجہ سے مریض جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں لاک ڈاون جاری ہے جس کی وجہ سے کشمیریوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے، علاقے میں کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت ہے جب کہ باہمی رابطے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بھی ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر موجود ہونے کے باوجود تاحال حل طلب ہے، مظلوم کشمیریوں کی نگاہیں اقوام عالم کو دیکھ رہی ہیں کہ وہ کب انھیں انصاف فراہم کرتی ہیں۔

عالمی طاقتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ خطے میں تمام دیرینہ معاملات کا تعلق بھارت کے ساتھ ہے، دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان چین بھارت سرحدی کشیدگی کا پر امن حل چاہتا ہے اور امید ہے کہ بی جے پی کی شدت پسند سوچ سے علاقائی امن خطرے میں نہیں پڑے گا۔ انتہائی جامع اور بلیغ انداز میں ترجمان نے صورتحال کی نشاندہی کردی ہے۔ اس حقیقت سے کیسے انکارکیا جاسکتا ہے کہ بھارتی جارحیت کا ہدف سی پیک کا منصوبہ ہے۔ بھارت نے حالیہ دنوں میں اچانک چین کے ساتھ جوچھیڑچھاڑ شروع کی ہے۔

اس میں بھی اسے ہزیمت سے دوچارہونا پڑا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے نیوزچینل سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی اور پہلی مرتبہ تسلیم کیا کہ بھارت اورچین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن پر صورت حال تشویشناک ہے،جب کہ بھارت اورچین کے درمیان سکّم اورلداخ سرحدی تنازعہ حل کرنے کے لیے دونوں ہمسایہ ممالک کے سینیئر فوجی کمانڈروں کے درمیان6 جون کو مذاکرات ہوں گے،جب کہ دوسری جانب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سے بھارت اورچین کے درمیان جاری سرحدی تنازعے کوحل کرنے کے حوالے سے ٹیلیفونک بات چیت ہوئی ہے۔

بھارت جو بو رہا ہے، وہی کاٹنا بھی پڑے گا۔ بھارت ہندوتواکی جس پالیسی پرگامزن ہے، اس کے بھیانک اثرات نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بھارت میں صدیوں سے آباد اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ جبر وستم آزادی کی تحریکوں کو نہ صرف مستحکم کرے گا بلکہ بھارتی ریاست کے مستقبل میں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔

موضوع سخن بھارتی جنگی جنون کو بنائیں تو صرف مسئلہ کشمیر پر ہونے والی تینوں جنگوں میں اسے ہماری بہادروجری مسلح افواج کے ہاتھوں شکست وہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک ہے۔ اس کے باوجود اسے ہمیشہ پاکستان کے ہاتھوں مارہی پڑی ہے۔

یہ کھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام  افواج پاکستان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے اور بھارتی ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور سازشی تھیوری پر عمل کر کے خطے کا ’’بدمعاش‘‘ ملک بننا چاہتا ہے۔ پاکستان مذموم بھارتی عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت میدان جنگ میں ہمارا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوجاتاہے تو وہ سازش کے جال بچھانا شروع کردیتا ہے، بلوچستان کی صورتحال اس بات کی گواہ ہے۔ افغانستان جو پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے، وہاں بھی بھارت نے اربوں کی سرمایہ کاری کرکے سازش کا ایک جال بنا ہے، لیکن ہرسازش میں ناکامی بھارت کا مقدر بن چکی ہے۔

لائن آف کنٹرول پر بلاوجہ فائرنگ کرکے معصوم عوام کو نشانہ بنانا بھارت کی علت بن چکا ہے، فائرنگ کے نتیجے میں شہادتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستانی فوج بہت بہتر انداز میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دے رہی ہے، پاک فوج کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایل او سی پر شہری آبادی کو نقصان نہ پہنچے، عالمی مبصرین کو بھی مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ ’’جائے وقوع‘‘ کا معائنہ کر سکیں۔

بھارت کے دماغ میں سپریم ہونے کا جو خناس سمایا ہوا ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ مہم جوئی  پر آمادہ نظر آتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک جانب کورونا وائرس سے بھارت میں اموات کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور دوسری جانب اس کی معیشت کو بھی وائرس نے تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیا  ہے۔ ایسے نازک وقت میں بھارتی قیادت کسی بھی طرح سفارتی آداب کی پاسداری نہیں کررہی ہے، چند روز پیشتر پاکستانی سفارتخانے کے دواہلکاروں کو ’’ناپسندیدہ‘‘ قرار دے کر ملک بدرکرچکا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں اگر خطے میں امن کی خواہاں ہیں تو انھیں بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔