ایک عاشق کی عجیب کہانی!

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  جمعـء 5 جون 2020

وہ مدینے میں داخل ہوا تو اْس کے چہرے پر ایک عجیب سی رمق تھی، اْسے کاتب تقدیر سے کوئی شکوہ نہیں تھا کیونکہ ’’جب ہر چیزنے مٹ جانا ہے تو پھر خواہش کیسی؟ اْس نے کسی عالم سے پوچھا تھا کہ جنت کے بارے میں کچھ ایسا بتائیے کہ شوق پیدا ہو تو اْسے جواب ملا تھا کہ ’’وہاں آخری نبی محمدﷺ ‘‘ ہوں گے۔

بس اْس کے لیے اتنا ہی کافی تھا،اْس کے دل میں نبی آخر الزماں کے دیدارکی خواہش تھی اور جس دل میں یہ خواہش جاگزیں ہو وہ دل کبھی مْردہ نہیں ہوتا، اْسے یہ بھی یقین تھا کہ پھل کبھی درخت کے اندر سے نہیں آتا،کاٹ کر دیکھ لیا جائے تو لکڑی کے سوا کچھ نہیں،اِسی طرح رزق بھی زمین کے اندر سے نہیں آتا اِس کے لیے بھی حد یقین ہی ہے کہ چاہے جتنی ہی گہری کھدائی کیوں نہ کرلو تمہیں مٹی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، یہ سب تو اللہ کے حکم سے آتا ہے چاہے زمین اْگلے یا آسمان اْتارے اور اِسی سبب اِسے اطمینان تھا کہ ’’ اگر اْس کا حکم نہیں تو زیارت ممکن نہیں اور اگر تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ زیارت اٹل ہے تو آنکھیں میری ہوں یا کسی اورکی، نظارہ بہرحال میں ہی دیکھوں گا‘‘کہ

مر کر بھی اْن کو دیکھتے رہنے کی چاہ میں

آنکھیں کسی کو دینے کی تاکید کر گئے

وہ تیقن کی ایسی منزل پر تھا جہاں صمیم قلب سے یہ صدا اْس کے لیے نور بن چکی تھی کہ ’’میں جانتا ہوں میںکچھ تو ہوں کیونکہ میرا رب کوئی بھی چیز بے کار نہیں بناتا ‘‘ چنانچہ اْس نے اپنے ساتھ ہم رکاب بارہ ہزار علما و حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سواروپیادوں کو مدینہ منورہ  سے کچھ مسافت دور ابواکے میدان میں جمع کیا تاکہ وہ بتاسکے کہ اْس نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیوں بدلا؟ اور یہاں تک کیوں آیا اور اب اْس کا کیا فیصلہ ہے؟ اِسی میدان میں جہاں وہ کھڑا تھا وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر آج خاتم النبین کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ بنت وہب رضی اللہ تعالی عنہا محو استراحت ہیں ، اْسے تو خبر بھی نہ تھی کہ وہ جو کچھ کہنے جارہا ہے۔

اْس کا گواہ وہ مقام بھی بنے گا جس نے وہب بن عبدمناف کی صاحبزادی کے جسد پاک کو محفوظ رکھنے کے حکم ربی  کی تعمیل کا ارادہ کررکھا ہے اِس لیے بادشاہ کے قدم کئی گزکی دوری پر تھے۔ مدینہ منورہ ہجرت سیدیﷺ سے قبل یثرب کے نام سے مشہور تھا ، اب اِسے یثرب کہنا حرام ہے کیونکہ نبی مکرم ﷺ کی آمد گلفشاں کے بعد یہ مدینۃ النبیﷺ قرار پایا (یثرب ، ثرب سے مشتق ہے بمعنی سرزنش،سزا مصیبت وبلا) اب یہاں بلائیں ٹلتی ہیں، سزائیں معاف ہوتی ہیں  اور مصائب کا خاتمہ ہوتا ہے مگر وہ جو چن لیے جائیں اور اللہ کے محبوب بن جائیں اْن کے لیے مصائب و آلام اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعْونَ کی تفسیر بن جاتے ہیں۔

اْس کے علما و حکیم جاننا چاہتے تھے کہ اْس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف کیوںچڑھایا اورشہرکے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے کیوں نذرکیے اور اب ہم سے کیا کہنا چاہتا ہے؟ وہ اِس اضطراب میں بھی مبتلا تھے کہ کتب سماویہ کے علما نے یہاں کی مٹی کوکیوں سونگھا تھا اور ابوا کی کنکریوں کو دیکھ کرکیوں ششدر رہ گئے تھے؟آخر وہ گویا ہوا ’’اے معشرخمیری!مجھے علمائے یمن نے بتایاہے کہ ہم نے جتنی علامتیں پچھلی کتب میں پڑھیں اْن کے مطابق یہ نبی آخر الزماں کی ہجرت گاہ ہے۔

انھوں نے عہد کرلیا ہے کہ ہم یہیں مرجائیں گے لیکن اِس سر زمین کو نہیں چھوڑیں گے‘‘ یہاں تک کہہ کر وہ رکا تو لاکھوں کے مجمع پر سکوت طاری تھا اْس کی آواز کئی خلعت پوش اگلی سے پچھلی صفوں میں پہنچا رہے تھے اِس لیے وہ  رْک رْک کر خطاب کررہا تھا، اْس نے کہا ’’اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں ﷺ تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرورکبھی نہ کبھی ان کے نعلین کی مقدس خاک اڑ کر پڑجائے گی جو ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔

بس مجھے اتنا ہی کہنا تھا اور اب میںعلما کے لیے چار سو مکان یہاں سے آگے جہاں سے کھجوروں کے درخت شرو ع ہوتے ہیں بنوانے کا حکم دیتا ہوں اور اپنی قوم کے بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضورﷺ کے قیام کے لیے ایک دو منزلہ بہترین گھر اپنی نگرانی میں تعمیر کرواؤں گا جس کے ساتھ میری ایک وصیت ہوگی کہ جب آپﷺ تشریف لائیں تو یہ گھر آپﷺ کی آرام گاہ ہو۔‘‘ پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھا اور حکم دیا کہ میرا یہ خط  نبی آخر الزماںﷺ  کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمہیں  حضورﷺ کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ خاتم المرسلینﷺ کی خدمت میں پیش کیا جائے ‘‘ یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔

ایک ہزار سال بعد … نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے اِسے یوں پڑھ کر سنایا ’’ شفیع المذنبین ، سید المرسلین محمد رسول اللہﷺ کے حضور،کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جوکتاب آپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا وغنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کرسکا تو میری شفاعت فرمادیجیے گا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کیجیے گا ، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ پرآپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اورآپ اس کے سچے رسول اور بندے ہیں۔‘‘

شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِجان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزارسال کا عرصہ گزرگیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضورﷺ  نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی تو حضور ﷺ  نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضور ﷺ کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔

لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضورکو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آؤ، جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تْبّع کو آفرین و شاباش ہے! بس یہیں تک! آگے کا معاملہ اللہ جانے یا اللہ کا محبوب جانے۔ اتنا یاد رکھنا میرے نبی نے کسی کے گھر میں قیام نہیں کیا سیدنا ابوایوب انصاری  رضی اللہ تعالی عنہ کا گھر رسول اللہ کا گھر تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔