کیا ڈرامے خودکشی کی ترغیب دے رہے ہیں؟

عبدالباسط ذوالفقار  ہفتہ 6 جون 2020
اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں دردناک طریقے سے ختم کر دینا کس قدر بھیانک احساس ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں دردناک طریقے سے ختم کر دینا کس قدر بھیانک احساس ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزشتہ دنوں ایک جاں گسل خبر سماعتوں سے ٹکرائی۔’’تیرہ سالہ بچے نے پنکھے سے جھول کر خودکشی کرلی‘‘۔ یقین کرنا مشکل تھا کہ ایک تیرہ سالہ لڑکا، اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا ہے۔

پھر پتا چلا کہ اس کی لاش پوسٹمارٹم کےلیے قریب کے اسپتال لائی گئی ہے۔ میں گیا تو وہاں لوگ جمع تھے، سب کے چہروں پر خوف کی لکیریں تھیں۔ بے یقینی کی سطریں، آسیب چھایا ہوا تھا اور مردنی کی کیفیت میں سر جھکے ہوئے تھے۔ وہیں ایک خاتون سفید چادر میں لپٹی کھڑی تھیں۔ جن کا بوجھ گھٹنے نہیں سہہ سکتے، دہرے ہوجاتے تھے۔ تنہا، غم سے نڈھال پتھر کی دیوار کا سہارا لیے، خالی نظریں سامنے اسٹریچر پر ٹکی تھیں کہ شاید لاشہ حرکت کرے اور ڈاکٹروں کا کہنا ’’بچہ ختم ہوگیا‘‘جھوٹ ثابت ہو۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ اس نے تو اٹل حقیقت کو پا لیا۔

اسٹریچر پر پڑے اس تیرہ چودہ سالہ لڑکے کا لاشہ سوالیہ نشان تھا۔ کیوں اس نے جان دے دی؟ ایسی کیا آفت ٹوٹ پڑی تھی کہ اس نے اپنی ہی جان سے خلاصی چاہی اور اداسی کی محنت ٹھکانے لگ گئی۔ بالفرض کوئی مشکل تھی بھی تو اس نے نجات کا راستہ موت کو ہی کیوں چنا؟ اس نے پھندے سے لٹکتی لاشیں کہاں دیکھی تھیں جو حقیقی زندگی میں ایسا کرگیا؟ اس کی ماں وقفے وقفے سے رو کر فقط یہی بین کر رہی تھی کہ میرا تو انتظار کیا ہوتا۔ میں نے تو تمہیں صرف روکا تھا کہ پتر! باہر مت جاؤ، باہر وائرس ہے۔ مر جاؤ گے۔ اور تم بضد تھے کہ مجھے بہن کے گھر جانا ہے۔ ہائے میں مرگئی۔ تفصیل معلوم کرنے پر خبر ہوئی کہ بچہ جو خاصے دنوں سے گھر میں مقید تھا۔ والدہ سے بہن کے گھر جانے کی اجازت چاہتا تھا۔ ماں نے منع کیا۔ پھر اس کے اصرار پر کہا میں پڑوس سے ہو کر آتی ہوں پھر تم جاؤ۔ بس یہی بات اس کی موت کا باعث بنی اور اس نے ماں کے جاتے ہی پنکھے کے ساتھ پھندا لگایا اور جھول گیا۔

کیا اتنی سی بات پر برداشت کا مادہ ختم اور موت کی طرف دوڑ لگا دی؟ ایسا کیسے ممکن ہے کہ معمولی سی بات بھی انسان برداشت نہ کر پائے اور گلے میں پھندا لٹکادے؟ چلیں ٹھیک ہے اداسی کی محنت ٹھکانے لگ گئی لیکن کیا گھر والے اتنے بے خبرتھے کہ اس کی اداسی کی وجہ نہ تلاش سکے۔ وہ گھر سے اتنا تنگ تھا کہ اس نے موت کو گلے لگا کر سب سے جان چھڑا لی؟ راہداری میں آتے جاتے قدموں کی چاپ سنائی دیتی تھی یا پھر وہ ماں نوحہ کناں تھی۔ قدرے پرے کالے کپڑوں میں ملبوس اہلکار ہاتھوں میں دفتر تھامے لکیریں کھینچ رہا تھا۔ وہیں ماسک چڑھے کچھ چہرے آپسی باتوں میں مگن تھے۔ وقفے وقفے سے کھسر پھسر کی آواز کانوں سے ٹکراتی تھی۔ طبی عملہ بھی آپسی باتوں میں مگن تھا۔ کچھ آنکھیں روشن اسکرین پر ہیں۔ کچھ لوگ قبائے احتیاط لیے اس بچے کی موت پر تبصرہ کر رہے تھے۔ آہستہ، جیسے چاہتے ہوں کوئی دوسرا نہ سن لے۔ یہ سب آج کل کے ڈراموں کا کیا دھرا ہے۔ جو یہ بچہ دیکھتا رہا اور خود کا ہی گلا گھونٹ دیا۔ ایک شخص نے تبصرہ کیا۔

ہاں اس بچے کی طرح جس نے گن تھام کر چہرے پر کپڑا لپیٹا اور دیورا پھلانگ کر اپنے استاد پر فائر کھول دیا تھا۔ اجل کا وقت مقرر نہیں تھا کہ ماسٹر صاحب بچ گئے تھے۔ جب تفتیش ہوئی تو پتا چلا کہ بچے نے پیپرز میں نمبر کم دینے کی وجہ سے حملہ کیا اور یہ طریقہ کار اس نے کسی فلم، ڈرامے میں دیکھا اور حقیقی زندگی میں ہیرو گیری کی۔ ایسی ہیروگیری جو ایک جان لے سکتی تھی۔ یہاں تو اپنی ہی جان تھی۔ اپنے ہی ہاتھوں لٹا دی۔ دوسرے شخص نے کوئی قصہ سنا کر اس کی تائید کی۔

میرے ذہن میں سوال ابھر رہے تھے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ ڈرامے اثر انداز ہوتے ہیں؟ بچوں کےلیے پاکستان میں اب خاص ڈرامے، پروگرام کیوں نہیں بنائے جاتے۔ جن سے وہ زندگی کو باآسانی جینے، اداسیوں کا مقابلہ کرنے کے گر سیکھ سکیں۔ اپنی مشکلات کا حل تلاش سکیں۔ پہلے پہل انکل سرگم، ماسی مصیبتے جیسے خاکے ہلکے پھلکے انداز میں تعلیم و آگاہی سے روشناس کرانے کو کافی تھے۔ ڈرامہ بچوں کو تربیت فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اب شاید پاکستانی بچے وقت سے پہلے بڑے ہوگئے یا انہیں بڑا بنا دیا گیا۔ جو اب عینک والا جن جیسے ڈرامے نہیں دیکھتے۔ یا شاید ریٹنگ کی دوڑ میں ہم بچوں کےلیے ڈرامے تخلیق کرکے پیسا نہ کما سکیں کہ زندگی کا مقصد تو بہرحال پیسے کی دوڑ ہے۔ ورنہ زندگی جینے کے رموز سکھائے جاسکتے تھے۔

یہ خودکشی کیا ہمارے معاشرے کی کارستانی ہے جو ایک اداس بچے کو زندگی کی طرف نہ لاسکا؟ نہ جانے یہ بچہ کس قدر اداس تھا۔ کس بات سے پریشان تھا کہ ماں کی چھوٹی سی بات برداشت نہ کرسکا۔ اسے کوئی پریشانی لاحق تھی جس کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ ماں سمجھنے سے قاصر رہی۔ اندازہ لگائیے ایک ماں کا باشعور ہونا کس قدر ضروری ہے۔ اور اولاد کے قریب رہنا کس قدر اہم۔ کیا ذہنی دباؤ یا ڈپریشن نوجوانوں میں خودکشی کی سب سے بڑی وجہ نہیں؟ اور آج کل کے ڈرامے کیا خودکشی میں معاون نہیں؟ کسی حادثے، پے در پے پریشانی، مایوسی کی زندگی گزارنے کے بعد مسائل کا حل نہ نکلے تو زندگی بے رنگ دکھتی ہے تو انسان اپنی زندگی ختم کرکے اداسیوں سے نجات کا راستہ اپناتا ہے۔

نہ جانے اس بچے کو کس اداسی کے آسیب نے گھیر رکھا تھا۔ لازماً پہلے رویے میں بدلاؤ آیا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو اکیلا چھوڑ دینا تو بے وقوفی شمار ہوتی ہے۔ ذہنی علاج کی ضرورت کا اندازہ لگائیے۔ لیکن ماہر نفسیات تک پہنچ کر علاج کروانا کیا ایک عام آدمی کے بس کی بات ہے؟

کیا اس ماں کی غلطی ہے جو بچے کی صحیح سمت تربیت نہ کرسکی اور اس کا انکار اس بچے کو نہ بھایا یا اس باپ کو مورد الزام ٹھہرائیں جو دوسرے شہر انہی کےلیے دانہ پانی پیدا کرنے خوار ہورہا ہے۔ ان اساتذہ کو کوسا جائے جنہوں نے بچے کو پڑھایا مگر تربیت کا سامان فراہم کرسکے، نہ ہی بچے کو سمجھ کر اس کی پریشانی کا خاتمہ کرسکے۔ کس کو دوش دیا جائے؟ اخلاقی انحطاط ہے کہ ہم بچوں پر بے جا جبر کرتے ہیں۔ بار بار ٹوکتے ہیں۔ سمجھا نہیں پاتے، بچوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ والدین کے احساسِ فخر کو زندہ رکھنے کی چکی میں بالآخر وہ پس ہی جاتا ہے۔ ناامیدی، اداسی، پریشانی سے اس کی زندگی گوناگوں مسائل کا شکار رہی۔ کوئی مسیحا ثابت نہ ہوا۔ کیا ہمارا سماجی نظام کمزور پڑگیا، کوئی اس بچے کے مسائل نہ سمجھ سکا، نہ حل کرسکا۔ مسائل کے انبار بڑھتے چلے گئے اور عدم برداشت پھریرا اڑتا رہا اور اداسی کی محنت ٹھکانے لگ گئی۔

اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں اس دردناک طریقہ سے ختم کر دینا کس قدر بھیانک احساس ہے۔ انسان جینے سے تنگ بھی آسکتا ہے؟ ایسے کون سے محرکات ہیں جنہوں نے اسے اس حد تک پہنچایا۔ مصائب و آلام کے جبڑوں میں پس کر اپنی جان کا خاتمہ کس قدر اذیت ناک ہے۔ سوچیے اور اپنے رویوں پر نظر ثانی کیجیے۔ قبل اس کے کہ کل ان جبڑوں میں آپ ہوں اور وقت کی کدالیں ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔