- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
استاد! مگر کیا ہر چیز کا استاد؟
تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ دنیا میں ان ہی اقوام نے ترقی کی جنہوں نے اپنے اساتذہ کی عزت و تکریم کی اور بدلے میں اساتذہ نے انھیں ایسی اقوام بنادیا، جو تہذیب سے لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیا کے رہنما ٹھہرے۔
قدیم زمانے کے روم، یونان، بغداد، مسلم اسپین (ہسپانیہ) کو دیکھ لیجئے یا موجودہ زمانے میں امریکا، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا، الغرض جہاں تک ترقی یافتہ ممالک نظر آئیں، استاد کو انتہائی قابلِ احترام رکھا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ مزید خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ پہلے پہل تو معاشرے سے استاد کا احترام کم ہوتے ہوتے معدوم ہوگیا اور پھر محکمہ تعلیم نے خود ہی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو اتنے جھمیلوں میں الجھانا شروع کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ استاد، استاد نہ رہا بلکہ کوئی اور ہی چیز بن کر رہ گیا۔ درحقیقت استاد کو ہر چیز کا استاد سمجھ لیا گیا، اور اس طرح اساتذہ پر تدریس کے ساتھ اضافی کاموں کا بوجھ اس قدر ڈال دیا گیا کہ وہ اپنے اصل مقصد یعنی تدریس سے کوسوں دور چلے گئے۔
اب سرکاری اسکولوں میں جا کر حالات دیکھ لیجیے۔ زیادہ تر اسکولوں میں کلرکس اور درجہ چہارم ملازمین (چوکیدار، مالی، خاکروب، نائب قاصد وغیرہ) کی آسامیاں خالی پڑی ہیں، کیونکہ عرصہ دراز سے ہر حکومتِ وقت نے ان آسامیوں پر ملازمین بھرتی کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اساتذہ کو یہ سارے کام بھی خود سنبھالنے پڑگئے۔
ذرا شور مچا تو چند سال پہلے محکمہ تعلیم نے یہ اجازت دے دی کہ ہر اسکول اپنے نان سیلری بجٹ سے درجہ چہارم کا ملازم خود رکھ لے لیکن ایسا عملی طور پر ہر جگہ اس لیے نہ ہوسکا کیونکہ کچھ جگہوں پر تو نیک دل ہیڈ ماسٹر صاحبان نے کم از کم صفائی اور پودوں کی آبیاری کےلیے ایک ملازم رکھ لیا مگر محکمہ تعلیم میں چھپی کالی بھیڑوں نما ہیڈ ماسٹر صاحبان نے اپنے جیسے افسرانِ بالا کے ساتھ مل کر اساتذہ کو ہی صفائی، پودوں کی تراش خراش اور پودوں کو پانی دینے پر لگادیا۔
اس ساری صورتحال میں اساتذہ بے چارے خاموشی سے یہ کام کرتے رہتے ہیں، کیونکہ شکوہ کریں بھی تو کس سے کریں۔ کیونکہ ایسا برتاؤ رکھنے والے ہیڈ ماسٹر صاحبان نہ صرف سیاسی طور پر انتہائی مضبوط ہوتے ہیں بلکہ افسرانِ بالا سے ان کی ملی بھگت بھی انھیں بے لگام ہاتھی بنائے ہوتی ہے۔ اگر کوئی احتجاج کی گستاخی کر بیٹھے تو بس پھر کیا، اس کا تو جینا حرام کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔
چکوال کے ایک سرکاری ایلیمنٹری اسکول، گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول کی ہی مثال لے لیجیے جہاں ان دنوں کورونا کی وبا کی وجہ سے چھٹیوں کے دوران بھی ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسکول کے فنڈ میں سے کوئی خاکروب یا مالی رکھنے کے بجائے باقاعدہ آرڈر بک پر آرڈر کرکے اساتذہ کو مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ اسکول آ کر وسیع و عریض رقبے پر پھیلے پودوں کو پانی خود دیا کریں اور صفائی بھی کریں۔
ہمارے محکمہ تعلیم کو بے تحاشا امداد دینے والے مغربی ممالک امریکا، کینیڈا، برطانیہ بھی اس قسم کے واقعات سے لاعلم ہی ہیں، کیونکہ ایسی باتیں دبا دی جاتی ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ڈالروں کی آمد کے سلسلے میں کوئی خلل پڑجائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر محکمہ تعلیم کے ان ناسوروں کو کون پکڑے گا؟ کون ان بے لگام ہاتھیوں کو لگام ڈالے گا؟ باقی غیر تدریسی کاموں کی تو خیر، لیکن کون استاد کو کم از کم صفائی اور پودوں کی آبیاری وغیرہ سے بچائے گا؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔