استاد! مگر کیا ہر چیز کا استاد؟

جواد اکرم  ہفتہ 6 جون 2020
وقت کے ساتھ استاد، استاد نہ رہا بلکہ کوئی اور ہی چیز بن کر رہ گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وقت کے ساتھ استاد، استاد نہ رہا بلکہ کوئی اور ہی چیز بن کر رہ گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ دنیا میں ان ہی اقوام نے ترقی کی جنہوں نے اپنے اساتذہ کی عزت و تکریم کی اور بدلے میں اساتذہ نے انھیں ایسی اقوام بنادیا، جو تہذیب سے لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیا کے رہنما ٹھہرے۔

قدیم زمانے کے روم، یونان، بغداد، مسلم اسپین (ہسپانیہ) کو دیکھ لیجئے یا موجودہ زمانے میں امریکا، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا، الغرض جہاں تک ترقی یافتہ ممالک نظر آئیں، استاد کو انتہائی قابلِ احترام رکھا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ مزید خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ پہلے پہل تو معاشرے سے استاد کا احترام کم ہوتے ہوتے معدوم ہوگیا اور پھر محکمہ تعلیم نے خود ہی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو اتنے جھمیلوں میں الجھانا شروع کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ استاد، استاد نہ رہا بلکہ کوئی اور ہی چیز بن کر رہ گیا۔ درحقیقت استاد کو ہر چیز کا استاد سمجھ لیا گیا، اور اس طرح اساتذہ پر تدریس کے ساتھ اضافی کاموں کا بوجھ اس قدر ڈال دیا گیا کہ وہ اپنے اصل مقصد یعنی تدریس سے کوسوں دور چلے گئے۔

اب سرکاری اسکولوں میں جا کر حالات دیکھ لیجیے۔ زیادہ تر اسکولوں میں کلرکس اور درجہ چہارم ملازمین (چوکیدار، مالی، خاکروب، نائب قاصد وغیرہ) کی آسامیاں خالی پڑی ہیں، کیونکہ عرصہ دراز سے ہر حکومتِ وقت نے ان آسامیوں پر ملازمین بھرتی کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اساتذہ کو یہ سارے کام بھی خود سنبھالنے پڑگئے۔

ذرا شور مچا تو چند سال پہلے محکمہ تعلیم نے یہ اجازت دے دی کہ ہر اسکول اپنے نان سیلری بجٹ سے درجہ چہارم کا ملازم خود رکھ لے لیکن ایسا عملی طور پر ہر جگہ اس لیے نہ ہوسکا کیونکہ کچھ جگہوں پر تو نیک دل ہیڈ ماسٹر صاحبان نے کم از کم صفائی اور پودوں کی آبیاری کےلیے ایک ملازم رکھ لیا مگر محکمہ تعلیم میں چھپی کالی بھیڑوں نما ہیڈ ماسٹر صاحبان نے اپنے جیسے افسرانِ بالا کے ساتھ مل کر اساتذہ کو ہی صفائی، پودوں کی تراش خراش اور پودوں کو پانی دینے پر لگادیا۔

اس ساری صورتحال میں اساتذہ بے چارے خاموشی سے یہ کام کرتے رہتے ہیں، کیونکہ شکوہ کریں بھی تو کس سے کریں۔ کیونکہ ایسا برتاؤ رکھنے والے ہیڈ ماسٹر صاحبان نہ صرف سیاسی طور پر انتہائی مضبوط ہوتے ہیں بلکہ افسرانِ بالا سے ان کی ملی بھگت بھی انھیں بے لگام ہاتھی بنائے ہوتی ہے۔ اگر کوئی احتجاج کی گستاخی کر بیٹھے تو بس پھر کیا، اس کا تو جینا حرام کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔

چکوال کے ایک سرکاری ایلیمنٹری اسکول، گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول کی ہی مثال لے لیجیے جہاں ان دنوں کورونا کی وبا کی وجہ سے چھٹیوں کے دوران بھی ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسکول کے فنڈ میں سے کوئی خاکروب یا مالی رکھنے کے بجائے باقاعدہ آرڈر بک پر آرڈر کرکے اساتذہ کو مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ اسکول آ کر وسیع و عریض رقبے پر پھیلے پودوں کو پانی خود دیا کریں اور صفائی بھی کریں۔

ہمارے محکمہ تعلیم کو بے تحاشا امداد دینے والے مغربی ممالک امریکا، کینیڈا، برطانیہ بھی اس قسم کے واقعات سے لاعلم ہی ہیں، کیونکہ ایسی باتیں دبا دی جاتی ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ڈالروں کی آمد کے سلسلے میں کوئی خلل پڑجائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر محکمہ تعلیم کے ان ناسوروں کو کون پکڑے گا؟ کون ان بے لگام ہاتھیوں کو لگام ڈالے گا؟ باقی غیر تدریسی کاموں کی تو خیر، لیکن کون استاد کو کم از کم صفائی اور پودوں کی آبیاری وغیرہ سے بچائے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

جواد اکرم

جواد اکرم

مصنف سیاسی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار ہیں جبکہ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] اور ٹوئٹر ہینڈل @jawad5677 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔