راشن کے ساتھ کورونا وائرس بالکل مفت!

 ہفتہ 6 جون 2020
کورونا وائرس کے سامنے ہم نے خود ہی دسترخوان لگایا ہے، اسے گھر گھر آنے کی دعوت خود ہی دی ہے تو کیسے روک سکتے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

کورونا وائرس کے سامنے ہم نے خود ہی دسترخوان لگایا ہے، اسے گھر گھر آنے کی دعوت خود ہی دی ہے تو کیسے روک سکتے ہیں؟ (فوٹو: فائل)

’’کورونا ورونا کچھ نہیں، یہ ایک سازش ہے!‘‘ ایک ایسی سازش جو امریکا اور اسرائیل نے مسلمانوں کے خلاف مل کر تیار کی ہے۔ امریکا اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ مسلمان ایک دوسرے سے دور ہوجائیں، اپنی مساجد میں نماز ادا نہ کرسکیں، اپنے بزرگوں کے مزاروں پر دھمال نہ ڈال سکیں، یہ دہی بھلے بنانے والوں، سموسے بیچنے والوں، بریانی کھلانے والوں، جاب کرنے والوں، سبھی کے خلاف سازش ہے۔ یہ ہر تیسرے پاکستانی کے خیالات ہیں جن کے آگے سب دلیلیں، سب لاک ڈاؤن بے سود ہیں۔

ملک بھر کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن مزید سخت کیا جائے، دنیا بھر کے ڈاکٹرز بھی یہی تجویز کرتے ہیں کہ کورونا سے نمٹنے کا واحد ہتھیار لاک ڈاؤن، احتیاطی تدابیر ہیں۔ سعودی عرب، ترکی، ایران سمیت تقریباً تمام مسلم ممالک میں اس بات پر اتفاق ہے کہ نمازیں گھر پر ادا کی جائیں، چھوٹی، بڑی مساجد، مزارات بند رہیں لیکن پاکستان میں سربراہ مملکت نے 20 نکاتی معاہدے کے تحت علمائے کرام کو مسجدوں میں نماز یں ادا کرنے کی اجازت دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنہوں نے یہ معاہدہ کیا، ان میں سے کوئی بھی مسجد میں جانے کے قابل نہیں۔ سب کی عمریں پچاس سال سے زیادہ تھیں۔ پنجاب حکومت نے تو سموسوں، پکوڑوں اور دہی بھلے والوں تک کو اپنے کاروبار کی اجازت دی، جہاں نہ ماسک تھا نہ کوئی ایس او پی پر عمل۔ بازاروں میں کاروبار کی اجازت ملی تو لوگ ایسے ٹوٹ پڑے جیسے ان کی زندگی کی آخری شاپنگ ہو۔

اب ان تمام اقدامات کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک سمری بھیجی گئی ہے کہ صرف لاہور میں کورونا وائرس کے چھ لاکھ سے زائد مریض ہوسکتے ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی نے تو اس تعداد کو دوگنا کردیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق 15 سے 20 لاکھ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

دنیا چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ کورونا سے محفوظ رہنا ہے تو سماجی فاصلہ رکھیے، ماسک پہنیے، ہاتھوں کو بار بار دھوئیے لیکن یہاں تو مصافحے ہورہے ہیں، جپھیاں ڈالی جارہی ہیں… ایسی جپھیاں کہ جیسے برسوں کے بچھڑے ملے ہوں۔ چاٹ، سموسوں کی دکانوں پر ایسا ہجوم کہ جیسے ان کا کھانا جزوِ ایمان ہوا۔

ویسے تو ہم ہر معاملے میں بے حس ہیں لیکن کورونا کے معاملے میں ہماری بے حسی کی کچھ وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بطورِ مجموعی ہمارے معاشرے کے ہر معاملے میں ایکسپرٹ ہونے کا گمان ہے۔ ہر بندے کا خود کو ٹھیک اور دوسرے کو غلط سمجھنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مولوی، مفتی، حکیم اور دانشور کثرت سے پائے جاتے ہیں، ایسے ایسے مفتی کہ شاید کلمہ بھی ڈھنگ سے نہ آتا ہو اور مذہبی معاملے میں جھٹ سے فتویٰ صادر فرما دیتے ہیں۔ حکیم اور ماہر طب ایسے کہ آپ میں کوئی نہ کوئی مرض ضرور نکال کر مفت میں نسخہ عنایت کردیں گے۔ دانشوری اور تجزیہ نگاری کے آگے تو سب کی بس ہے! بڑے بڑے صحافی بھی ان کے آگے ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں۔ چائے کے ڈھابے، شیدے کے حمام، مودے کے ڈیرے پر ٹی وی اسٹوڈیو بنے ہوتے ہیں، چائے کی پیالی میں طوفان برپا ہوتا ہے۔ رہی سہی کسر فیس بکی او ’’ریٹویٹری نقادوں‘‘ نے پوری کردی ہے۔ یہ سب کورونا وائرس کو ٹوپی ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔

دوسری وجہ سرمایہ داروں کے پھیلائے گئے غلط نظریات ہیں۔ ان لوگوں نے صارفین کے ذہنوں میں ایسے ایسے خیالات ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سیریئس لینے کو تیار نہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ شروع شروع میں کورونا کے مریض کم تھے، میڈیا پر خبر چلتی تو لوگ اسے سنجیدہ نہیں لیتے تھے۔ کئی لوگ کہتے فرمائے گئے کہ کورونا ’’ہمارے علاقے یا محلے میں تو نہیں۔ یہ سب جھوٹ ہے!‘‘ اس ’’سب جھوٹ‘‘ کی منطق نے کورونا کو ان کے گلی محلوں تک پہنچا دیا۔

چوتھی وجہ ہماری حکومت کی کنفیوژن ہے۔ اس حکومت نے پہلے کورونا کو باہر سے درآمد کیا، پھر روز طرح طرح کے بیانات دے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں کورونا وائرس سے زیادہ سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن جیسے نظریوں پر سیاست کو اہمیت دی گئی۔ وزیراعظم نے کئی بار خطاب اور سیکڑوں ٹویٹس کیے۔ وزیراعظم اب تک اپنی ضد پر قائم ہیں۔ وہ اجلاسوں اور پبلک مقامات پر خود تو ماسک نہیں پہنتے لیکن عوام سے احتیاطی تدابیر کی توقع کرتے ہیں، ایسا تو نہیں ہوتا ناں! وزیراعظم صاحب نے اپنے تیسرے خطاب میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے دو گُر بتائے تھے: ایک ایمان اور دوسرا ٹائیگر فورس۔ یہ دونوں گُر کام نہیں آسکے اور کورونا گھر گھر پہنچ گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ گھر گھر سے کورونا نکلے گا، تم کتنے کورونا مارو گے۔

بھوکے کے سامنے دسترخوان سجا دیا جائے تو اسے کھانے سے نہیں روکا جاسکتا۔ کورونا وائرس کے سامنے ہم نے بھی خود دسترخوان لگایا ہے، اسے خود گھر گھر آنے کی دعوت دی ہے تو کیسے روک سکتے ہیں؟ بڑے خوش تھے کہ چین جیسی صورتحال نہیں۔ اب تو ہم چین کو بھی شکست دے چکے، ہمارے نمبر تو اس سے بھی بڑھ چکے۔ اٹلی، اسپین اور امریکا ہم سے دور نہیں کیونکہ ہر بازار، ہرگاڑی، ہر پارک، ہر مقام پر کورونا ہمارا انتظار کررہا ہے۔ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ شاپنگ کے دوران گھروں میں کورونا لارہی ہیں۔

ہمارے معاون صحت کہتے ہیں کہ چھیانوے فیصد سے زیادہ کورونا مقامی طور پر پھیلا ہے۔ اس کی بڑی وجہ گھر گھر میں آنے والا شاپنگ کا تھیلا ہے۔ گلی محلوں میں لگا میلہ ہے۔ چینی، پتی کے ساتھ ہم کورونا بھی لارہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔