کورونا کیسز میں تشویشناک اضافہ

ایڈیٹوریل  ہفتہ 6 جون 2020
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حکومت ہرگلی،کوچے میں سرکاری اہلکار تعینات نہیں کرسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حکومت ہرگلی،کوچے میں سرکاری اہلکار تعینات نہیں کرسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں کورونا کیسز چین سے بڑھ گئے ہیں ، مزید انسانی جانوں کے زیاں کا سلسلہ بھی نہیں رک سکا ہے۔ وفاقی حکومت نے عام آدمی کی مشکلات کومدنظر رکھتے ہوئے اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا تو بازار کھل گئے اور وبا تیزی سے پھیلنا شروع ہوگئی۔

اسے ہماری قومی بدقسمتی کہیں کہ عوام نے خودساختہ  طور پر سمجھ لیا کہ نرمی کا مطلب ہے کہ ’’کورونا وائرس‘‘ ختم ہوگیا ہے اور ہمیں گھومنے پھرنے اورہر طرح کے کام کرنے کی آزادی حاصل ہوگئی ہے، صرف دس بارہ دنوں میں صورتحال اتنی پریشان کن ہوگئی ہے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں نے دوبارہ سخت اقدامات کرنے پر سنجیدگی سے غورشروع کردیا ہے۔

عالمی سطح پر دیکھا جائے تو بہت سے ممالک نے سخت لاک ڈاؤن کرکے اس وبا پر قابو پایا ہے چونکہ یہی ایک واحد راستہ ہے جو ابتک فائدہ مند ثابت ہوا ہے،کیونکہ ویکسین بننے میں تو ابھی ناجانے کتنا عرصہ لگے۔ دوسری جانب حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے دوران ایس او پیزکی خلاف ورزی پر سخت کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا کی بڑی مارکیٹیں بندکرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے چیف سیکریٹریزکو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کورونا پر قابو پانے کی حکمت عملی کا مرکزی نقطہ ایس او پیز پر عملدرآمد اور قرنطینہ اقدامات کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے۔

ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ لاپروائی کا رویہ اپناتے ہوئے ’’کورونا وائرس‘‘ کے وجود ہی سے انکاری ہے، دنیا بھر میں تقریباً چار لاکھ افراد کورونا کی وجہ سے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں صورتحال روز بروز بگڑتی جارہی ہے، اموات میں خطرناک حد تک اضافے کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کئی ہزار متاثرہ مریض سامنے آرہے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ  عوام نے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ترک کردیا ، پبلک مقامات، بازاروں میں نہ صرف بہت زیادہ رش ہے بلکہ عوام نے ایس او پیزکو بری طرح نظر اندازکر دیا ہے۔ یہ لاپروائی کا چلن ہمیں لے ڈوبے گا، پہلے حکومت پر دباؤ تھا کہ وہ لاک ڈاؤن میں نرمی کرے جب نرمی کی گئی تو معاملہ ہی الٹ ہوگیا ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حکومت ہرگلی،کوچے میں سرکاری اہلکار تعینات نہیں کرسکتی ہے۔ عوام کو خود احتیاطی تدابیر اختیارکرنی ہیں، عوام نے بے احتیاطی کا چلن عام رکھا تو پھر خدانخواستہ قابو سے باہر خوفناک صورتحال سامنے آ سکتی ہے۔

عوام کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، زندگی ایک نعمت ہے اس کی قدر اور وقعت کیجیے، اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی داؤ پر نہ لگائیں، کورونا ایک وبائی مرض ہے،اس کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے بروقت سبیل کریں۔ ایک ہفتے میں پارلیمنٹ کے پانچ ممبرکورونا وائرس سے انتقال کرچکے ہیں۔ موت ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور ہم ہیں کہ اٹکھیلیاں کر رہے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا اجلاس گزشتہ روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری پنجاب نے بتایا کہ ذمے داری کا مظاہرہ نہ کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور پنجاب کی بڑی مارکیٹس بند کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت نے بھی پنجاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بڑی مارکیٹس بند کرنے کا فیصلہ کیا اور پشاور سمیت صوبے کے بڑے شہروں کی بڑی مارکیٹیں بند کرانے کے احکامات جاری کردیے۔

اجلاس میں ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والی ٹرانسپورٹ بھی بندکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں کراچی میں ترجمان ٹریفک پولیس کے مطابق گزشتہ روز ٹریفک پولیس نے شہر کے مختلف تھانوں کی حدود سے 68 بس ڈرائیوروں کو گرفتارکرکے67 مقدمات درج کیے اور 229 چالان کیے۔ دراصل ایس او پیز پر عمل درآمد سے ہی کوروناکے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ عمل خوش آیند ہے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے تمام صوبوں میں خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، ٹیموں کو پولیس کی مدد بھی حاصل ہوگی۔

خیبرپختونخوا کابینہ نے صوبہ کے سیاحتی مقامات کو بھی مرحلہ وارکھولنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے پہلے مرحلے میں یہ مقامات صرف خاندانوں جب کہ بعد ازاں عام افراد کے لیے کھولے جائیں گے، صوبائی کابینہ نے سیاحتی مقامات کے لیے ایس او پیزکی منظوری دے دی ہے، یہ بات درست ہے کہ مختلف شعبوں کو بتدریج کھولنے اور لاک ڈاؤن میں نرمی سے عوام کو معیشت کا پہیہ چلانے میں آسانی ہوگی اور یہ عمل ہماری معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہمیں ہر صورت میں اپنا طرزحیات تبدیل کرنا ہے، کورونا کے ساتھ زندگی بسرکرنی ہے، ذرا سی غفلت سے سب کچھ ختم ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔