نہ چھپا چھپا کے رکھا اسے

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 6 جون 2020
barq@email.com

[email protected]

اپنے پڑھنے والوں سے ہمارا اتنا لمبے عرصے کا ساتھ ہے چنانچہ ہم ان کے بارے اور وہ ہمارے بارے میں اچھی خاصی جانکاری رکھتے ہیں ہمیں تو اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں اتنا معلوم ہے کہ جتنا خود ان کو بھی اپنے بارے میں معلوم نہیں ہوگا لیکن ہم وہ بتا نہیں سکتے کیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ شریف آدمی کسی کو گالی اور پھر خاص طور پر ماں بہن کی گالی نہیں دیتے اور ایک دنیا جانتی ہے کہ گالی کا تخلص’’سچ‘‘بھی ہے۔

پڑھنے والے بھی ہمارے بارے میں اچھی طرح جان چکے ہیں اور ہمیں پہچان بھی چکے ہیں کہ ہم کوئی دانا دانشور نہیں تجزیہ کار و تجزیہ نگارنہیں یہاں تک کہ بھوت دانشور بھی نہیں۔البتہ محقق ہیں اور بڑے پائے کے محقق ہیں  کیونکہ ہم نے بڑی بڑی ٹاپ کلاس اکیڈمیوں سے ڈگریاں حاصل کی ہیں اور اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے عملی تربیت بھی حاصل کی ہے جو تھانوں کے ایک کمرہ خاص میں دی جاتی ہے۔چنانچہ تحقیق کے اسرار ورموز اور ویراباؤٹ کے بارے میں اس وقت ہر قسم کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔

اگرچہ دعویٰ ہمیشہ جھوٹا اور قبضہ سچا ہوتاہے اور وہ اکیڈمیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہے لیکن ہمارا دعویٰ بھی اتنا بودا اور کمزور نہیں کہ ہمارے پاس تحقیق کا گھوڑا نہ سہی ایک ٹٹو تو ہے جو بیک وقت گھوڑے اور گدھے دونوں کے خاندان سے بیلیو کرتاہے،گویا بقول خوشحال خان خٹک کہ…اگرچہ اورنگ کے پاس بہت ڈنگ ڈنگ ہے۔لیکن میں بھی اچھا ہوں میرے سنگ بھی ’’برغو‘‘  یعنی قرنا ہے یا ایک مشہور فلم کے مطابق۔ہمارے پاس ٹٹوہے۔ویسے تحقیق کو ہم نے اپنے ٹٹو کی مدد سے بہت ہی آسان بھی بنایا ہے۔

اور قاعدہ کلیہ ہے معلوم سے نامعلوم کا، معلوم مثلاً ہمارے سامنے یہ کاغذ ہے تو سفید ہے اگر ہم نے ’’کالے‘‘کا پتہ لگانا ہے تو اسی سے لگائیں گے۔یعنی کالا وہ ہوگا جو سفید نہیں ہوگا یعنی جو ’’یہ‘‘ہے ’’وہ‘‘نہیں ہوگا،کڑوے سے میٹھے اچھے سے برے، چھوٹے سے موٹے کا پتہ لگانا۔

یہی تحقیق کا بنیادی اصول ہے ’’شر‘‘وہ ہے جو خیر نہیں۔یالیڈر وہ ہے جو انسان نہیں اور انسان وہ ہے جو لیڈر نہیں سیدھی سی بات ہے۔مثال کے طور پر آپ نے آج تک جتنے والدین دیکھے ہیں حقیقت میں یا کسی افسانے ناول ڈرامے یا فلم میں۔وہ سب کے سب اپنی بیٹیوں کو بیٹا بیٹا کہہ کر بلاتے ہیں۔بیٹا بشریٰ میری بات۔بیٹا نیلوفر ذرا پانی تو لانا۔تم جانتے ہو نا بیٹا پروین۔دیکھو بیٹا ایسا کرو۔سنو بیٹا یوں کرو۔ہم ایک مرتبہ کراچی سینٹر سے ایک اردو ڈرامہ سن رہے تھے باپ اپنی بیٹی سے مکالمہ کررہاتھا اور ایک ہی نشست یا مکالمے میں اس نے اپنی بیٹی نازنین کو انیس مرتبہ بیٹا ہی کہہ کر پکارا۔

ہم سوچنے لگے کہ آخر کبھی تو یہ بھولے سے بیٹی کو بیٹی بھی کہہ دے گا لیکن مجال ہے جو اس بندہ خدا نے ایک بار بھی غلطی کی ہو۔بیٹا مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے بیٹا میں جانتا ہوں کہ تم ذہین ہو پڑھی لکھی ہو مگر بیٹا یہ جو فلاں لڑکا ہے بیٹا اس کے بارے میں مجھے اطمینان نہیں ہے، بیٹا تم سمجھ رہی ہو نا، بیٹا میں کیا کہنا چاہتا ہوں، ہاں بیٹا تم تو بڑی سمجھ دار ہو بیٹا،سب کچھ جانتی ہو بیٹا اور یہ بھی جانتی ہو بیٹا کہ میں تمہیں کتنا  چاہتا ہوں بیٹا، اب اسی بات کو ہم جب تحقیق کی سان پر رکھیں گے تو ہمیں پتہ لگ جائے گا کہ ’’بیٹی‘‘کیا ہوتی ہے یعنی جو بیٹا نہیں ہوگی وہی بیٹی ہوگی یا ہوگا۔

اب یہ تو تحقیق کا ایک اصول ہوگیا کہ ماں باپ’’بیٹی‘‘سے پیار کرتے ہیں لیکن بیٹا بناکر ہی، بیچاری بیٹی؟ تو تحقیق کا یہی کلیہ اُلٹ کردیکھاجائے یعنی ’’نامعلوم‘‘سے معلوم کا نامعلوم ہونا، اچھی طرح جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ یہ ’’بیٹی‘‘ہے لیکن قبول کرنے کے لیے نامعلوم بیٹے کا ٹائٹل ضروری ہے ورنہ ’’معلوم بیٹی‘‘بھی نامعلوم ہے۔

اپنے اساتذہ نے ہمیں ایک اور گرُ کی بات یہ سکھائی ہے کہ جب ’’کنوئیں‘‘میں ڈول نکالنے کے لیے اتر جاؤ تو صرف ڈول ہی مت نکالو بلکہ کنوئیں کی تہہ میں غوطے لگاؤ اور بھی بہت کچھ مل جائے گا جو کبھی نہ کبھی کنوئیں میں گری ہوں گی کٹورے،چمچمے،بچوں کے کھلونے معمولی قسم کے گھریلو برتن وغیرہ، سوہم نے جب تحقیق کے اس کنوئیں میں ’’بیٹے اور بیٹٰی‘‘کے لیے غوطہ لگایا تو بیٹا تو ہمیں مل گیا لیکن وہ بیچاری بیٹی کو کہیں کیچڑ میں دفن کرچکا تھا۔

اگر بیٹی نکلی بھی تو اس نے بیٹی ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔میں تو بیٹا ہوں بیٹی کہیں نیچے پڑی ہوگی اور ہاں اسے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں میں ہوں نا بیٹا جمع بیٹا۔مزید غوطے لگانے پر معلوم ہوا کہ بیٹی کو بیٹا بیٹا بلکہ مائی سن مائی سن صرف وہ لوگ کہتے ہیں جو اونچے کٹیگری کے ہیں اور یہ بھونکتے رہتے ہیں کہ بیٹی اور بیٹے میں فرق نہیں اگر فرق نہیں تو پھر ذرا اس اپنے ٹیڑھے منہ کو مزید ٹیڑھا کرکے ’’بیٹی‘‘کہنے کی جرات بھی کرو۔کیا بیٹی کا لفظ اتنا گندہ اور بدبودار کہ تم اسے زبان پر لا بھی نہیں سکتے اور اسے ’’بیٹا‘‘کہنے سے شوگر کوٹیڈ کیے بغیر نہ اگل سکتے ہو نہ نگل سکتے ہو۔

دیہاتی جاہل غریب اور بظاہر انسانیت سے نکالے ہوئے لوگ کبھی بیٹی کو بیٹا نہیں کہتے وہ بیٹی کو بیٹی اور بیٹے کو بیٹا ہی کہتے ہیں، منافقت اور دوغلے پن کا یہ مظاہرہ صرف ایجو کیٹیڈ اور پڑھے لکھے بلکہ آزادی نسواں کے بھونپو کرتے ہیں۔عورت کسی سے کم نہیں صنف نازک نہیں صنف کرخت ہے وہ مرد کے کاندھے سے اپنا کاندھا آگے کرکے چل سکتی ہے وہ یہ کرسکتی وہ یہ کرسکتی ہے بلکہ ’’وہ وہ‘‘اور’’یہ یہ‘‘بھی کرسکتی ہے ’’وہ وہ‘‘اور’’یہ یہ‘‘کو مارو گولی پہلے اپنے ماں باپ کی زبان پر اپنا نام’’بیٹی‘‘تو لاکر دکھادے۔

وہ ڈرائیور مکینک پائیلٹ لڑاکو سائنسدان ڈاکٹر انجینئر اور نہ جانے کیاکیا بن جائے گی لیکن اپنا اصلی نام اپنے ہی ماں باپ کی زبان پر رجسٹرڈ نہیں کرسکتی،’’بیٹے‘‘کا لبادہ پہنائے بغیر۔بعد میں کہتے ہیں جہیز لعنت ہے کیا بیٹی گندگی کی ٹوکری ہے جسے ڈھونے اور ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی ’’بیٹا‘‘ معاوضہ مانگتاہے۔اور کیوں نہ مانگے؟کہ تم نے کبھی خود بھی اسے بیٹی نہیں سمجھاہے بلکہ بیٹے کا خول چڑھا کر ’’بیٹا‘‘سمجھا ہے اب جب کہ بیٹا کا لبادہ کھل گیاہے اور اندر تو وہی غلاظت کی پوٹلی ہے جس کانام تک تم کبھی زبان پر نہیں لاتے تھے یا لاتے ہوئے شرماتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔