درد کی انجمن

جاوید قاضی  اتوار 7 جون 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کچھ دنوں سے میں اپنے فیس بک وال پر روزانہ ایک کتبہ سا لکھتا ہوں، کسی دوست، رشتے دار یا جانی پہچانی و معروف شخصیت کے انتقال کا۔ پھر سب یادیں امڈ آتی ہیں۔ وہ تمام اموات جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں وہ سب میری تنہائیوں کی مہمان بن بیٹھی ہیں۔ میری زندگی کی سب سے پہلی موت کی بڑی خبر میری دادی کا انتقال تھا، میری عمر اس وقت بہ مشکل پانچ سال ہوگی مگر مجھے پوری طرح یاد ہے ان کا غسل اور ان کا جسد خاک کے حوالے کرنا۔ گھر کے پاس جو مسجد تھی وہیں تھی ان کی قبر جہاں روز میں کھیلتے کھیلتے نکل جاتا تھا، پھر دوسری بڑی موت کی خبر میرے نانا کی تھی۔

مشکل سے چھ سال کی عمرہوگی میری۔ ہمارے گاؤں میں، میرے ننھیال کی حویلی کے برآمدے میںپر چار پائی پر بیمار پڑے تھے، بس اتنا یاد ہے۔ ہاں مگر ان کا ایک کتا تھا ’’بھاشو‘‘ نانا کے جانے کے بعد وہ بھی بیمار پڑ گیا، اور کچھ ہی دنوں میں مر گیا۔

میرے دادا کا انتقال میری پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ میں نے اپنی نانی کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ایک چاچا اور ماموںہوا کرتے تھے سب ٹھیک تھے، کچھ سالوں تک موت نے میرے گھر کی دہلیز نہ دیکھی مگر پھر کیا ہوا، دادی کے انتقال کے بعد میرے چچا جنکی عمر پچاس برس بھی نہ تھی اور میرے بڑے بھائی کی بیٹے جو میر ے ہی ہم عمر ہونگے کینسر کے مریض تھے اور چچا دل کے مریض ایک ہی دن دونوں کا انتقال ہوا اور یہ دونوں میتیں ایک ساتھ گھر سے اٹھیں۔ ان دونوں کے جنازوں کو دادی اماں کے سرہانے خاک نظر کردیا گیا پھر کچھ سالوں تک خاموشی رہی کہ اچانک ماموں جو میری اماں کے ایک ہی سگے بھائی تھے سخت بیمار پڑ گئے۔

انھیں میری والدہ گاؤں سے ہمارے گھر، نوابشاہ لے آئیں تاکہ ان کا بہترعلاج ہوسکے۔وہ دو ماہ بستر مرگ پر رہے اور جب ان کا انتقال ہوا میں نے بہت قریب سے کسی شخص کو اس طرح رخصت ہوتے ہوئے دیکھا مگر مجھے کچھ محسوس نہ ہوا، یوں دنیا سے جاناا، رحلت کرنا سب اجنبی سا لگا کہ جیسے یہ موت کبھی بھی میرے پاس نہیں آئی گی۔ پھر پانچ سال میں گھر سے دور رہا، میرا داخلہ پٹارو کالج میں ہو گیا۔ میرا گھر سے تعلق بس گرمیوں کی چھٹیوں یا سردیوں کی چھٹیوں تک محدود رہ گیا او ر باقی رابطہ میرے والد سے تھا، خطوط کے ذریعے جو وہ مجھے بڑی مستقل مزاجی سے لکھتے تھے۔ جب میری چاچی کا انتقال ہوا یہ خبر بھی ابا نے خط کے ذریعے ہی دی۔ میں جب پٹارو سے تعلیم مکمل کرکے واپس آیا تو ابا بہت ضعیف ہو چکے تھے۔

بہت ہی سکون کے ساتھ وہ بھی انتقال کر گئے۔ اپنے انتقال سے پہلے انھوں نے گاؤں جانے کی خواہش ظاہر کی ابھی دو ہی دن گاؤں میں گذرے تھے کہ وہ چل بسے اور وہیں ان کو دادی کے پاس سپردِخاک کیا گیا۔ یہ قبرستان صرف ہمارے خاندان کا قبرستان ہے، دو سو سال پرانا۔ شایدپچاس قبریں بھی نہ ہونگی کتنے سال بیت گئے، وقت وہاں تھم سا گیا ہے۔ میں بچپن میں کھیلتے کھیلتے خود بہ خود اس قبرستان میں پہنچ جایا کرتا تھا۔ کبھی اس قبر تو کبھی اس قبر کے کتبے کوپڑھتا رہتا، اور کبھی کبھی تودادی اماں کی قبر پر لیٹ کر سو بھی جاتا تھا کہ جیسے وہ ابھی لوری دے کر سلائیں گی ان کی آواز اب بھی کانوں میں گونجتی ہے۔ میری دادی ہمیشہ میرے لیے میٹھی چیزیں چھپا کر رکھتی تھیں۔

کہتے ہیں بچپن میں میرے بائیں بازو پر ایک بڑا سا پھوڑا نکلا تھا اور میں بہت بیمار بھی رہتا تھا، مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ مگر جب گاؤں میں یہ خبر میری دادی اماں کوملی توایک لمحہ ضایع کیے بغیر وہ نوابشاہ کے لیے نکل پڑیں۔ دادی اماں ایک لمحے کے لیے بھی مجھے اپنے آغوش سے نہ جانے دیتیں،پھر آہستہ آہستہ میںٹھیک ہونے لگا۔ کہتے ہیں کہ میرا بچنا مشکل ہو گیا تھا مگر مجھے کچھ بھی پتہ نہیں تھا کہ میں ہوں کہ نہیں ہوں۔ نہ زندگی کی قدر کا اندازہ تھا نہ موت کا ڈر۔

میرے والد کے جانے کے بعد یہ خبر کسی سانحے سے کم نہ تھی جب چھ سال بعد میری والدہ بھی چل بسیںمگر پھر بھی مجھے موت نہ سمجھ آئی۔ مجھے زندگی پر اجارہ داری سی لگنے لگی کہ یہ سب چلے گئے ہیں اور زندگی ہے بس۔ مجھے غالب کی طرح یہ خیال کبھی نہ آیا جو اس نے ایک دوست کے مرنے پر کسی دوست کو خط میں میں لکھا تھا کہ آدمی دوست کے جانے پہ روئے تب، جب آدمی کو خود نہ مرنا ہو۔

اب میں اس عمر کو پہنچا ہوں جہاں’’میری ہم جولیاں ‘‘ جیسے دوست مجھ سے بچھڑنے لگے ہیں۔ اب یہ لگتا ہے کہ موت میری دہلیز تک پہنچ چکی ہے مگر مجھے ذرا برابر بھی ڈر نہیں۔ مجھے زندگی اب جاکر سمجھ آئی جب میں خود یہاں کسی کے جانے کی بات کو بڑے خوب انداز سے محسوس کرسکتا ہوںکہ جیسے کوئی شخص کسی اسٹیشن پر بیٹھا اپنی ٹرین کا انتظار کر رہا ہو اور اسی اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر لگی گھڑی ٹک ٹک کر کے آگے بڑھ رہی ہے۔

حال ہی میں سند ھ کابینہ کے وزیر مرتضیٰ بلوچ کورونا کے باعث انتقال کر گئے، پٹارو کالج میںوہ میرے کلاس فیلو تھے۔ کچھ عرصے پہلے بڑے سالوں بعد ان سے ملاقات ہوئی جب سارے کلاس فیلو ایک جگہ جمع ہوئے،کتنا یاد کیا ہم نے ان زمانوں کو۔ ہم سب جو اسوقت پچاس سال کی عمر گزار چکے تھے،جب آپس میں مل بیٹھے سب کے سب جیسے وہ ہی چھوٹے سے ٹین ایجر بن گئے۔ خوب ہلا گلا کیا، پرانی باتوں کو یاد کر کے ہنس ہنس کے پاگل ہوگئے۔

میرے وکیل دوست ایس ایم اقبال ایک حادثے میں انتقال کر گئے، یہ عین کورونا کی ابتداء تھی۔ وہ بھی اسی صبح حیدرآباد ہائی کورٹ جارہے تھے اور میر ا بھی وہاں کیس لگا ہوا تھا۔ میرے دوست وہاں پہنچنے سے پہلے جامشورو کے نزدیک اس حادثے میں انتقال کر گئے۔میری اور ایس ایم اقبال کی روز کی بحث اور روز کا ہنسی مذاق تھا، وہ پیپلزپارٹی کا جیالا تھا اور میں نہیں مگر وہ سیاست کو خوب جانتا تھا۔ میں بار میں اس کے بغیر اکیلا سا ہوگیا ہوں۔ا سی بار میں چالیس سال قبل میرے ابا بیٹھتے تھے۔ اس بار میں تقریباروزانہ کسی نہ کسی وکیل کے انتقال کی خبر آتی ہے مگر ہمارا بار رواں دواں ہے :

’’یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے

افسوس ہم نہ ہوں گے‘‘

رفیع کا گایا ہوا یہ گانا ذہن میں گونجتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ 2020 کا یہ سال صرف پت جھڑ کا سال ہے،اموات کا سال ہے۔ابھی کسی ایک دوست کے جانے کی خبر آتی اور پھر دوسرے کی سننے کو مل جاتی ہے۔میں اپنے قلم سے ابھی کسی ایک کی یاد میں لکھنے لگتا ہوں تو دوسرا چلا جاتا ہے۔ابھی آنسو ٹھہرتے نہیں کہ پھر آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ایک ایسا میکدہ ہے میری تنہائیاں کہ جام ابھی تھمتے نہیں کہ پھر سے بھرنے لگتے ہیں۔

تاریخ در تاریخ کے اوراق ہیں یہ زندگی، مگررواں دواں ہے۔ آج کی نسل کے کچھ یار دوست، گلیوں کے چوراہوں پر بیٹھے خوب گپ شپ میں مشغول ہوں گے جس طرح ہم ہوا کرتے تھے۔ وہ ہی کالج، وہ ہی کالج کی گلیاں،ہم تو نہیں مگر کوئی اور عشق لڑا رہا ہوگا، کوئی سیاسی بحث ہورہی ہوگی تو کوئی گیت گارہا ہوگا۔

وہ بھی اک پل کا قصہ ہیں

میں بھی اک پل کا قصہ ہوں

اتنی اموات دوستوں یاروںکی اب دیکھی نہیںجاتیں۔ زندگی ہے کہ جیسے خزاں کا موسم۔ زرد پتے ہیں جو ٹالیوں سے جھڑتے جارہے ہیں۔ کب تک آخر کب تک ؟ کیا اور بھی ماہ و سال لگ جائیں گے اس خبر کے آنے تک کہ کورونا کی ویکسین ایجاد ہوگئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔