بروس ویلس

رانا نسیم  اتوار 7 جون 2020
 ایک فیکٹری ورکر کا بیٹا ہالی وڈ سٹار کیسے بنا؟ ۔  فوٹو : فائل

 ایک فیکٹری ورکر کا بیٹا ہالی وڈ سٹار کیسے بنا؟ ۔ فوٹو : فائل

ماضی سے حال تک کے زمانے نے انسان کو اس حقیقت سے روشناس کروایا ہے کہ ہر ناکامی بنیادی طور پر کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوا کر تی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے (کامیاب) انسانوں کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اکثریت کی زندگی کا آغاز ناکامیوں سے ہوا لیکن پھر اسی ناکامی نے انہیں کبھی تھامس ایڈیسن تو کبھی بل گیٹس بنا دیا۔

کہا جاتا ہے جب ایڈیسن نے بلب بنانا چاہا تو 999 کوششیں ناکام گئیں، لیکن ہزارویں بار وہ کامیاب ہو گئے۔ ان سے جب 999 بار ناکامی کی بابت پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا ’’نہیں میں ناکام نہیں ہوا بلکہ 999 وہ طریقے ایجاد کیے، جن سے بلب نہیں بنایا جاسکتا اور 1000 ویں بار وہ طریقہ ایجاد کیا جس سے بلب بنایا جاسکتا ہے اور وہ طریقہ تبھی ملا جب میں 999 وہ طریقے ڈھونڈ چکا تھا جن سے بلب نہیں بنایا جا سکتا‘‘ بلاشبہ انسان فطری طور پر کامیابی کی طرف دوڑتا اور ناکامی سے دور بھاگتا ہے، لیکن جو لوگ ثابت قدمی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب چل پڑتے ہیں۔

بھلے وہ بے سروسامان ہی کیوں نہ ہوں، بلاآخر کامیابی ان کے قدم چومتی ہے، ایسے ہی افراد میں ایک فرد والٹر بروس ویلس ہے، جو پیشہ وارانہ زندگی کے اوائل میں ناکامیوں سے دوچار ہوئے، وہ ہر فورم پر آڈیشنز دیتے لیکن کسی جگہ سے انہیں کام نہیں ملتا۔ ٹی وی، فلم ہو یا تھیٹر ہر سطح پر انہوں نے کوششیں کیں لیکن غریب والدین کے بیٹے کو اپنے جنون (اداکاری) کی تسکین مل سکی نہ روزگار۔ تاہم جہد مسلسل اور ثابت قدمی نے پھر انہیں وہ مقام دلوایا، جو ہر کسی کی قسمت میں نہیں ہوتا۔

جرمن نژاد امریکی اداکار بروس ویلس 19 مارچ 1955ء کو مغربی جرمنی کے شہر ایدر اوبرسٹین میں پیدا ہوئے، ان کے والد ڈیوڈ ویلس امریکی فوج سے نکلنے کے بعد خاندان کی کفالت کے لئے کبھی ویلڈر، مکینک تو کبھی فیکٹری ورکر بن گئے جبکہ ان کی والدہ مرلینے ایک بنک میں چھوٹی سی ملازمت کرتی تھیں۔

چار بہن بھائیوں اور والدین پر مشتمل گھرانے کے بارے میں ویلس کہتے ہیں کہ ان کے خاندان نے غربت میں ایک طویل عرصہ گزارا۔ ایکشن ہیرو نے ابتدائی تعلیم نیوجرسی سے حاصل کی، جہاں اوائل عمری میں ہی انہوں نے اداکاری میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے سکول کے ڈرامہ کلب میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1973ء میں گریجوایشن کرنے کے بعد اپنی اور خاندان کی کفالت کے لئے ویلس نے سکیورٹی گارڈ کی ملازمت اختیار کر لی، جہاں گزارا نہ ہونے پر وہ ایک فیکٹری میں کام کرنے لگے۔

ایک پرائیویٹ ادارے میں تفتیشی کا کام کرنے کے بعد ویلس اداکاری کی جانب مائل ہو گئے، جس کے بعد انہوں نے موئنٹ کلیئر سٹیٹ یونیورسٹی، نیوجرسی میں داخلہ لے لیا، جہاں انہیں ایک مقامی ڈرامہ میں بھی کاسٹ کیا گیا، تاہم 1977ء میں وہ یہ سب چھوڑ کر نیویارک سٹی چلے آئے، جہاں اپنا پیٹ پالنے کے لئے انہیں شراب نوشی کے ایک کلب میں ویٹر بننا پڑا۔ 1978ء میں بروس کو ’’Ziegfeld: The Man and His Women‘‘ میں پہلی بار انٹری کا موقع ملا، یہ فلم معروف امریکی تھیٹر آرٹسٹ فلورنز ایڈورڈ زیگفلڈ کی زندگی پر بنائی گئی۔

تاہم اس میں بروس کی کوئی شناخت نہیں تھی، وہ صرف ایک ’’ایکسٹرا‘‘ کے طور پر نظر آئے، اسی طرح 1980ء،1981ء اور 1982ء میں بھی انہوں نے تین ایسی فلموں یا ٹی وی پروگرام میں کام کیا، جن میں ان کا کوئی ڈائیلاگ تک نہیں تھا، کبھی وہ ویٹر بنے تو کبھی سکرین پر صرف گزر گئے۔ مستقبل کا ہالی وڈ سٹار اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے بہتر آغاز کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہا تھا، لیکن کہیں سے انہیں امید دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

تاہم جہد مسلسل اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نے ان کا حوصلہ پست نہ ہونے دیا اور بالآخر 1982ء میں انہیں معروف اداکار، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر پاؤل نیومین کی فلم ’’The Verdict‘‘ کے آخری سیٹ پر ایک مختصر کردار نبھانے کا موقع ملا، جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ڈائریکٹرز کی کچھ توجہ حاصل کر لی، اسی بناء پر ویلس کو 1984ء میں ٹی وی ڈرامہ ’’Miami Vice‘‘ اور 1985ء میں ’’The Twilight Zone‘‘ میں باقاعدہ طور پر اداکاری کی آفر ہوئی، جس میں وہ کامیاب ثابت ہوئے تو پھر امریکہ کی معروف ڈرامہ سیریل ’’Moonlighting‘‘ میں سپر سٹار کو مرکزی کردار مل گیا، یہ ایک مذاحیہ ڈرامہ سیریل تھی اور بروس کو ایک جاسوس کا کردار نبھانا تھا۔

اس ڈرامہ کی 65 اقساط ریلیز کی گئیں، جنہیں شائقین کی طرف سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی، یہ ڈرامہ 1985ء سے 1989ئء تک مسلسل 5 سال نشر کیا گیا، اسی دوران 1987ء میں ہالی وڈ ہیرو کو اپنی پہلی فلم (Blind Date) مل گئی، یہ ایک رومانوی مذاحیہ فلم تھی، جسے ڈائریکٹرز کی طرف سے پسندیدگی کی سند عطا ہوئی۔ پھر 1988ء میں بروس کو وہ فلم (Die Hard) مل گئی، جس نے ایکشن ہیرو کو پورے عالم میں پہچان دلا دی، یہ فلم صرف 28 ملین ڈالر بنی لیکن باکس آفس پر اس کی کمائی نے کئی ریکارڈ توڑ دیئے۔

’’Die Hard‘‘ کے بعد فلمی ستارے نے ’’Pulp Fiction‘‘،’’Monkeys‘‘،’’The Fifth Element‘‘،’’The Last Boy Scout‘‘، ’’Moonrise Kingdom‘‘،’’RED‘‘،’’The Jackal‘‘،’’Last Man Standing‘‘،’’Unbreakable‘‘،’’The Sixth Sense‘‘ اور ’’Trauma Center‘‘ جیسی بے مثال فلمیں بنائیں۔ بروس نے ایک سو سے زائد فلمیں اور درجنوں ٹی وی ڈرامے بنا کر خود کو ہالی وڈ کی دنیا میں امر کر لیا۔ فلم اور ٹی وی کے علاوہ بروس ویلس موسیقی اور سٹیج پر بھی اپنا آپ منوا چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ غریب پیدا ہونا جرم نہیں بلکہ غریب مر جانا جرم ہے، کیوں کہ غریب ہی مرجانے کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں کچھ نہیں کیا، لیکن بروس نے یہ جرم سرزد نہیں ہونے دیا، آج ایک غریب فیکٹری ورکر کا بیٹا کروڑوں پتی ہے۔ شوبز کی سرگرمیوں کے علاوہ ہیلے شہر میں مختلف چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے والے اداکار کے لاس اینجلس اور نیوجرسی میں ذاتی گھر بھی ہیں۔ پیشہ ورانہ زندگی کی گہما گہمی کے دوران ہی بروس کی ایک فلم کے پریمیئر پر اداکارہ ڈیمی مور سے ملاقات ہوئی اور 1987ء میں ان دونوں نے شادی کرلی۔

قدرت نے اس جوڑے کو تین بیٹیوں سے نوازا لیکن 2000ء میں ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی، جس کے بعد 2009ء میں ویلس نے ایک ماڈل ایما ہیمنگ سے بیاہ رچا لیا، جس میں سے ان کی دو بیٹیاں ہیں، یوں بروس مجموعی طور پر پانچ بیٹیوں کے باپ ہیں۔ بلاشبہ بروس ویلس کی زندگی ہر صاحب عقل و فہم کے لئے ایک مثال ہے، جنہوں نے دنیا کو بتلایا کہ جہد مسلسل اور محنت شاقہ سے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ قدرت نے ہر انسان کو صلاحیتوں سے نوازا ہے، ضرورت صرف ان صلاحیتوں کے ادراک اور خود پر اعتماد کی ہے۔

فلم، ٹی وی، موسیقی اور اعزازات

باکس آفس پر کمائی کرنے والے پہلے دس ہالی وڈ سٹارز میں شامل والٹر بروس ویلس کی شوبز انڈسٹری میں انٹری کچھ اچھی نہیں تھی۔ 1980ء، 1984ء، 1985ء میں انہیں ٹی وی کے کچھ ایسے پروگرامز یا ٹی وی فلم میں کام کا موقع دیا گیا، جس کا کوئی کریڈٹ نہیں تھا، تاہم جلد ہی 1985ء میں انہیں ’’Moonlighting‘‘ کے نام سے ایک مذاحیہ ڈرامہ میں مرکزی کردار مل گیا، یہ ڈرامہ 4 سال تک مسلسل امریکا کے معروف ٹیلی ویژن نیٹ ورک اے بی سی پر نشر کیا گیا۔

اس مقبول ترین ٹی وی سریز کے بعد بروس نے 1987ء میں ٹیلی ویژن فلم ’’The Return of Bruno‘‘ میں کام کیا، ان دونوں ڈراماؤں کے بعد مقبول ترین آرٹسٹ نے ’’Roseanne‘‘، ’’Saturday Night Live‘‘، ’’Bruno the Kid‘‘ اور ’’The Comedy Central Roast of Bruce Willis‘‘ سمیت کل 15ٹی وی پروگرامز میں اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھایا۔ فلم کی بات کی جائے تو یہاں بھی کچھ مشکلات جھیلنے کے بعد 1987ء میں بننے والی ایک رومانوی مذاحیہ فلم ’’Blind Date‘‘ میں ویلس کو مرکزی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ 1988ء میں ایکشن ہیرو نے مشہور زمانہ فلم ’’Die Hard‘‘ میں مرکز کردار نبھایا تو ان کی مقبولیت کا چار چاند لگ گئے، جس کے بعد انہوں نے ’’Look Who’s Talking‘‘، ’’The Bonfire of the Vanities‘‘، ’’The Last Boy Scout‘‘، ’’Armageddon‘‘، ’’The Sixth Sense‘‘، ’’The Kid‘‘، ’’Unbreakable‘‘، ’’Hart’s War‘‘، ’’Live Free or Die Hard‘‘، ’’The Expendables 2‘‘، ’’Red‘‘ اور ’’Trauma Center‘‘ سمیت مجموعی طور پر 102 فلموں میں کام کیا جبکہ 5 فلمیں ریلیز ہونے کو جا رہی ہیں۔ والٹر بروس ویلس وہ پہلے اداکار ہیں جنہوں نے صرف آواز ہی نہیں بلکہ حرکات و سکنات کے ذریعے بھی کسی ویڈیو گیم (Apocalypse) میں کام کیا، یہ ویڈیو گیم 1998ء میں بنائی گئی، جسے شائقین کی جانب سے پسندیدگی کی سند عطا ہوئی۔ اس کے علاوہ 2014ء میں بروس نے ’’Family Guy: The Quest for Stuff‘‘ کے نام سے دوسری ویڈیو گیم بھی بنائی۔

ویلس نے سٹیج پر بہت کم کام کیا، انہوں نے سٹیج پر صرف 2 پلے کئے، پہلا 2001ء میں ’’True West‘‘ جبکہ دوسرا 2015ء میں ’’Misery‘‘ کے نام سے دکھایا گیا۔ عالمی شہرت یافتہ اداکار نے اداکاری ہی نہیں بلکہ موسیقی کی دنیا میں بھی نام کمایا ہے، بحیثیت گلوکار وہ اب تک اپنے 3 سولو البم ریلیز کر چکے ہیں جبکہ مہمان گلوکار کی حیثیت سے وہ 5 گانوں میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔ دنیائے شوبز میں ان کی خدمات کا اک جہاں معترف ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ شوبز سے متعلقہ مختلف اداروں کے علاوہ حکومتوں کی طرف سے بھی انہیں متعدد اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔

والٹر بروس ویلس کو 2006ء میں ہالی وڈ واک آف فیم، 2011ء میں نیو جرسی ہال آف فیم، 2006ء اور 2013ء میں جرمن حکومت کی طرف سے آرڈر آف آرٹسٹ اینڈ لیٹرز ایوارڈز عطا کیا گیا۔ ان کے علاوہ ہالی وڈ سٹار گولڈن گلوب، کریٹیکس چوائس مووی، گوتھم، امریکن کامیڈی، بلاک باسٹر انٹرٹینمنٹ، ایم ٹی وی موویز اینڈ ٹی وی، پیپلز چوائس، فونکس فلم کریٹیکس سوسائٹی، بوسٹن سوسائٹی، آن لائن فلم اینڈ ٹیلی ویژن سوسائٹی اور نیشنل مووی سمیت درجنوں ایوارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔