’’جمہوریت کے خواب کو زندہ رکھنا ہر نسل کا فرض ہے‘‘

حسان خالد  اتوار 7 جون 2020
تاریخ پاکستان پر ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کی کتاب سے چند اقتباسات ۔  فوٹو : فائل

تاریخ پاکستان پر ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کی کتاب سے چند اقتباسات ۔ فوٹو : فائل

ایس ایم ظفر کی نئی کتاب ’’تاریخ پاکستان ۔ ایک نئی تعبیر‘‘ (History of Pakistan – Reinterpreted) کا تعارف اور منتخب حصے انہی صفحات پر 24 مئی کی اشاعت (https://www.express.pk/story/2043611/1/) میں پیش کیے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت اور اس سے متعلق کچھ دوسرے موضوعات پر مصنف نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جن پر غور کرنا اصلاح احوال کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ کتاب سے اخذ و ترجمہ کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ ان موضوعات پر ممتاز قانون دان کا نقطہ نظر ایکسپریس کے قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی آئینی، سیاسی اور معاشرتی تاریخ کا احاطہ کرتی یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، جس کے مندرجات توجہ طلب اور فکر انگیز ہیں۔

ناشر: منظور لاء بک ہاؤس، 2مزنگ روڈ، لاہور ۔  صفحات: 796 ۔

قیمت: 4500 روپے۔

جمہوریت

جمہوریت کو آج جو مقام اور بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہے، یہ ایک صدی سے کچھ زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ یورپ میں اس کی کامیابی نے یہ فضا بنا دی کہ لبرل ڈیموکریسی کو ’تاریخ کا اختتام‘ قرار دیا جانے لگا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ جمہوریت کی کامیابی کے خمار میں مبتلا ہونے والوں کو مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گزشتہ کچھ عشروں میں ہم ایسی ’جمہوری‘ منتخب حکومتیں دیکھ چکے ہیں۔

جنہوں نے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے جبر، دہشت اور بدعنوانی کا سہارا لیا۔ ایڈولف ہٹلر جس نے آریا نسل کی برتری کا نظریہ پیش کیا، مسولینی جس نے ’میں اٹلی ہوں‘ کا دعویٰ کیا اورجارج بش (جونیئر) جس نے طاقت کے بل پر ’نیو ورلڈ آرڈر‘ نافذ کرنے کی کوشش کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو بین الاقوامی قوانین تسلیم نہیں کرتا اور نریندر مودی جو ہندوتوا پر اندھا یقین رکھتا ہے، جمہوری طور پر منتخب ہونے والے آمروں کی حالیہ مثالیں ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی شہری آبادی پر جب پہلی مرتبہ ایٹمی بم پھینکے گئے، جن میں لاکھوںافراد لقمہ اجل بنے، تو اس وقت امریکا میں جمہوری صدر، ہیری ایس ٹرومین تھا۔

ایس ایم ظفر رقمطراز ہیں: یہاں چند اہم باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ اول جمہوریت کے حامیوں کو یہ مقولہ یاد رکھنا چاہیے ، ’’جمہوریت ایسا خواب ہے جسے زمانہ قدیم کے لوگوں نے نہیں، بلکہ ہم نے شرمندہ تعبیر کیا ہے۔

یہ ہر نسل کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کی ناکامی کی وجہ سے اس خواب سے دستبردار نہ ہو، بلکہ اسے زندہ رکھے۔‘‘ ثانیاً، صرف ووٹ دے دینا جمہوریت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جدید ریاستوں میں بھی، جہاں جمہوری نظام ہے، یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ووٹ دینے کی وجہ سے لوگوں کو حقیقت میں کتنا اختیار اور طاقت ملے گی؟ ثالثاً، اکثریت کی حکومت قانون کے تابع نہ ہو تو یہ آمریت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

آئین یا پارلیمانی قوانین، اکثریت کو پابند کرتے ہیں کہ وہ اقلیت کو مکمل طور پر نظرانداز نہ کرے۔ چوتھی بات یہ کہ باہمی ہم آہنگی کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں ہوتی۔ اختلافات، ناہمواری، نسلی اور فرقہ ورانہ تعصبات کی وجہ سے ہم آہنگی کا فقدان یا شدت پسندی، جمہوریت کو تباہ کر دیتی ہے۔ جس معاشرے میں اتفاق باہمی نہ رہے، وہاں استحصال کرنے والے سیاست سے باہر رہ کر اور پارلیمنٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کے لیے وہ پیسے، تشدد، دہشت اور جنونی ہجوم کے ذریعے خوفزدہ کرنے جیسے حربوں کا استعمال کرتے ہیں۔

ہم آہنگی نہ ہونے کی صورت میں عوام کا وجود نہیں ہوتا، صرف مختلف گروہ بستے ہیں، اور گروہوں کی حکومت جمہوریت نہیں ہوتی۔ ان دیکھے خوف اور جذبات فروش رہنماؤں کی وجہ سے یہ صورتحال غیرجمہوری سوچ کو بڑھاوا دیتی ہے۔ زمانہ امن میں بھی اتفاق باہمی کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے، جتنی جنگ کے دوران۔ لیکن ہم آہنگی کا مطلب یکسانیت یا یہ نہیں کہ سب لوگ ایک ہی سر میں گائیں۔

بلکہ مختلف سروں میں گاتے ہوئے موسیقی کی ایسی سمفنی ترتیب دیں، جو مجموعی شکل میں انفرادی آوازوں سے بڑھیا چیز ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب عوام میں ہم آہنگی کا وجود نہیں ہوتا تو لوگ حکومت کرنے کے لیے آمر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ جنگی صورتحال، بیرونی اور اندرونی دشمنوں کا خوف اور طاقتور افراد یا اداروں کی جاہ طلبی کسی بھی طرز حکومت کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں۔

موضوع کی مناسبت سے دو مزید اقتباسات ملاحظہ کریں:

٭ عام طور پر سکالرز دلائل دیتے ہیں کہ جمہوریت وہاں فروغ پاتی ہے، جہاں رائے دہندگان (عوام) پڑھے لکھے ہوں۔ یا پھر جمہوریت خود تعلیم اور پڑھے لکھے طبقے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ میں اس معاملے کے تنقیدی تجزیے کے بجائے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ پڑھے لکھے رائے دہندگان کی وجہ سے جمہوریت زیادہ اچھے طریقے سے کام کرتی ہے اور ہر سیاسی تبدیلی کے ساتھ اس میں بہتری آتی جاتی ہے۔ کیونکہ ناخواندہ عوام کا طرز عمل زیادہ تر جذباتی ہوتا ہے اور مقبول رہنما انہیں آسانی سے گمراہ کر سکتے ہیں۔

٭ جب ایک آمر عوام کی تائید سے محروم ہوتا ہے تو اسے جمہوریت کے نام پر تحریک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو کامیاب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، جب ایک سویلین سربراہ آمر کی طرح حکومت کرے تو اس کے ساتھ ساتھ عوام کا جمہوریت اور پارلیمان پر بھی یقین باقی نہیں رہتا۔  انتہا کی طاقت انتہا کی کرپشن کو جنم دیتی ہے تو یہ اصول (نہ صرف فوجی ڈکٹیٹر بلکہ) اکثریت کی انتہائی طاقت اور آمریت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتیں

سیاسی جماعتیں، جمہوری اور پارلیمانی نظام کی بنیاد ہیں۔ غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب کی گئی اسمبلی، نہ تو اسمبلی ہوتی ہے اور نہ ہی یہ قوم کو آپس میں جوڑ سکتی ہے۔قیام پاکستان کے بعد ملک میں سیاسی جماعتوں اور ان کے کردار کا مختصراً جائزہ لینے کے بعد مصنف لکھتے ہیں کہ سیاسی جماعت جیسے ادارے عام طور پر اس معاشرے کی ثقافتی اقدار کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں وہ پروان چڑھتے ہیں۔ 1973ء کے بعد اور اب بھی پاکستان میں زیادہ تر جاگیردارانہ اور قبائلی کلچر پایا جاتا ہے، جس میں جاگیردار یا قبائلی سردار (The Big Man)حکومت اور دوسرے پیروی کرتے ہیں۔

ایسے معاشروں میں پارلیمنٹ، انتخابات اور دوسرے جمہوری اداروں کو قائم کرنا عموماً پیچیدگی (chaos) کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں مغرب کے یہ جمہوری ادارے (قومی اسمبلی، انتخابات، سیاسی جماعتیں وغیرہ) قائم توکر لیے گئے لیکن سیاسی جماعتیں نیچے (گراس روٹ لیول) سے پروان نہیں چڑھیں، بلکہ یہ کسی ’بڑے آدمی‘ (The Big Man) نے بنائیں یا قائم رکھیں اور ’رعایا‘ نے اس کی پیروی کی۔ اسی لیے پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں فرد واحد کے گرد گھومتی ہیں یا اس پر انحصار کرتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سیاسی جماعتیں غیر جمہوری اور ذاتی بلکہ ایک شاہی خاندان کی طرح ہیں۔

سیاسی جماعتوں سے متعلق قوانین میں سیاسی جماعتوں کو جماعت کے اندر انتخابات کے لیے پابند کیا گیا ہے اور پارٹی سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے سات دن کے اندر الیکشن کمیشن میں نتائج جمع کرائے۔ سیاسی جماعتوں کے آئین میں بھی لکھا ہوتا ہے کہ پارٹی کے مختلف عہدے داروں کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہو گا، لیکن عملی طور پر ایسے زیادہ تر ’انتخابات‘ محض دکھاوے کے ہوتے ہیں، جن میں پارٹی سربراہ سمیت تمام عہدے داروں کے فیصلے کسی قسم کے انتخاب کے بغیر پہلے ہی کر لیے جاتے ہیں اور پارٹی کے عام اجلاس میں ان فیصلوں کی منظوری لے لی جاتی ہے۔

سیاسی جماعت کا بانی ہی جماعت کا صدر بنایا جاتا ہے، جس کے بغیر پارٹی صفر سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح جماعت پر ’شاہی خاندان‘ کی طرح کنٹرول جاری رہتا ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی ایک استثنا ہے، جس میں جماعت کے محدود ارکان اپنی ترجیح کا اظہار کرتے ہیں اور اتفاق رائے سے ایک نام منتخب کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد ایس ایم ظفر پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے کردار پر بات کرتے ہوئے پائیدار اور کمزور جمہوری روایات والے ممالک کے مابین ایک موازنہ پیش کرتے ہیں۔ مستحکم جمہوری روایات والے ممالک میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان اہم معاملات میں اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی نیک نیتی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔

جبکہ کمزور جمہوری روایات والے ممالک میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یہاں منتخب نمائندے اپنے مخالفین کی ، جن سے وہ اختلاف رائے رکھتے ہیں، شدید مخالفت کرتے ہوئے کبھی ان پر قومی وقار کا سودا کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کبھی انہیں قومی خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔مصنف لکھتے ہیں، ’’پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کو دو معاملات کی وجہ سے، جن کی جڑیں بہت گہری ہیں،نقصان پہنچا ہے۔ مذہب اور نسل پرستی نے عوامی نمائندوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ، جس سے اسمبلی مباحثوں میں عدم برداشت اور عداوت کا چلن پیدا ہوا ہے۔‘‘

اسی طرح مستحکم جمہوری روایات والے ممالک میں یہ مضبوط روایت ہے کہ وہ انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے متنازعہ نہیں بناتے۔دھاندلی کے بے بنیاد الزامات الیکشن پر اعتماد مجروح کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا وقار کم کرتے ہیں، جس سے لوگوں کا جمہوریت پر یقین ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کسی کو ستانے کی خواہش میں خود کو تباہ کردینے کے مترادف ہے۔

مزید براں جمہوریت کے بنیادی اجزا (سیاسی جماعتوں) میں نقائص اور نچلی سطح پر تنظیمی ڈھانچے (مقامی حکومتوں) کی کمزوری، یہ دو بڑے مسائل ہیں، جنہوں نے پاکستان کو توانا جمہوری روایات کے فروغ سے محروم رکھا ہے۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ عوامی نمائندگی کے اداروں میں سیاسی جماعتوں اور ان سے منسلک روایات کے بغیر، چاہے نظام کو کتنی ہی احتیاط سے وضع کیوں نہ کیا جائے، ایک قابل عمل اور مستحکم جمہوریت کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ علاوہ ازیں، قوم اور اس کے نمائندوں کو کچھ مشترکہ اقدار اور اصول ضرور تشکیل دینے چاہئیں، جو ملک کے جمہوری عقائد ہوں گے۔

جمہوریت کو ان انتہاپسند اور جذباتی رہنماؤں سے بھی خطرہ ہوتا ہے جو تمام معاشروں میں کسی نہ کسی وقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ صرف سیاسی جماعتیں اور منظم شہری ہی ایسے آمرانہ رہنماؤں کا رستہ روک سکتے ہیں، جو جمہوری اداروں کو تباہ یا انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ منتخب آمر جمہوریت کو تہہ و بالا کرنے کے ساتھ عدلیہ اور دوسرے غیرجانبددار اداروں سے کھلواڑ کرتے ہیں، میڈیا اور نجی شعبے کو خرید لیتے ہیں یا انہیں مختلف ہتھکنڈوں سے دھمکا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

مقامی حکومتیں

جس طرح سیاسی جماعتوں کی اینٹوں سے جمہوریت کی عمارت تعمیر ہوتی ہے، اسی طرح مقامی حکومتیں، ریاستی ڈھانچے کا جزو ہوتی ہیں۔  جمہوریت کی تربیت اور فروغ کے لیے مقامی (بلدیاتی) حکومت کا قیام لازم ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں، مقامی حکومت کی قومی حکومت کے سامنے وہی حیثیت ہوتی ہے، جو ایک پرائمری سکول کی یونیورسٹی کے سامنے ہوتی ہے۔ اس باب میں مصنف نے مقامی حکومتوں کی اہمیت اور پاکستان میں ان کی تاریخ کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔

ایس ایم ظفر کے بقول، ’’ایوب خان کے متعارف کرائے گئے بنیادی جمہوریتوں کے نظام نے اچھے نتائج دیے اور لوگوں نے ان انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ لیکن بدقسمتی سے ان بنیادی جمہوریتوں کے نمائندوں کے ووٹ سے صدر کے انتخاب کا طریقہ کار وضع کیا گیا، جس نے مقامی حکومت کے تصور کو تباہ کر دیا۔ کیونکہ جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اپنے علاقوں کے مسائل حل کرنے تھے، وہ سیاسی گروہ بندیوں کا شکار ہو کر رہ گئے۔‘‘

فوجی حکومتوں کے مقابلے میں، سول سربراہوںنے مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے میں زیادہ دلچسپی نہ لی۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’صوبائی رہنما جو وفاق سے زیادہ خود مختاری اور اختیارات کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ عام طور پر اختیارات آگے مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ صورتحال ہماری جمہوریت کے دوہرے چہرے اور صوبائی رہنماؤں کے ذاتی مفادات کے کھیل کو عیاں کرتی ہے۔ ہمارے پارلیمانی نمائندے اپنے اختیارات میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ عوام ان کی غلام بنی رہے۔‘‘

مقامی حکومتیںنچلی ترین سطح پر ریاستی ڈھانچے کا حصہ ہوتی ہیں،اس لیے یہ سوچ منطقی ہے کہ مقامی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔ اس سے سیاسی جماعتوں کو تقویت ملے گی اور جمہوری کلچر کے فروغ میں ان کا کردار بڑھے گا۔ برطانیہ جہاں طویل ارتقائی عمل کے بعد مقامی حکومتوں کا نظام اپنی ترقی یافتہ شکل میں موجود ہے، وہاں ہر شہری یہ یقین رکھتا ہے کہ انہیں دستیاب شخصی آزادیوں کا سب سے بڑھ کر اظہار خود مختار مقامی حکومتی اداروں سے ہوتا ہے۔

ہم نے آزاد بلدیاتی ادارے قائم نہ کر کے عوام کو اس آزادی سے محروم رکھا ہے، جو وقتاً فوقتاً جمہوریت کے پٹڑی سے اترنے کی ایک وجہ ہے۔ پروفیسر لیسکی کے مطابق، ’’جب تک ہم یہ اعتراف نہ کریں کہ تمام مسائل مرکزی مسائل نہیں ہوتے اور جو علاقے یا افراد ان مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، ان کے حل کے لیے فیصلے بھی وہاں کے لوگوں کو ہی کرنے چاہئیں، ہم اس وقت تک جمہوری حکومت سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔‘‘ ہمارے آئین کے آرٹیکل سات میں بھی مقامی حکومتوں سے متعلق یہ بات اسی روح کے مطابق بیان کی گئی ہے اور مقامی حکومتوں کو ریاست پاکستان کے ڈھانچے کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

منصف اور عدالتی فیصلے

کتاب کے اس باب کے پہلے حصے میں ایس ایم ظفر نے مختلف ادوار میں اعلیٰ عدلیہ کو حاصل آئینی تحفظ کا ذکر کرتے ہوئے عمومی طور پر اس کے کردار کی تاریخ بیان کی ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں گورنر جنرل، مارشل لاء یا صدر کی طرف سے اسمبلیوں کی برطرفی کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ میں سنے جانے والے مقدمات کا تجزیہ کیا ہے۔

مصنف لکھتے ہیں، جب بھی آئین توڑا جاتا ہے یا کوئی غیر قانونی طریقے سے اپنا آئین جاری کرتا ہے تو آئین کی تشریح کرنے کا حتمی بوجھ عدلیہ پر آ جاتا ہے۔ (1)نظریہ ضرورت ، (2) کامیاب انقلاب کا قانونی جواز مہیا کرنا یا (3) اقدامات کا قانونی تحفظ (indemnity)جیسے اصول اور نظریے 1953ء میں لاہور میں مقامی فوجی کمانڈر کی طرف سے نافذ کیے جانے والے مارشل لاء سے لے کر 3نومبر 2007ء کو پرویز مشرف کی نافذ کی گئی ایمرجنسی اور مارشل لاء تک دیئے گئے کئی اہم فیصلوں کا حصہ رہے ہیں۔

مصنف کے مطابق، تمیز الدین خان کیس میں وفاقی عدالت کا فیصلہ پاکستان کی مستقبل کی قانونی تاریخ (پر اثرانداز ہونے ) سے زیادہ سیاسی اہمیت کا حامل تھا۔ اس فیصلے میں ’نظریہ ضرورت‘ پر انحصار نہیں کیا گیا۔ عدالت نے واضح طور پر اپنے فیصلے میں لکھا: ’’ایک ایسی مقننہ جسے ہٹایا نہ جا سکے، نہ صرف جمہوریت کی نفی ہے بلکہ یہ کسی قوم پر آنے والی بدترین افتاد ہے۔‘‘

اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منیر نے اس فیصلے پر دفاعی انداز میں وضاحتیں دیں، جس سے یہ رائے بنی کہ عدلیہ نے اس لیے درست فیصلہ نہیں دیا کیونکہ دوسری صورت میں وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ چنانچہ سیاسی بنیادوں پر اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مصنف کے بقول، عدلیہ اور اسٹبلیشمنٹ کے مابین اس آزمائشی معرکے (test case) میں عدلیہ کو مکمل شکست نہ ہوئی، اس فیصلے نے ایک آئینی خلا چھوڑ دیا تھا، کیونکہ ملک میں آئین تھا اور نہ ہی قومی اسمبلی۔

دو اور کیسوں کے ذکر کے بغیر تمیز الدین خان کیس کی کہانی نامکمل ہے۔ یوسف پٹیل کیس میں وفاقی عدالت نے گورنر جنرل کی طرف سے جاری کیے گئے ’ایمرجنسی پاورز آرڈینینس‘ کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا، ’’آئین ساز اسمبلی کی تحلیل سے اسمبلی کے اختیارات گورنر جنرل کو منتقل نہیں ہو جاتے۔‘‘ چنانچہ گورنر جنرل نے مجبور ہو کر عدلیہ سے قانونی مشاورت کے لیے رجوع کیا۔ جس پر عدالت نے ’نظریہ ضرورت‘ کے قانون کے تحت عبوری مدت کے لیے قوانین کی توثیق کی اجازت دی۔

اس طرح عدلیہ بالواسطہ طریقے سے سیاسی نظام واپس لائی جس نے ملک کو نو برسوں بعد پہلا آئین دیا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’ پہلی آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے مناسب وقت کے اندر آئین تیار کر لیا ہوتا تو قوم کو بدترین افتاد کا سامنا نہ کرنا پڑتا، جس سے بعد ازاں عدلیہ کو بھی گزرنا پڑا۔‘‘

1958ء کے مارشل لاء کو کامیاب انقلاب قرار دیتے ہوئے قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا۔ تمیزالدین خان کیس کے مقابلے میں یہ کیس ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اثرانداز ہوا۔ کیونکہ ملکی سطح پر یہ عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلے تک اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے مانا گیا  قانون تھا، جبکہ کچھ دوسرے ممالک یوگنڈا، روڈیسیا اور قبرص کی عدالتوں نے بھی اسی فیصلے کا حوالہ دیا۔ عاصمہ جیلانی کیس میں عدالت نے نظریہ ضرورت کو مسترد کرتے ہوئے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء اور حکومت کو غیرآئینی قرار دیا۔ (یہ فیصلہ اس وقت دیا گیا جب جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔) عاصمہ جیلانی کیس کو سمجھنے کے لیے ضیاء الرحمن کیس پڑھنا ضروری ہے۔

دونوں کیسوں کے مطالعے سے سامنے آتا ہے: اول عدالتی نظرثانی کے اختیار پر زور دیا گیا، ثانیاً غاصب کو غیرآئینی قرار دینے کے بعد بھی اس کے اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے ’نظریہ ضرورت‘ کا سہارا لیا جا سکتا ہے، ثالثاً چیف جسٹس حمود الرحمن قانون اور سیاسی حقائق کے درمیان ایک تعلق پیدا کرتے ہوئے عدالتوں کا یہ کردار سامنے لائے۔

اسی طرح جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف اور صدور کی طرف سے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے والے اقدامات سے متعلق عدالتی کیسوں کا تجزیہ کرنے کے بعد ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ ’نظریہ ضرورت‘ یا ’کامیاب انقلاب کا قانونی جواز مہیا کرنا‘ کی بنا پر دیئے گئے فیصلوں کو ان ججوں کی بے ضمیری قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو مارشل لاء کی طاقت کے سامنے جھک گئے۔ تاہم اگر جج یا اس سے منسلک کسی فرد نے اس فیصلے سے کوئی مفاد حاصل نہیں کیا تو عوامی تاثر کو ایک طرف رکھتے ہوئے، فیصلے کو اپنی خوبیوں اور خامیوں کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔

’نظریہ ضرورت‘ والے فیصلے بری مثالیں ہیں لیکن پوری عدلیہ کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ عدلیہ نے کئی ایسے تاریخی فیصلے دیئے ہیں جو اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ’نظریہ ضرورت‘ والے فیصلوں پر تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس دراب پٹیل نے سوال اٹھایا تھا، ’’آپ کیسے صرف پانچ آدمیوں سے، جن کا کوئی ساتھ دینے والا نہیں، توقع کرتے ہیں کہ وہ مارشل لاء کو غیرقانونی قرار دیں؟‘‘ مصنف کے بقول، وہ (جسٹس دراب پٹیل) اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ برطرف ہونے والی پارلیمنٹ، حکومت اور عوام ، کسی نے بھی ایسے اقدامات پر کھل کر احتجاج نہیں کیا۔ (سوائے چند شخصیات کے جو ذاتی طور پر اس اقدام سے متاثر ہوئیں۔) مارشل لاء حکومتوں کے دوران بھی عدالتوں نے جلد از جلد آئینی اور سیاسی نظام کی طرف واپس لوٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ، شہریوں کو ریلیف مہیا کیا ۔

آخر میں مصنف لکھتے ہیں، ’’عوامی رائے کی بنیاد پر کسی عدالتی فیصلے کو اچھا یا برا کہنا نامناسب ہے۔ جس طرح منصفوں کو (قانون کے بجائے)عوامی خواہشات کے مطابق فیصلے کرنے سے روکا جاتا ہے، اسی طرح کسی فیصلے کو بھی عوامی رائے کے بجائے فلسفہ قانون کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ کیونکہ، جیسے کہا جاتا ہے، ’عوامی رائے منہ زور گھوڑے کی مانند ہے، جس پر منصفوں کا سوار ہونا منع ہے۔‘ ‘‘

اٹھارویں آئینی ترمیم

ایس ایم ظفر کے مطابق، 1973ء کے آئین کے بعد سب سے زیادہ قابل توجہ، اٹھارویں آئینی ترمیم ہے، جو پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں تاریخی تبدیلیاں لے کر آئی، صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن قائم کیا گیا، الیکشن کمیشن کو طاقتور بنایا گیا اور اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار طے کیا گیا۔

14 مئی 2006ء کو لندن میں محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے، جسے بعد ازاں لندن میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں بھی منظور کیا گیا۔ میثاق جمہوریت کو اٹھارویں آئینی ترمیم کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ میثاق جمہوریت میں یہ ترامیم تجویز کی گئیں: 1973ء کے آئین کو 12اکتوبر 1999ء کی حالت میں بحال کیا جائے گا۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی ایک کمیشن کے ذریعے ہو گی۔ آئینی معاملات حل کرنے کے لیے ایک نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی۔ آئین میں موجود ’کنکرینٹ لسٹ‘ (ایسے امور کی فہرست جن پر وفاق اور صوبے دونوں کا اختیار ہوتا ہے) کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔

صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی، جسے ’آئینی اصلاحات کمیٹی‘ میں بدلتے ہوئے میثاق جمہوریت کی تجاویز کی روشنی میں پورے آئین کا جائزہ لینے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔کمیٹی کے مجموعی طور پر 77اجلاس ہوئے ، جن میں 380 گھنٹوں تک بات چیت ہوتی رہی۔ اس کمیٹی نے آئین کے 97آرٹیکلز میں ترامیم تجویز کرنے کے ساتھ 13 مزید قوانین منظور کرنے کی تجویز دی، جنہیں آئین میں شامل نہیں کیا جا سکتا تھا۔اٹھارویں ترمیم میں میثاق جمہوریت کی مجوزہ تجاویز پر مکمل عمل نہ کیا گیا۔ آئین کو نہ تو مکمل طور پر 12 اکتوبر 1999ء کی حالت میں بحا ل کیا گیا، نہ ہی شریعت کورٹ اور آرٹیکل 62 (d, e, f)کی ذیلی شقوں کو ختم کیا گیا ، جنہیں جنرل ضیاء الحق نے 1988ء میں شامل کیا تھا۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز پر بھی عمل نہ کیا گیا۔

ایس ایم ظفر لکھتے ہیں، ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو آئینی دفعات مذہبی سیاسی جماعتوں جیسے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام میں مقبول تھیں انہیں بغیر کسی اعتراض کے چھوڑ دیا گیا، اپنے اس عزم کو پس پشت ڈالتے ہوئے کہ فوجی حکمرانوں کی شامل کی ہوئی دفعات ختم کر دی جائیں گی۔ کیاان دفعات سے صرف نظر کرنے کو قدامت پسندوں کی جیت یا لبرل سیاسی جماعتوں کی شکست سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ محمد علی جناح کا پاکستان پسپا ہو رہا ہے اور جنرل ضیاء الحق کا پاکستان فروغ پا رہا ہے۔ ‘‘

ایس ایم ظفر’آئینی اصلاحات کمیٹی‘ میں اپنی پارٹی مسلم لیگ ق کی نمائندگی کرتے ہوئے تحریری طور پریہ موقف پیش کرنا چاہتے تھے کہ آئین کے آرٹیکل 62 (d, e, f)کی ان بہت زیادہ مبہم ذیلی شقوں میں ترمیم کی جائے یا انہیں ختم کر دیا جائے، جس کے لیے پارٹی سربراہ سے منظوری لینا ضروری تھا۔

جب انہوں نے چوہدری شجاعت حسین سے اس معاملے پر مشاورت کی تو جواب ملا: ’’ہم کیوں بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالیں، جبکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے جنہوں نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔‘‘ اس لیے مسلم لیگ ق کی طرف سے یہ نقطہ نظر پیش نہ کیا جا سکا۔ مصنف مزید لکھتے ہیںکہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ، اسفندیار ولی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ جب انہوں نے آرٹیکل 62 (d, e, f)کی ان ذیلی شقوں کو ختم کرانے کے لیے میاں نواز شریف سے مدد مانگی تو انہوں نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لیے جب آرٹیکل 62 پر حتمی بحث ہو رہی تھی تو اے این پی کے نمائندوں کی اس معاملے پر زیادہ اصرار نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 63A میں بھی ترمیم شامل کر دی گئی، جس کا میثاق جمہوریت میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ ترمیم سے پہلے آئین کے اس آرٹیکل کے ذریعے ارکان اسمبلی کو صرف تین معاملات میں ، جن میں آئینی ترمیم شامل نہیں،پارٹی کی ہدایات ماننے کا پابند کیا گیا تھا، بصورت دیگر پارٹی کا پارلیمانی سربراہ اس رکن اسمبلی کو نااہل قرار دینے کے لیے ریفرنس بھیج سکتا تھا۔ جبکہ اس ترمیم کے ذریعے ریفرنس جاری کرنے کا یہ اختیار پارلیمانی سربراہ کے بجائے پارٹی سربراہ کوتفویض کر دیا گیا۔ مزید براں رکن اسمبلی کو آئینی ترمیم پر بھی پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کا پابند کر دیا گیا۔

ایس ایم ظفر کے مطابق، آصف علی زرداری نے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو کی وصیت اور پھر آرٹیکل 63Aمیں اس ترمیم کے ذریعے پیپلز پارٹی پر اپنا کنٹرول قائم رکھا۔انہوں نے ’آئینی اصلاحات کمیٹی‘ میں مجوزہ ترمیم پر اپنا اعتراض ریکارڈ کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ا س کی وجہ سے کسی زیر بحث آئینی ترمیم پر ارکان اسمبلی اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ تو اس کے جواب میں کہا گیا ، ’’ہم اپنی جماعتوں کی وجہ سے ہی پارلیمنٹ کے رکن بنتے ہیں۔‘‘ ایس ایم ظفر نے جواب دیا، ’’یہ جماعتیں خود بھی پارلیمنٹ میں آئین کی وجہ سے ہیں، اس لیے میں اپنا موقف ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

کنکرینٹ لسٹ ختم کرنے سے متعلق مصنف کہتے ہیں کہ وفاقی طرز حکومت رکھنے والے دنیا کے کئی ممالک میں(جن میں امریکا، بھارت اور روس بھی شامل ہیں) کنکرینٹ لسٹ نہ صرف برقرار رکھی گئی ہے بلکہ کچھ مخصوص صورتوں میں اس فہرست میں وقتاً فوقتاً اضافے بھی کیے گئے ہیں۔

کئی ایسے امور ہیں جنہیں اس فہرست میں نہ رکھا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن میں دوسری چیزوں کے علاوہ فوجداری اور شہادت کے قوانین، دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات، ماحولیاتی آلودگی اور آبادی کی منصوبہ بندی شامل ہیں۔ اس ترمیم کی وجہ سے فوری طور پر یہ مشکل پیدا ہوئی کہ امداد دینے والے بین الاقوامی اداروں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے شکایت کی کہ تعلیم اور صحت کے منصوبوں کے لیے صوبوں سے الگ الگ معاملات طے کرنے کی وجہ سے مذاکرات کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے اوران کے لیے موثر انداز میں اپنی ذمہ داری پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ مصنف نے کئی ایسے امور گنوائے ہیں جنہیں کنکرینٹ لسٹ میں برقرار رکھنے پر اصرار کیا گیا اور اسے مسلم لیگ ق کے موقف کی حیثیت سے تحریری طور پر کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔

مصنف نے کمیٹی میں اپنی پارٹی کی طرف سے اس بات پر بھی تحریری طور پر اصرار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 238 اور 239 میں ترمیم کی جائے، جس نے نئے صوبوں کے قیام کے طریقہ کار کو مشکل بنا دیا ہے، جبکہ پوری دنیا میں یہ رجحان ہے کہ ایک صوبے کی مزید صوبوں میں تقسیم کے عمل کو زیادہ باسہولت اور آسان بنایا گیا ہے۔

جب ایل ایف او کے ذریعے ون یونٹ ختم کیا گیا تو بہاولپور کو الگ صوبے کے طور پر بحال کرنے کے بجائے صوبہ پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ اسی ڈھانچے کو ایل ایف او سے اٹھا کر 1973ء کے آئین کے پہلے آرٹیکل میں وفاق پاکستان کی اکائیوں کے طور پر شامل کیا گیا۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ مضبوط اور پائیدار وفاق کے تجزیے اور تحقیق سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ وفاق کی جتنی کم اکائیاں ہو گئیں، یہ اتنا ہی کم پائیدار ہو گا۔ ایسے ممالک جہاں صوبوں کی تقسیم نو کا عمل زیادہ کڑا نہیں، وہاں مقامی اور علاقائی ضروریات کے تناظر میں الگ صوبے کے مطالبے پر نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

مصنف نے اس ضمن میں بھارت اور نائیجریا کی مثالیں دی ہیں۔ ایس ایم ظفر کی تجویز کو اس وقت تو سب نے مسترد کر دیا لیکن اٹھارویں ترمیم کے منظور ہونے کے بعدسیاسی جماعتیں علاقائی مطالبوں پرنئے صوبوں کے قیام کی حمایت کرنے لگیں۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’مجھے حیرت ہے کہ آئینی اصلاحات کمیٹی کے اراکین، وفاق اور اس کی پائیداری کے تعلق پر سکالرز کی تحقیق سے ناواقف تھے، لیکن اب اگلے انتخابات میں اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لیے یہ سیاسی مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘

افواج پاکستان

اس باب کے آغاز میں مصنف نے افواج پاکستان کے حلف کا ذکر کیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ افواج پاکستان کے ہر فرد کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح کی سیاسی سرگرمی سے دور رہے۔ قائداعظم نے افواج پاکستان سے اپنے خطاب میں کہا تھا: ’’ یہ مت بھولیں کہ مسلح افواج عوام کی خادم ہیں۔ آپ قومی پالیسی نہیں بناتے، یہ ہم سویلین ہیں جو ان معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں اور ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا آپ کا فرض ہے، جو آپ کو سونپی جاتی ہیں۔‘‘

ملک کی مختصر سیاسی اور آئینی تاریخ کے دوران کئی مرتبہ حکومتوں کا تختہ الٹا گیا۔ایس ایم ظفر لکھتے ہیں، ’’اس سوال کا جواب تاریخ دانوں کے ذمے ہے کہ ایسا کیونکر ہوا۔ یہ جواب ایک گہرے تجزیے کا متقاضی ہے لیکن فی الحال اتنا کہنا کافی ہو گا کہ ان مداخلتوں کو بدقسمتی سے نہ تو آئین پر حملہ سمجھا گیا، نہ ہی قوم پر آنے والی افتاد، بلکہ اسے محض اقتدار سے الگ کی جانے والی جماعت پر حملہ تصور کیا گیا۔‘‘مختلف ادوار کے آئین اور اس دوران لگنے والے مارشل لاؤں کے تذکرے کے بعد مصنف نے مختلف نظریات کی روشنی میں ایسے عوامل کا ذکر کیا ہے جو مارشل لاء کے لیے سازگار ہوتے ہیں یا اس کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

ایسی ریاست جس میں آبادی کا بڑا حصہ سیاست میں دلچسپی نہیں لیتا، نہ ہی سیاسی عمل کا حصہ بنتا ہے یا جہاں ایک اوسط آدمی خواندہ نہیں ہوتا اور وہ حکومتی پالیسیوں کے اثرات نہیں سمجھ سکتا، ایسی صورتحال مارشل لاء کے لیے سازگار ہوتی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’برسراقتدار افراد ، عوام کی اکثریت کی سیاست میں عدم دلچسپی سے غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ سیاسی طور پر غیرفعال لوگ اگرچہ خاموش ہیں، لیکن وہ اپنے گردو پیش سے لاتعلق نہیں ۔ اور کسی بھی محرومی یا ناانصافی کی صورت میں جنم لینے والا غصہ تباہ کن ثابت ہوتے ہوئے مارشل لاء کی طرف لے جاتا ہے۔

نتیجتاً حکومت میں آنے والی تبدیلی کو، چاہے وہ قانونی طریقے سے آئی ہے یا غیرقانونی طریقے سے، قبول کر لیا جاتا ہے۔‘‘دوسری طرف فوج کا پروفیشنلزم اسے کسی ایسی مداخلت سے روکتا ہے۔ جہاں کسی ریاست کا معاشی اور فوجی مدد (جدید اسلحہ، جنگی طیارے ، آبدوزیں وغیرہ) کے لیے ایک بڑے اتحادی ملک پر انحصار ہے، وہاں اس اتحادی ملک کے کسی طرح کے اشارے کے بغیر فوج کا برسراقتدار آنا ممکن نہیں ۔ جہاں مضبوط سیاسی کلچر ہوتا ہے، وہاں بھی مداخلت کا امکان محدود ہوتا ہے۔

سول ملٹری تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف رقمطراز ہیں: جتنا زیادہ فوج کا آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے، اتنا ہی سول بالادستی قائم ہوتی ہے۔ اگر لوگ حکومت سے خوش ہیں تو افواج کبھی بھی سول حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتیں۔ مختصر یہ کہ جتنا زیادہ حکومت کی کارکردگی اچھی (good governance) ہوتی ہے، اسی تناسب سے فوجی مداخلت کا امکان کم ہوتا جاتا ہے۔ ایس ایم ظفر کے مطابق، قومی سلامتی کے امور سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کونسل (national security council)قائم کرنی چاہیے۔

فوج سمجھتی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات میں سول اور فوجی قیادت کو ایک صفحے پر ہونا چاہیے، جس کے لیے قومی سلامتی کونسل کا قیام ضروری ہے۔ جبکہ سول رہنما اسے سویلین بالادستی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں کہ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ایران، جنوبی افریقہ اور اسرائیل سمیت اکثر جمہوری ممالک میں نہ صرف قومی سلامتی کونسل کام کر رہی ہے بلکہ یہ حکومت اور افواج کے درمیان موثر رابطے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ممالک روس ، چین اور جنوبی کوریا میں بھی، جہاں آمرانہ طرز حکومت ہے،قومی سلامتی کونسل تشکیل دی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔