وزیر اطلاعات ٹھیک کہتے ہیں مگر…!

تنویر قیصر شاہد  پير 8 جون 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

احمد فرازوطنِ عزیز کے نامور اور قابلِ فخر شاعر تھے ۔ پچھلے دنوں مجھے بھارت کے عالمی شہرت یافتہ صحافی اور ادیب ، خوشونت سنگھ ، کا یو ٹیوب پر پڑا ایک پرانا انٹرویو سُننے اور دیکھنے کا موقع ملا ۔

کئی دیگر دلچسپ باتوں کے آنجہانی خوشونت سنگھ نے بڑی خوشی سے یہ بھی کہا:’’ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے بعد جو شاعر مجھے سب سے زیادہ پسند ہے ، وہ احمد فراز ہیں۔‘‘ اس کے بعد خوشونت سنگھ ہمیں اس انٹرویو میں احمد فراز کی ایک طویل غزل زبانی پڑھ کر سناتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہمارے موجودہ وزیر اطلاعات ، شبلی فراز صاحب ، انھی احمد فراز کے فرزندِ ارجمند ہیں ۔ اُن کے وزیر اطلاعات بننے پر ہم صحافیوں نے اُن سے بڑی توقعات لگا رکھی ہیں ۔

عید الفطر کے بعد کورونا وائرس جس تیزی اور شدت سے پھیلا ہے ، اس سے ہمارے وزیر اعظم اور صدرِ مملکت بھی بجا طور پر اپنی تشویشات کا اظہار کررہے ہیں۔ دونوں ہی مگر ہم عوام سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ احتیاط اور مجوزہ ایس او پیز اختیار کرتے ہُوئے ہم اس وائرس کے ممکنہ حملوں سے کسی قدر محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ اِسی پس منظر میں وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے :’’ جس طرح بارش سے بچنے کے لیے چھتری لازم ہے ، اسی طرح کورونا کے وار سے بچنے کے لیے احتیاطیں لازم ہیں ۔ ‘‘

ہمارے وزیر اطلاعات اپنے تئیں کہہ تو درست رہے ہیں لیکن احتیاط کرے گا کون؟ میرا تو مشاہدہ ہے کہ جب سے حکومت نے بازار کھولنے کی اجازت دی ہے ، ساری احتیاطیں پامال ہو گئی ہیں ۔ لاہور میں خاص طور پر حالیہ عید الفطر پر بازار کھلتے ہی ہر خاص و عام نے خریداری کرتے ہُوئے جس طرح ہڑبونگ مچائی اور حکومت کے طے کردہ ایس او پیز کا مذاق اُڑایا ہے ، اس نے کورونا کو بھی کھل کھیلنے کے مواقع دیے ہیں ۔ لاہور میں یقیناً اسی کارن عید کے بعد کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہُوا ہے ۔

لاہور میں رہنے والے میرے پرانے دوست حکیم راحت نسیم سوہدروی ، جو لاہور کے کئی صحافیوں سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں ، گزشتہ روز مجھے فون پر بتارہے تھے :’’اس رمضان میں میرا مطب کھلا تھا لیکن کوروناکا مریض میرے پاس کوئی نہیں آیا ۔ عید الفطر کے بعد مگر حیرت انگیز طور پر میرے کئی جاننے والے بھی اس وائرس کا شکار ہُوئے ہیں اور کئی مریض بھی صلاح مشورے کے لیے میرے مطب پر آئے ہیں ۔ اسپتالوں اور ڈاکٹروں نے کورونا بارے جو خوف پھیلایا ہے ، اس سے لوگ اسپتالوں میں جانے اور داخل ہونے سے گریز کرنے لگے ہیں ۔‘‘

رمضان شریف کے بعد عوام کورونا سے کچھ زیادہ ہی لاپروا ہو گئے ہیں۔ بازار تو رہے ایک طرف ، مساجد میں بھی بے احتیاطیاں برتی جانے لگی ہیں۔ چند دن پہلے ڈرتا ڈرتا اور بہ امرِمجبوری بازار گیا تو کم کم لوگوں کو سماجی فاصلہ (Social Distance)اختیار کرتے اور فیس ماسک پہنتے دیکھا ۔ واپسی پر ظہر کی اذان ہُوئی تو ایک قریبی مسجد کی طرف لپکا ۔ مسجد کا فرش ننگا تھا ۔ کئی لوگ اپنے اپنے جائے نماز ساتھ لائے نظر آئے۔ لیکن 90فیصد نمازی ماسک کے بغیر تھے ۔

جماعت کھڑی ہُوئی تو مَیں نے دیکھا کہ نمازیوں کے درمیان فاصلہ بھی سمٹا ہُوا تھا ۔ بعد از نماز میری نظر امام صاحب کی طرف اُٹھی تو انھیں بھی ماسک کے بغیر ہی پایا ۔ پوچھنے کی ہمت تو نہ ہُوئی مگر مسجد کے گیٹ پر کرسی پر بیٹھے مسجد ہی کے ایک خادم سے امام صاحب کے ماسک نہ پہننے بارے پوچھا تو جواب ملا:’’ امام صاحب کبھی کبھی پہن لیتے ہیں ۔‘‘ جب امام صاحب پابندی نہیں کریں گے تو مقتدی کیوں فیس ماسک پہنیں گے؟

کورونا کے اس طوفان میںچند دن پہلے ’’پیمرا‘‘ کے چیئرمین جناب سلیم بیگ کی والدہ صاحبہ لاہور میں انتقال کر گئیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین۔ سلیم بیگ صاحب اسلام آباد واپس تشریف لائے تو اُن کی مرحومہ والدہ کی فاتحہ خوانی کے لیے راقم اُن کے گھر حاضر ہُوا ۔ روانہ ہونے سے پہلے ہی مَیں نے تو نائلون کے باریک دستانے بھی پہن لیے اور ساتھ سینیٹائزر بھی رکھ لیا ۔ اگرچہ یہ دونوں چیزیں ہمارے تاجروں کے بے لگام لالچ کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے خاصی دُور ہو چکی ہیں۔

جناب سلیم بیگ گھر کے اندرونی دروازے کی دہلیز پر محبت سے ملے اور سیدھے لائبریری میں لے گئے جو گھر کے اندر اُن کی محبوب جگہ ہے ۔ ہم دونوں نے مگر گلے ملنے اور مصافحہ کرنے سے دانستہ احتیاط برتی۔ ایسا کرتے ہُوئے کوئی گلہ بھی نہیں تھا کہ اب تو یہ اسلوبِ حیات عام چلن بن چکا ہے ۔ والدہ مرحومہ کی فاتحہ خوانی کے لیے ہم نے ہاتھ اُٹھائے ۔ اللہ کریم سے مغفرت کی دعائیں مانگیں اور اپنے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر لیے ۔

کورونا وائرس کی تباہ کاریوں ، اس کے مہلک پھیلاؤ اور بڑھتے اثرات پر بات چیت کے بعد عام ملکی حالات پر گفتگو ہونے لگی لیکن میری نظریں رشک سے مسلسل سلیم بیگ صاحب کی ذاتی پُر شکوہ لائبریری کا جائزہ لیتی رہیں۔ بعض کتابوں کی قیمت تو لاکھوں میں ہے۔ ایک ایسی نایاب کتاب بھی مجھے دکھائی جو 1857کے غدر میں شایع ہُوئی تھی اور مکمل السٹریشن کے ساتھ ۔

پاکستان کے مشہور خطاط اور مصور ، صادقین ، بارے ایک ضخیم اور نادر کتاب بھی دکھائی دی جو شائد بہت ہی کم لوگوں کے پاس ہوگی ۔وِل ڈیورانٹ کی تاریخ کا مکمل اور بیش قیمت سَیٹ تو اُن کی جان ہے ۔میری حیرانی اور استفسار پر بتایا: میرے پاس کم از کم18ہزار کتابیں ہوں گی ۔ اللہ اللہ ، کتاب سے یہ جنوں۔اُن کی لائبریری میں پھیلی اُن کے اس جنون کی مہک محسوس کی جا سکتی تھی ۔

کتاب اور میڈیا کے دوست سلیم بیگ صاحب اپنے قریبی دوستوں میں ’’پروفیسرصاحب‘‘ کے نام سے بھی پکارے جاتے ہیں ۔ مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے سے پہلے، تعلیم سے فارغ ہوتے ہی آپ گجرات کے ایک سرکاری کالج میں لیکچرربھی رہے ۔لاہور کے مشہورِ زمانہ اور معتبر تعلیمی ادارے ، گورنمنٹ کالج، میں طلبا سیاست میں بھی جناب نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اس کی قیمت بھی مگر چکائی کہ اُن کا مقابلہ ایک ایسی طلبا تنظیم سے تھا جس نے طلبا سیاست کے پلیٹ فارم سے ، خوف کی فضا قائم کررکھی تھی ۔ بیگ صاحب بھی مگر اپنی ہٹ کے پکے تھے ۔ اُن کی وسیع لائبریری میں بیٹھے مَیں نے پوچھا:’’طلبا سیاست کے دَور کا اپنا کوئی ذاتی اور ناقابلِ فراموش واقعہ؟۔‘‘

بیگ صاحب حسبِ معمول زور سے مسکرائے اور اپنے سر کے سفید بالوں کو ایک طرف ہٹاتے ہُوئے اشارے سے کہنے لگے : ’’ذرا یہ دیکھ لیجیے‘‘ ۔ مَیں نے بالوں کے درمیان جگہ پر جھانکا ۔ وہاں کسی پرانے گہرے زخم کا نشان صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ پھر سلیم بیگ صاحب نے ہاتھوں کی انگلیوں سے سر کے بالوں میں کنگھی کرتے ہُوئے کہا: ’’گورنمنٹ کالج میں طلبا یونین کے الیکشن ہو رہے تھے ۔ انتخابات سے دو روز قبل میری حریف طلبا جماعت نے مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ مَیں تو بچ گیا لیکن میرا سر لوہے کی سلاخوں کی ضربوں میں شدید زخمی ہو گیا۔ بے ہوشی میں اسپتال پہنچایا گیا جہاں آپریشن کے دوران میرے سر میں سات ٹانکے لگے ۔مَیں الیکشن جیت تو گیا تھا لیکن آج تک یہ زخم مجھے یاد دلاتا ہے کہ طلبا سیاست میں جب شدت پسند اور فسادی عنصر داخل ہوتا ہے تو اس کے نقصان کی شدت اور حدت کہاں تک بڑھ سکتی ہے ۔‘‘ سلیم بیگ صاحب کی لائبریری کا سحر ابھی تک ذہن پر طاری ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔