اسلام آباد ہائی کورٹ کا چینی 70 روپے فی کلو بیچنے کا حکم

ویب ڈیسک  جمعرات 11 جون 2020
جس مقصد کے لیے کمیشن بنا تھا وہ ایڈریس ہی نہیں ہوا، جسٹس اطہر من اللہ فوٹو: فائل

جس مقصد کے لیے کمیشن بنا تھا وہ ایڈریس ہی نہیں ہوا، جسٹس اطہر من اللہ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: ہائی کورٹ نے چینی کی قیمتوں میں اضافے پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ملک بھر میں عام آدمی کے لئے چینی 70 روپے بیچنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے چینی کی قیمتوں میں اضافے پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

شوگر ملز ایسویس ایشن کے وکیل علی خان نے عدالت کے روبرو اپنے دلائل میں کہا کہ آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا الگ الگ ذکر موجود ہے، فروری میں کارروائی کے لیے ایڈہاک کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی نے وفاقی حکومت کو لکھا کہ کمیشن کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے اس کے لیے کمیٹی کو کمیشن میں تبدیل کردیا جائے، جیسے کمیٹی نے تجویز دی تھی ویسے ہی وہ کمیشن بن گیا، انکوائری کمیشن نے شوگر ملز کے فرانزک آڈٹ کے لیے وفاقی حکومت کو لکھا، کمیشن نے 324 صفحات کی رپورٹ میں بہت زیادہ وجوہات بیان کی ہیں۔کمیشن نے اپنے ٹی او آر سے باہر جاکر کارروائی کی،معاون خصوصی اور دیگر وزرا کے ذریعے ہمارا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ چینی عام آدمی کی ضرورت ہے حکومت کو بھی اس حوالے سے ہی اقدامات اٹھانا چاہیئں، سادہ سی بات ہے کہ عام آدمی کا بنیادی حق ہے 30 فیصد چینی عام آدمی کے لیے ہوتی ہے، جس مقصد کے لیے کمیشن بنا تھا وہ ایڈریس ہی نہیں ہوا، کمیشن کو عام آدمی کو چینی کی سہولت فراہمی کے لیے کچھ کرنا تھا لیکن نہیں کیا، حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز پر بھی سبسیڈیائز چینی 80 روپے کلو بیچ رہی ہے، یہاں پر مفاد عامہ کا سوال سامنے آیا ہے لیکن یہ سوال کسی نے اٹھایا ہی نہیں۔ اگر کمیشن نے عام آدمی کو چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا پھر کیا کیا؟۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے استفسار پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ نومبر 2018 میں چینی کی قیمت 53 روپے تھی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 2 سال میں چینی کی قیمت53 سے 85 روپے فی کلو ہوگئی، چینی غریب آدمی کی ضرورت ہے وہ ایسے فیصلوں سے کیوں متاثر ہو رہا ہے؟ یہ چیز کمیشن کو ایڈریس کرنا چاہیے تھی، کمیشن نے عام آدمی کی سہولت کے لیے کوئی فائنڈنگ نہیں دی،چینی ایک مزدور کی ضرورت ہے اور وہ کوکا کولا پرسبسڈی دے رہے ہیں۔ عام آدمی کو بنیادی حقوق کیوں نہیں دے رہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مخدوم علی خان سے مکالمے کے دوران استفسار کیا کہ یہ عدالت عمومی طور پر ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، ہم حکومت کو نوٹس کرکے پوچھ لیتے ہیں لیکن آپ اس وقت تک 70 روپے کلوچینی بیچیں، آپ کو شرط منظور ہے تو ہم آئندہ سماعت تک حکومت کو کارروائی سے روک دیتے ہیں، اس حوالے سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار بھی کیا کہ کیا وفاق عدالت کے آپشن کی مخالفت کرے گا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق نے کہا کہ حکومت اس کی مخالفت نہیں کریں گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت تک ملک بھر میں عام آدمی کے لئے چینی 70 روپے بیچنے کا حکم دیتے ہوئے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے حق میں مشروط حکم امتناع جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے رجسٹرار آفس کو کیس 10 روز کے بعد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سیکرٹری کابینہ ڈویژن، سیکرٹری داخلہ، وزیراعظم کے معاون خصوصی مرزا شہزاد اکبر ، ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب، ڈپٹی ڈائریکٹر آئی بی، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے ڈی جی انویسٹی گیشن اینڈ انٹیلی جنس کو نوٹس جاری کردیئے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔