معذوری آڑے نہ آسکی!

ندیم سبحان  ہفتہ 7 دسمبر 2013
مفلوج سرجن ڈاکٹر ٹیڈ رومل سالانہ ایک ہزار آپریشن کرتا ہے۔  فوٹو : فائل

مفلوج سرجن ڈاکٹر ٹیڈ رومل سالانہ ایک ہزار آپریشن کرتا ہے۔ فوٹو : فائل

انسان عزم صمیم سے کام لے تو کوئی رکاوٹ حصول مقصد میں حائل نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر ٹیڈ رومل اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ اگر بدترین حالات میں بھی ہمت جواں رکھی جائے تو پھر قدرت بھی انسان کی مدد کرتی ہے اور وہ اپنی منزل پالیتا ہے۔

امریکی ریاست مسوری میں رہنے والا ڈاکٹر ٹیڈ رومل آرتھوپیڈک سرجن ہے۔ انجان لوگ جب اسے اسپتال میں دیکھتے ہیں تو انھیں اس پر کسی مریض کا گمان ہوتا ہے کیوں کہ ٹیڈرومل ایک خود کار وہیل چیئر پر بیٹھا نظر آتا ہے۔ وہ آپریشن تھیٹر میں بھی اسی حالت میں جاتا ہے، اور آپریشن بھی وہیل چیئر پر بیٹھ کر ہی انجام دیتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ٹیڈ رومل کا نچلا دھڑ مفلوج ہے۔ مگر اس حالت میں بھی وہ سرجری انتہائی مہارت سے انجام دیتا ہے۔

2009ء تک زندگی ڈاکٹر ٹیڈ رومل کے لیے بہت ہموار تھی۔ ایک روز سرجن کی کمر میں شدید تکلیف ہوئی۔ ضروری ٹیسٹ کروانے کے بعد رومل پر انکشاف ہوا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک رسولی بن گئی ہے۔ یہ بے حد خطرناک صورت حال تھی۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ آپریشن کروانے کے بعد بھی وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا۔ چناں چہ اس نے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کی بات ماننے سے انکار کردیا جو اسے آپریشن کروانے کا مشورہ دے رہے تھے۔ ٹیڈ کا کہنا تھا کہ  وہ اس وقت تک آپریشن کروانے سے گریز کرے گا جب تک یہ ناگزیر نہ ہوجائے۔ ایک سال کے بعد ہی وہ لمحہ آگیا جب سالانہ ایک ہزار آپریشن کرنے والے سرجن کو خود آپریشن ٹیبل پر لیٹنا پڑا۔ رسولی پھٹ گئی تھی۔ فوری طور پر ڈاکٹر ٹیڈ کا آپریشن کیا گیا۔ آپریشن کے بعد حسب توقع ناف سے نیچے اس کا جسم مفلوج ہوگیا۔

یہ ڈاکٹر ٹیڈ کے لیے کڑا وقت تھا۔ کہاں تو وہ سال میں ایک ہزار آپریشن کرتا تھا اور کہاں اب بستر چھوڑنے سے بھی قاصر تھا۔ مگر اس نے حوصلہ نہ ہارا۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر کہتا ہے،’’ پہلی سوچ جو میرے دماغ میں ابھری وہ یہ تھی کہ یہ کیا ہوگیا! میں یہ سوچ کر بے انتہا پریشان ہوگیا تھا کہ اب میری زندگی کیا ہوگی۔ پھر میں نے بہ تدریج خود کو سمیٹا، اپنا حوصلہ مجتمع کیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ اب زندگی کو کسی بھی طرح اسی راستے پر لانا ہوگا کیوں کہ اپنے پیشے سے دوری میں کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ ‘‘

ڈاکٹر ٹیڈ رومل کا کہنا ہے اس کڑے وقت میں اس کی بیوی کیتھرین نے اس کا بڑا ساتھ دیا۔ اسے بکھرنے سے بچایا اور اس کی ہمت بندھائی۔ علاج کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے ورزش کرنے کے باعث جلد ہی ڈاکٹر کی طبیعت بہت بہتر ہوگئی۔ وہ خود کو نارمل محسوس کرنے لگا تھا مگر جسم کا زیریں حصہ  ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوچکا تھا۔

اب وہ اپنے پیشے کی طرف لوٹنے کے لیے بے چین تھا۔ اس کا بالائی جسم بالکل ٹھیک تھا، اس لیے اگر اس کے زیریں جسم  کی معذوری کسی طرح دور ہوجاتی تو وہ بہ آسانی مسیحائی کا سلسلہ وہیں سے جوڑ سکتا تھا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ اسی دوران اسے ایک ایسی وہیل چیئر بنوانے کا خیال آیا جو اسے پہلے کی طرح سرجری کرنے کے قابل بناسکتی ہو۔ چناں چہ ٹیڈ کے لیے ایک خصوصی وہیل چیئر بنوائی گئی جو اسے کھڑے ہونے کی حالت میں لاسکتی تھی، اور ایک سال کے وقفے کے بعد وہ پھر آپریشن تھیٹر میں موجود تھا۔

مفلوج سرجن کی حیثیت سے پہلے آپریشن کے دوران ایک اور سرجن بھی ڈاکٹر ٹیڈ رومل کی مدد کے لیے موجود تھا مگر ڈاکٹر کو اس کی معاونت کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اور اب وہ ماہانہ اتنے ہی آپریشن کررہا ہے جتنے ماضی میں کیا کرتا تھا۔  پروگریس ویسٹ ہیلتھ کیئر، جہاں ڈاکٹر ٹیڈ رومل ملازم ہے، کی منتظم این ایبیڈ کہتی ہیں،’’ بہت جلد یہ ظاہر ہوگیا تھا ڈاکٹر ٹیڈ رومل کی صلاحیتیں ان کی معذوری سے متاثر نہیں ہوئی تھیں۔‘‘ ڈاکٹر ٹیڈ رومل اپنے پیشہ ورانہ فرائض اسی طرح انجام دے رہا ہے جیسے کہ مفلوج ہونے سے قبل دیا کرتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔