مُنصف کا منصب، اہلیت و فرائض

عبد القادر شیخ  جمعـء 12 جون 2020
’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیاکرو، خدا تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے، بے شک اﷲ سنتا اوردیکھتا ہے۔‘‘ فوٹو:فائل

’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیاکرو، خدا تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے، بے شک اﷲ سنتا اوردیکھتا ہے۔‘‘ فوٹو:فائل

معاشرے میں عدل و انصاف کی ضرورت سب سے زیادہ عدلیہ کے شعبے میں ہوتی ہے کیوں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہر جائز و ناجائز غلط و صحیح میں تمیز کی جاتی ہے، اس لیے اسلام نے عدالتی شعبے کے لیے ایک مکمل ضابطہ پیش کیا۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ’’اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، خدا تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے، بے شک اﷲ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (سورہ النساء) اسی سورہ مبارکہ میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوا، مفہوم: ’’تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں اپنا منصف (قاضی) نہ بنالیں اور جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بل کہ اس کو خوشی سے قبول کرلیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘

ان دونوں آیۂ مبارکہ میں انصاف اور فیصلے کا ذکر ہے۔ انصاف کرنے والے یا فیصلہ کرنے والے کو منصف کہا جاتا ہے، انگریزی میں اسے جج کہتے ہیں جب کہ عربی میں اسے قاضی کہا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں عدالتوں کے سربراہان کے لیے یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔

کتب میں قاضی کی تعریف میں یوں لکھا ہے: ’’قاضی اس منصف یا جج کو کہتے ہیں جو اسلامی قوانین کے مطابق ہر قسم کے مقدمات یعنی دیوانی اور فوج داری کا فیصلہ کرتا ہے۔ قاضی کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ اسے قرآن اور سُنّت اور دوسرے اسلامی ماخد قوانین پر عبور ہو۔ جن معاملات میں اسے قرآن و سُنّت اور دوسرے اسلامی مآخذ سے راہ نمائی نہ ملے تو اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ خود اس مسئلے پر اجتہاد کرسکے۔ اس میں دیگر صفات کا ہونا بھی ضروری ہے مثلاً عدل کرنے کی مکمل صلاحیت ہو، غیر جانب دار ہو۔‘‘

قاضی کا تقرر مسلمانوں میں ایک دینی فریضہ رہا ہے اس وقت کے حکم راں ہر علاقے میں مذکورہ بالا صلاحیتوں کے حامل افراد کو قاضی مقرر کرتے رہے ہیں۔ قاضی اسلامی قوانین کے مطابق عدالت کی تشکیل و ترتیب کرتا ہے۔ اس کا کردار اور عمل ایسا ہو کہ شکایت کنندہ اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہو دونوں کو مطمئن کرے۔ اس کا روّیہ دونوں سے یک ساں ہو اور فیصلہ سناتے وقت کسی بھی دباؤ یا لالچ کو پیش نظر نہ رکھے۔ اسی لیے اسلامی قوانین میں قاضی کو تحفہ لینے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ اگر ملزموں کے کٹہرے میں کوئی حاکم بھی کھڑا ہو تو اسے اپنے فیصلے میں کسی بھی قسم کا تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ وہ حاکم اس وقت اس کے سامنے ملزم کی حیثیت سے کھڑا ہے۔

حضورؐ کے وقت سے خلفائے راشدین کے دور تک انصاف کا شعبہ یعنی عدلیہ بالکل شفّاف اور مثالی رہی کیوں کہ طلوع اسلام کے فوراً بعد عادل کی ذمّے داری حضورؐ نے خود اپنے پاس رکھی۔ آپؐ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نمایاں طور پر قاضی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ خلفائے راشدینؓ کے ادوار میں سلطنت اسلامیہ کافی وسیع ہوچکی تھی اس لیے ہر صوبے اور علاقے میں قاضی کا تقرر ہوتا رہا۔ آنحضورؐ انصاف کے معاملے میں کبھی بھی سفارش یا دباؤ کو قبول نہیں فرماتے تھے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’جو صحیح فیصلہ نہیں کرے گا اس کا مقام جہنّم ہے۔‘‘

اسلام نے عدالت میں عادل قاضی کے تقرر کو شرط قراردیا ہے تاکہ وہ ہر طبقے کے لوگوں کو بلاتفریق انصاف فراہم کرسکے اور ہر حالت میں کسی کے بھی دباؤ میں نہ آئے۔ اسلام نے عدلیہ کے شعبے کو انتہائی حسّاس سمجھا ہے اور انتہائی احتیاط برتنے کے لیے کہا ہے۔ آنحضورؐ کا فرما ن ہے، مفہوم: اگر قاضی کسی بھی وجہ سے غُصّے کی حالت میں ہو تو اسے چاہیے کہ غُصّہ ختم ہونے تک کسی مقدمے کا فیصلہ نہ کرے کیوں کہ ایسی حالت میں اس سے انصاف کے تقاضوں میں کوتاہی کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔

عبداﷲ ابن عمرؓ بیان فرماتے ہیں: آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’انصاف کرنے والے (قاضی) اﷲ کے پاس داہنی طرف منبر پر ہوں گے۔ اﷲ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں اور یہ انصاف کرنے والے وہ حضرات ہیں جو حکم کرتے وقت اپنے بچوں اور عزیز واقارب میں اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے ان میں انصاف کرنے میں اپنے بے گانے کا لحاظ نہیں رکھتے۔‘‘ (مسلم)

عدل سے معاشرے میں توازن پیدا ہوتا ہے اسی لیے قرآن حکیم میں امّت مسلمہ کو امّت وسط کہا گیا ہے۔ ارشاد الہی کا مفہوم: ’’ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امّت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسولؐ تم پر گواہ ہوجائیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ) اس آیۂ مبارکہ میں لفظ وسط استعمال ہوا ہے جس کے معنی درمیان کے ہیں لیکن یہاں بہتر اور افضل کے معنی میں آیا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا، مفہوم: ’’ اسی اﷲ نے تمہارا نام مُسلم رکھا ہے اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ بن جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ، پس تمہیں چاہیے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اﷲ کو مضبوط تھام لو، وہی تمہارا مالک اور ولی ہے، پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار۔‘‘ (سورہ الحج)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔