عظیم منڈیلا: الوداع… الوداع

زاہدہ حنا  ہفتہ 7 دسمبر 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

لاہور سے آئی اے رحمان صاحب کا بلاوا تھا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ادیبوں اور فنکاروں کا قومی کنونشن۔ میں لاہور کے لیے نکل رہی تھی کہ وہ خبر آئی جس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ دل کا جانا ٹھہر گیا تھا… صبح گیا یا شام گیا۔ وہ آزادی کا روشن ستارہ تھا، اس کے سینے میں سانس لیتا ہوا وہ طوطیٔ شکر مقال آزاد ہوا۔ جس نے دنیا کو عدم تشدد کے راستے جمہوریت اور آزادی کو جیت لینے کا انداز سکھایا۔ دنیا کی طویل ترین قید کاٹنے والا وہ زندانی جس نے اپنی قوم کی آزادی کو اپنا ایمان بنا لیا تھا۔ وہ قیدِ حیات و بندِ غم سے آزاد ہوا۔ نسلی امتیاز کے دیو استبداد کو عدم تشدد کے فلسفے سے پچھاڑنے والا چلا گیا۔ اس نے یہ فلسفہ گوتم بدھ اور گاندھی سے سیکھا تھا۔ اس کی جدوجہد ہمارے برصغیر کی تاریخ اور تہذیب سے جڑی ہوئی تھی۔

منڈیلا کی جدوجہد کو میں نے بار ہا خراج تحسین ادا کیا لیکن آج خراج عقیدت ادا کرنے کا مرحلہ آن پہنچا ہے تو دل کا عجب عالم ہے۔

سیلاب گریہ درپے دیوار و در ہے آج

یہ وہی تھا جس نے کیپ ٹائون میں 1955ء کی عوامی کانگریس کے اجتماع میں آزادی کا منشور پیش کیا تھا۔ یہ منشور منڈیلا کے اپنے الفاظ میں آزادی کی جدوجہد کے لیے روشنی کا مینارہ بن گیا۔ اپنی خود نوشت ’آزادی کا طویل سفر‘ میں منڈیلا نے لکھا ہے کہ

’’امریکی اعلانِ آزادی، فرانسیسی اعلان حقوق انسانی اور اشتراکی منشور کی سیاسی دستاویزات کی طرح ’منشور آزادی‘ بھی سیاسی نصب العین اور شاعرانہ تصورات کا امتزاج تھا۔ اس میں نسلی امتیاز کے خاتمے اور سب کے لیے مساوی انسانی حقوق کی تائید کی گئی تھی اور ان سب لوگوں کو جو جنوبی افریقا میں جمہوریت کے فروغ اور نسلی امتیاز کے خاتمے کی خواہش رکھتے تھے دعوت دی گئی تھی۔ اس میں عوام کی امنگیں اور خواب شامل تھے، آزادی کی جدوجہد اور قوم کے مستقبل کا ایک خاکہ تھا۔ اس کا آغاز ان لفظوں سے ہوتا تھا:

ہم جنوبی افریقا کے عوام کا اعلان دنیا جان لے! کہ جنوبی افریقا، اس میں بسنے والے کالے اور سفید فام شہریوں کی ملکیت ہے اور کوئی حکومت اس وقت تک منصفانہ جواز نہیں رکھتی جب تک اس کی بنیاد عوامی آرزوئوں پر نہ ہو۔

ہمارے عوام کو ان کی جائیداد، آزادی اور امن کے پیدائشی حق سے ایک ایسی حکومت نے محروم کر دیا ہے جس کی بنیاد ناانصافی اور عدم مساوات پر ہے۔ ہمارے عوام اس وقت تک خوشحالی نہیں دیکھ سکتے جب تک اخوت، مساوی حقوق اور مواقعے حاصل نہیں کر پاتے۔ صرف عوامی امنگوں کی نمائندگی کرنے والی جمہوری ریاست لوگوں کو رنگ، نسل، جنس اور مذہب کے امتیاز کے بغیر ان کے پیدائشی حقوق کا تحفظ دے سکتی ہے۔

اس لیے جنوبی افریقا کے تمام سفید، کالے، دیہاتوں کے عوام اور بھائی سب مل کر مشترکہ و مساوی بنیادوں پر آزادی کے منشور کو منظور اور قبول کرتے ہیں۔ ہم مشترک جدوجہد کا حلف اٹھاتے ہیں کہ اس کے لیے اپنی طاقت اور فراست کے استعمال میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ تاوقتیکہ منشور کے مطابق جمہوری تبدیلیاں وقوع پذیر نہ ہوں۔

ہمارے مشترکہ انعام کو اس مسرت بخش امن سے ناپا جانا چاہیے جس کو فتح نصیب ہو گی۔ اس لیے کہ مشترکہ انسانیت کو، جو سفید اور سیاہ کو ایک نسل میں پیوست کرتی ہے، ہم میں سے ہر ایک شخص کو کہنا ہو گا کہ ہم سب جنت کے باسیوں کی طرح اکٹھے رہیں گے۔

لہٰذا ہم زندہ رہیں گے، اس لیے کہ ہم ایسا سماج تخلیق کریں گے جو اس کا اعتراف کرے گا کہ تمام لوگ برابری کی بنیاد پر پیدا ہوئے ہیں اور جس میں ہر فرد بشر ایک ہی معیار کے طرز زندگی کا، آزادی، خوشحالی اور انسانی حقوق اور منصفانہ حاکمیت کا حق دار ہو گا۔

ایسے سماج کو پھر کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ اس میں ضمیر کے قیدی ہوں اور اس میں انسان کے بنیادی حق پائمال کیے جا سکیں۔

نہ اس بات کی اجازت ہو گی کہ ایک بار حق حکمرانی غصب کرنے والے، جو اپنے رذیل مقاصد کے حصول کے لیے عوام سے ان کا حق حاکمیت سلب کرنے کی تاک میں رہتے ہیں، پرُامن تبدیلیوں کی راہوں میں رکاوٹیں پیدا کر سکیں۔

جدوجہد آزادی کے اس اعلان نامے کی گونج ساری دنیا کے حریت پسندوں تک پہنچی۔ فیضؔ صاحب ان دنوں منٹگمری جیل میں تھے۔ نعرۂ آزادی کی یہ دھمک جیل کی سنگلاح دیواروں کو مرتعش کرتی ہوئی ان تک پہنچی اور انھوں نے ایک رجز لکھا:

آ جائو، میں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ

آ جائو، مست ہو گئی میرے لہو کی تال

آ جائو ایفریقا

آ جائو، میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا

آ جائو، میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال

آ جائو، میں نے درد سے بازو چھڑا لیا

آ جائو، میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال

آ جائو ایفریقا

پنجے میں ہتھکڑی کی کڑی بن گئی ہے گرز

گردن کا طوق توڑ کے ڈھالی ہے میں نے ڈھال

آ جائو ایفریقا

یہ 1993ء تھا جب نیلسن منڈیلا اور ایف ڈی کلرک کو نوبیل کا مشترکہ امن انعام دیا گیا۔ اس موقع پر منڈیلا نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا تھا:

’’ ہمیں قوی امید ہے کہ اپنی تخلیق نو کی جہد کے دوران جنوبی افریقا نئی دنیا کی اس کائنات اصغر کی طرح ہو گا جو خود اپنی تخلیق میں کوشاں ہے۔ اس کائنات اصغر کو ایک جمہوری دنیا ہونا چاہیے جس میں احترام انسانیت ہو، جو افلاس کی ہولناکی سے، بھوک سے، محرومیوں سے اور جہالت سے پاک ہو، جس میں خانہ جنگیوں اور بیرونی جارحیت کا عذاب نہ ہو، جو لاکھوں افراد کو ہجرتوں کی صعوبتوں پر مجبور نہ کرے۔ جنوبی افریقا کی ریاست اور براعظم افریقا کا جنوبی منطقہ جس عمل میں مصرف ہے ہم سب کو اشارے اور ترغیب دے رہا ہے کہ ہم ان طوفانی لہروں کو سر کریں اور اس علاقے کو ایک ایسی زندہ مثال بنائیں، پوری دنیا کے صاحبان ضمیر جس کی خواہش کریں۔ ہمارے نزدیک نوبیل امن کا یہ انعام ان معاملات کی ستائش کے لیے نہیں ہے جو گزر چکے ہیں اور جاری ہیں۔ ہم ایسی آوازیں سن رہے ہیں جو کہتی ہیں کہ یہ ایک اپیل ہے ان کائناتی لبوں کی طرف سے، جنھوں نے ہمیشہ اور ہر جگہ پر نسلی امتیاز کے نظام کا اختتام چاہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی باقی ماندہ زندگی کو اپنے ملک کے بے نظیر، دکھ بھرے تجربات کے بیان کرنے میں صرف کریں، کہ عملی طور پر انسان کے لیے جمہوریت، انصاف، امن، نسلی عدم امتیاز، جنسی مساوات ہر فرد کے لیے خوشحالی، ایک صحت مند ماحول، برابری اور عوام سے یکجہتی ہو۔ اس اپیل سے متاثر ہو کر، جو منزلت آپ نے ہمیں عطا کی ہے، ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم بھی، جس قدر ممکن ہو، اپنی دنیا کی تجدید کریں گے تا کہ مستقبل میں کوئی بھی ’’کرۂ ارض کا ’’بد نصیب‘‘ نہ کہلائے۔

اس بات کو 20 برس گزر گئے ہیں اور ان برسوں کے دوران جنوبی افریقا کے زمین و آسمان بدل گئے ہیں۔ ایک سیاہ فام اور دوسرا سفید فام مدبر جنھوں نے مل کر یہ ممکن بنایا کہ جنوبی افریقا آزاد ہو سکے اور وہاں کے سیاہ فام غلامی کی 500 برس پرانی آہنی زنجیر سے آزاد ہو سکیں۔

یہ سطریں لکھتے ہوئے خالد محمود بہت یاد آئے جو ابتدائے عمر میں منڈیلا کے عشق میں گرفتار ہوئے اسی گرفتاری نے ان سے منڈیلا کی خود نوشت A Long Walk to Freedom کا اردو ترجمہ کرایا جسے ’’نگارشات‘‘ نے شائع کیا۔ بیسویں صدی کے اس اجلے اور روشن چہرے والے کی زندگی اور جدوجہد کو جاننا اور سینے میں اتارنا ہو، تو اس کتاب کو پڑھئے۔ تشدد، انتہا پسندی اور جنون کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، جہاں لوگوں کو ذبح کر کے ان کے سر پیڑوں سے لٹکائے جاتے ہوں، وہاں منڈیلا کی یہ خود نوشت ہماری انگلی تھام کر ہمیں تشدد کی بند گلی سے عدم تشدد کے وسیع سبزہ زاروں میں لے جاتی ہے۔

منڈیلا کا رشتہ ہمارے برصغیر سے گہرا تھا۔ عشقِ آدم میں گرفتار ایسے ہی سودائیوں کے لیے اردو کے صاحب عالم مرزا اسد اللہ غالبؔ نے کہا تھا:

کون ہوتا ہے حریفِ مے مرد افگنِ عشق

ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔