آسان زندگی کی تلاش

عبدالقادر حسن  ہفتہ 7 دسمبر 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

انسانی احساس اور مزاج کے مصور شاعر منیرنیازی کا ایک شعر ہے:

چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر

ایک ایسی زندگی جو اس قدر مشکل نہ ہو

آج بدقسمتی سے پوری پاکستانی قوم کی یہی خواہش ہے ایک شاعر کی نہیں اس کے بیس کروڑ ہموطنوں کی یہی خواہش ہے کہ انھیں کسی نہ کسی طرح اس زندگی سے نجات مل جائے جس میں سے وہ جیسے تیسے گزر رہے ہیں لیکن اس زندگی کو وہ چاہتے نہیں ہیں۔ احساس محرومی کی ایک بڑی وجہ اس قوم کی کچھ پہلے کی زندگی ہے جو اس قدر مشکل ہرگز نہ تھی بلکہ ایک آسودہ زندگی تھی۔ بری بھلی نوکری مل جاتی تھی اور اس ملک کے مشہور زمانہ کھیت اپنے بیٹوں کو بھوکا نہیں رہنے دیتے تھے۔ ملک میں صنعت کا پہیہ چلتا تھا جو عام آدمی کو نوکری بھی دیتا تھا اور اس پر روزگار کے نئے راستے بھی کھولتا تھا۔ خریداروں کی جیب خالی نہیں ہوتی تھی اس لیے کوئی ریڑھی والا بھی رات کو بھوکا نہیں سوتا تھا۔ لوگوں کو چھت میسر تھی اور ہم لوگ پڑوسی مد مقابل بھارت پر افسوس کرتے تھے کہ اس کی بڑی آبادی فٹ پاتھوں اور جھگیوں میں زندگی بسر کرتی ہے۔ فٹ پاتھ پر پیدا ہوئے اور فٹ پاتھ پر مرگئے، بھارت میں عام تھا جب کہ پاکستان میں کوئی چھت کے بغیر نہ تھا اور کسی کا تن ننگا نہیں تھا۔

پاکستان اپنے خطے کا خوشحال ترین ملک تھا۔ سری لنکا، نیپال، بھارت، مالدیپ وغیرہ سب اس سے غریب تھے۔ یہ عجیب بات تھی کہ بھارت کے پڑوسی کہا کرتے تھے کہ ہمیں بھارت سے پاکستان بچائے گا کیونکہ بھارت ہر پڑوسی کا دشمن تھا۔ پھر کبھی بات ہو گی کہ بھارت اندر سے خوفزدہ لوگوں کا ملک تھا اس لیے ہر پڑوسی سے خوفزدہ ہو کر اس سے لڑتا تھا۔ سری لنکا کا تو اس نے دہشت گردی اور تخریب کاری سے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ بدھ مت کا پیرو کار یہ ملک فوج میں یقین نہیں رکھتا تھا اور بھارت اس سے فائدہ اٹھاتا تھا۔ پاکستان کے ایک سابق صدر ضیاء الحق نے سری لنکا کے لیڈروں کو فوج بنانے پر قائل کیا اور اس فوج کی تشکیل میں ان کی بھر پور مدد بھی کی جس کے بعد رفتہ رفتہ بھارت خاموش ہو گیا۔

اس خطے میں پاکستان کی خوشحالی ہی نہیں تھی اس کی فوجی طاقت بھی اس کی برتری کی ایک اہم وجہ تھی۔ ان ملکوں کے دورے کا جب بھی موقع ملا تو گفتگو میں کہا گیا کہ پاکستان ہمیں بھارت سے بچائے گا اور تو اور دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال میں بھی بھارت کی یہی شہرت تھی۔ بیان یہ کر رہا ہوں کہ وہ زمانہ کوئی پرانا زمانہ نہیں تھا جب پاکستان ایک ہنستا کھیلتا اور خوشحال ملک تھا۔ دو وقت کی دال روٹی ایک محاورہ ضرور تھی لیکن پاکستان میں حقیقت یہی تھی۔ دال جو گندم کی طرح ایک اناج ہے اس کے ذکر سے شہنشاہ بابر کی یہ بات یاد آئی جو اس نے تزک بابری میں لکھی ہے کہ ہندوستان میں لوگ اناج کے ساتھ اناج کھاتے ہیں اور اس پر تعجب ظاہر کیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں وہ زمانہ گزر گیا جب یہاں بھی اناج کے ساتھ اناج کھایا جاتا تھا۔

اس زمانے کو ہماری نئی خوشحالی کھا گئی، ہم نے کئی برس اچھی حالت میں بسر کر دیے لیکن پھر کسی کی نظر نہیں لگی اپنے حکمرانوں کی کرپشن لگ گئی جو صرف مال کھانے تک محدود نہ تھی بلکہ انتظامیہ کی نااہلی بھی تھی اور ناانصافی عام تھی، آج لوگ اپنے جائز حق کے لیے بھی دھکے کھا رہے ہیں۔ بدامنی کی یہ حالت ہے کہ کوئی بھی اپنے گھر کے اندر بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس پر بازار کی گرانی نے حد کر دی ہے۔ اس ملک میں زمین کی پیداوار خواہ وہ دال ہو یا سبزی اور گندم سب سے سستی تھی۔ قیمت کا نہیں پسند ناپسند کا سوال تھا۔ بازاروں اور منڈیوں میں اشیائے خوردنی کے ڈھیر لگے تھے۔ معیار اور پسند کا سوال تھا نایابی کا نہیں۔ اس گرانی کے اسباب بہت ہیں اور سب کے سب مصنوعی اور غلط حکمرانی کی پیداوار ہیں، حالات اس قدر بگڑتے جا رہے ہیں کہ عام آدمی بے حد پریشان اور تنگ ہے جس کی ترجمانی ہمارے ایک شاعر نے کر دی ہے۔

آج کے پاکستان میں امن علاج اور تعلیم کی گرانی اشیائے خوردنی سے کم نہیں۔ سرکاری اسکول بیکار ہو چکے ہیں اور پرائیویٹ اسکول کاروبار بن گئے ہیں یعنی تعلیم بیچنے کی دکانیں کھلی ہیں اور فیسیں اچھے بھلے کھاتے پیتے آدمیوں کے بس سے باہر ہو گئی ہیں۔ ایک مریض جو ڈاکٹروں کے زیر علاج ہیں کہہ رہے تھے کہ خودکشی حرام موت ہے اور خدا کی مرضی کہ وہ کب موت عنایت کرتا ہے ورنہ اس علاج کے ساتھ زندہ رہنے سے تو مر جانا زیادہ بہتر ہے۔ اب دوائوں کی قیمتیں پھر بڑھ گئی ہیں۔ دوائیوں کی قیمتوں کو قابو کرنے کی ایک انقلابی کوشش بھٹو کے ایک انقلابی وزیر نے کی تھی۔ انھوں نے جینرک دوائیں رائج کرنے کی کوشش کی جو دوا ساز کمپنیوں کی تیار کردہ دوائوں سے سستی ہوتی ہیں اور ان کی تیاری میں کسی کمپنی کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ موصوف شیخ رشید صاحب نے جو دمہ کے مریض تھے پہلے تو اپنی دوائوں کا ذخیرہ جمع کر لیا اور پھر یہ نئی اسکیم رائج کرنے کی کوشش کی۔

بھٹو صاحب جو کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے اپنے انقلابی وزیر کی یہ حرکت مذاق میں بیان کر دی۔ وزیر صاحب کی یہی بے ایمانی تھی کہ یہ اسکیم فیل ہو گئی۔ ان وزیر صاحب کا ایک لطیفہ بھی سن لیجیے، وزیر شیخ صاحب بھٹو صاحب سے ملنے گئے اور جب چلے گئے تو بھٹو صاحب نے وہاں پہلے سے بیٹھے مصطفیٰ کھر سے کہا کہ ہمارے اس انقلابی وزیر نے جوتے جرابیں اور سوٹ قمیضیں سب غیر ملک کے پہن رکھے تھے پھر بھٹو صاحب نے ان کے لباس کا تعارف کرایا کہ کس کمپنی کے بنے ہوئے تھے۔ جس ملک کے مشہور انقلابی ایسے جعلی وزیر ہوں اس ملک کی عام زندگی کی وہی حالت ہونی تھی جو آج ہو چکی ہے۔ آج کے حکمران کتنے جینوئن ہیں اس کی مثال طارق ملک کی برطرفی بیان کر رہی ہے۔

مقصد پاکستانی عوام کو یہ بتانا ہے کہ آپ کے مسائل خواہ وہ گرانی ہو یا بدامنی حل نہیں ہوں گے اس لیے آپ دن رات فون کر کے مجھے تنگ نہ کریں کہ یہ سب میرے اختیار سے باہر ہے لیکن آپ کی طرح میری خواہش سے باہر نہیں ہے سوائے اس آرزو کے مجھے خدا اس مشکل زندگی سے بچا لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔