ڈرو اس وقت سے

حمید احمد سیٹھی  اتوار 8 دسمبر 2013
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

شاید چار سال پرانی بات ہے، میرا ایک دوست یورپ سے اپنے والدین اور رشتہ داروں سے ملنے پاکستان آیا ہوا تھا۔ جب دوستوں کی باری آئی تو وہ میرے پاس بھی چلا آیا۔ ہمارے پاس ایسے دوستوں کو نہ کوئی دکھانے کی چیز ہوتی ہے نہ گھمانے کی جگہیں۔ ہم انھیں صرف کھانے کھلاتے ہیں، اگر یہ مہمان خواتین ہوں تو وہ کپڑا مارکیٹوں اور درزیوں کی دکانوں کی دہلیزیں اکھیڑنے میں دوران قیام زیادہ وقت صرف کرتی ہیں۔ میں اپنے اس دوست کو اس کی حسب خواہش پرانے شہر کی ایک مشہور دکان سے بکرے کے پائے کھلا کر ایک نئی آبادی کی بڑی سڑک کی ڈرائیو پر لے گیا۔ یہ سڑک اس وقت لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نکلی ہی تھی اس لیے جگمگا رہی تھی۔ اس دوست نے ہر سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر ایک سی این جی اسٹیشن دیکھا تو بولا کہ معلوم ہوتا ہے ملک میں قدرتی گیس کے بے شمار ذخائر دریافت ہو چکے ہیں اور اب تو پٹرول کی امپورٹ کا خرچہ بھی بچ جاتا ہو گا۔

اپنے دوست کی چار پانچ سال پرانی بات یاد کر کے اب مجھے ہنسی آتی ہے اور کبھی حکومت بااختیاروں کی لوٹ سیل دکانداریوں پر غصہ آتا ہے کہ ظالموں کو ملک اور عوام پر بالکل رحم نہیں آتا۔ بعض اوقات تو گمان ہوتا ہے کہ یہاں بھیڑیں رہتی ہیں جن کے رکھوالے بھیڑیے ہیں نہ کہ گلہ بان اور نگہبان۔

چند روز کے بعد پھر اس دیرینہ دوست کے ساتھ ملاقات کا پروگرام بنا تو میں اسے شہر کے سب سے مہنگے ریستوران میں کھانے پر لے گیا جس کے سامنے گاڑی رکتے ہی وہاں کا ملازم valet پارکنگ کی خدمت کے لیے کار کی چابی لینے میرے سامنے مودٔب آ کھڑا ہوا۔ میں نے کار کی چابی اسے پکڑائی تو ریستوران کی اسمارٹ ملازمہ نے دروازے پر ہمارا استقبال کر کے پوچھا کہ کیا آپ نے ٹیبل کی ریزرویشن کرا رکھی ہے، میرے انکار پر اس نے بتایا کہ صرف دو ٹیبل خالی ہیں، آپ چوائس کر لیں۔ ہم ایک جگہ بیٹھ گئے تو میرے مہمان نے اردگرد دیکھا، میزوں اور مخلوق کا جائزہ لینے کے دوران اس کی نظریں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’اوئے گڑھی شاہو لاہورکی پیداوار یہ کوہ قاف کے نہیں مقامی آبادی کے لوگ ہیں اگر میں تمہیں یہاں سے ایک کلومیٹر دور کسی ریستوران میں لے جاؤں تو تم بیرے سے کہو گے، جاؤ پہلے ہاتھ صابن سے دھو کر آؤ پھر چائے لاؤ۔‘‘

ہم نگاہ و شکم کی بھرپور ضیافت کے بعد ریستوران سے باہر نکلے تو میرے دوست نے آئندہ روز شام کی فرمائش میرے سامنے رکھ دی۔ وہ شہر کی کسی پسماندہ بستی کا دورہ تھا۔ میں دوسری شام اسے چھ سات کلومیٹر دور نالے کے اس پار بستی میں ڈرائیو کر کے لے گیا۔ کیچڑ بھری گلیوں میں داخل ہوئے تو اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ ’’کل کار کی سروس میں کرا دوں گا۔‘‘ اس آبادی میں کچے پکے مکان تو بہت تھے لیکن شام کے بعد یہ بے رونق اور بے آباد سی ہوتی جا رہی تھی پھر تاریکی اترنے لگی اور فضا میں ہلکی بدبو شامل ہونے لگی۔ ایک کھوکھا آباد اور لالٹین سے روشن پایا۔ وہ چائے کا کھوکھا تھا۔ ہمارے وہاں رکنے پر وہاں باتیں کرتے لوگ خاموش ہو گئے، وہ سمجھے ہم کسی محکمے کے لوگ ہیں۔ وہاں ہم نے بھی چائے پی۔ وہاں سڑک‘ گیس اور پینے کے پانی جیسی کوئی سہولت موجود نہ تھی۔ میرے پوچھنے پر دوست نے کہا کہ وہ دس سال قبل ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ والدین کے اصرار پر اور تبدیلی کا جائزہ لینے آیا ہے۔

اس سے اگلے ہفتے اس نے مجھ سے کسی بڑے اسٹور یا مال میں گھمانے کی فرمائش کی۔ میں پہلے اسے ایک پسماندہ بستی کی چھوٹی موٹی دکانوں پر لے گیا۔ شام ہوئی تو ایک مشہور ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں لے گیا۔ اسٹور کا ایک چکر اس نے میرے ہمراہ تیزی سے اور دوسرا دھیرے دھیرے چیزوں کا جائزہ لیتے‘ ان کا میک پڑھتے اور قیمتیں دیکھتے ہوئے لگایا۔ ایک امیر کبیر آدمی کے مکان کے مختلف کمروں بشمول کچن اور برآمدہ‘ لان اور بیرونی گیٹ تک ممکنہ ہر ضروری اور غیر ضروری چیز کو اسٹور میں برائے فروخت پا کر اس نے دو گھنٹے کی ونڈو شاپنگ کے بعد مجھ سے کہا ’’اس اسٹور میں کم و بیش ہر وہ امپورٹڈ اشیاء موجود ہیں جو یورپ و امریکا کے شاپنگ مال میں پائی جاتی ہیں۔‘‘

اس نے مجھ سے سوال کیا کہ وہ اشیاء جو میں نے اس اسٹور میں دیکھی ہیں اور ایسے اسٹور ملک میں بیسیوں نہیں سیکڑوں موجود ہیں تو بتاؤ اگر ان امپورٹڈ اشیاء میں سے اسی فیصد بھی ملک میں موجود نہ ہوں تو کیا کوئی مصیبت آ جائے گی یا لوگوں کا ان کے بغیر یا ان کے مقامی متبادل کے ساتھ گزارا ہو سکتا ہے۔ مہنگی موٹروں اور بے شمار سامان تعیش کیا پاکستان جیسے قرضوں میں دبے بھکاری اور غریب ملک کے لیے ضروری ہیں۔ میں نے شروع ہی میں ارادہ کر لیا تھا کہ میں اسے ہر چیز اور جگہ دکھاؤں گا لیکن کسی سوال کا جواب دینے سے گریز کروں گا۔

میری خاموشی پر اس نے کہا کہ ’’میں تمہارے بغیر بھی اپنے پیارے ملک کے چند شہروں میں گھوم چکا ہوں اور جانتا ہوں کہ صدیوں سے اور پھر آزادی کے بعد اب نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے یہاں دو قسم کی مخلوق بستی ہے۔ اول دولت مند راشیوں‘ ڈکیتوں‘ ٹیکس چوروں‘ پیشہ ور حکمرانوں‘ کمیشن مافیا کی‘ دوم محنت کشوں‘ سفید پوشوں‘ بھوکے ننگے بھکاریوں اور ناخواندہ و بے ہنر انسان نما جانوروں کی۔ تم لوگ امیروں کے سامان تعیش کی شکل میں پچیس ارب ڈالر سے زیادہ کی امپورٹ کرتے ہو اور بمشکل پندرہ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کر کے چھلانگیں لگاتے ہو۔ میں تو ایک ہفتے کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر پردیس چلا جاؤں گا اور کڑھنے کے سوا کچھ نہ کر سکوں گا۔ تم ہی حکمرانوں کی منت کرو کہ وہ ملک پر اور اس کے عوام پر رحم کریں اور مالی‘ انتظامی‘ تعلیمی کے علاوہ صحت‘ عدل و انصاف‘ روزگار کی ایسی پالیسیاں بنائیں جو عوام کے لیے ہوں نہ کہ صرف خواص کے لیے تا کہ سنگ و خشت مقید رہیں اور سگ بھی مادر پدر آزاد نہ پھریں۔‘‘ میں اس دوست کے طویل لیکچر پر بھی چپ رہا تو وہ پھر بولا کہ ’’ڈرو اس وقت سے کہ سگوں اور بھیڑیوں کی سرکوبی کے لیے خود عوام ہی سنگ بدست نہ ہو جائیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔