جب جھوٹ نے سچ کا لباس چرایا

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 13 جون 2020
barq@email.com

[email protected]

ہمارے پروفیسر علامہ اور لائر’’چوم نومسکی‘‘نے کورونا وائرس کا ایک زبردست حل پیش کیا ہے یہ ہمارے پروفیسر ڈاکٹر علامہ اور لائر وہ مشہور امریکی پروفیسر ’’نوم چومسکی‘‘نہیں ہے جس کے حوالے اور اقوال زرین ہماری دانش گاہوں میں کثرت سے دیے جاتے ہیں، ان دانش گاہوں میں جن پر ’’بھوت دانشوروں‘‘کا قبضہ ہے وہ تو امریکی ہے اور جب امریکی ہے تو اس کا سب کچھ امریکی یعنی مقدس ہوجاتاہے اور مقدس چیزوں پر نکتہ چینی ’’کفر‘‘کے ذیل میں آتی ہے۔

ہمارا دیسی ہوم میڈ پروفیسر علامہ اور لائر خالص ’’دیسی گھی‘‘ہے اس کے دیسی ہونے کی دلیل اس سے بڑی اور کیا ہوگی کہ کبھی اپنے گاؤں کی حدود سے باہر نہیں گیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر علامہ اور لائر’’چوم نومسکی‘‘کا یہ قلمی نام بھی اصل میں دیسی ہی ہے یعنی۔ ’’چوم۔نو۔مسکی ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ’’چومو۔مسکراؤ مت‘‘ یا مسکراؤ مت صرف چومو۔انگریزی میں غالباً کس،نو اسمائل۔ مطلب بنتاہے(kiss.no.smail) ’’چوم۔  نومسکی‘‘ دراصل آپ بالکل ٹھیک پہچان گئے یہ نام’’چوم نوُمسکی‘‘ کوئڈ19 ہی کا قلمی نام ہے وہ جب دانش بگھارتاہے تو اسی نام سے بگھارتا ہے اور ابھی تازہ تازہ تصنیف اس کی جو سامنے آئی ہے اس کا نام ہے ’’سچا جھوٹ یا جھوٹا سچ‘‘۔کتاب میں پہلے تو موصوف یعنی پروفیسر ڈاکٹر علامہ اینڈ لائر نے ایک کہانی پیش کی ہے۔

آپ بھی سنیے۔سچ اور جھوٹ دونوں سگے بھائی تھے جب جوان ہوئے تو ان کی بوڑھی ماں’’دنیا‘‘نے ان سے کہا کہ بس بہت ہوگیا میں نے تم کو جتنا پال لیا اور جتنا پوسنا تھا پوس لیا۔اب تم شہر جاؤ اور کمائی کے لیے ’’لگے رہو منا بھائی‘‘ہوجاؤ۔ دونوں ماں کی ہدایت پر شہر ناپرسان کی راجدھانی’’انعام آباد اکرام آباد‘‘کی طرف چل پڑے جو اس زمانے کا عروس البلاد بھی تھا دنیا بھر میں یادگار بھی، مرکز شادباد اور منزل مراد بھی تھا۔جہاں اچھی کارکردگی پر سرکاریوں کو نقد انعامات اور غیرسرکاریوں کو اکرامات ملتے تھے، اس لیے اس کا نام انعام آباد اکرام آباد تھا۔

سچ اور جھوٹ چل پڑے راستے میں ایک بہت ہی خوبصورت جھیل نظر آئی تو جھوٹ جو بہت ہی ہوشیار مکار اور عیار تھا، اپنے بھائی سچ سے جو بھولا بھالا سالہ اور حماقت کا پیالہ تھا، سے کہا کہ آؤ ذرا اس تالاب میں نہائیں تاکہ شہر میں نئے نویلے،گالے گبلے اور بت بتدیلے داخل ہوں۔دونوں نہانے لگے، بے چارا سچ تو نہانے میں مصروف تھا جب کہ جھوٹ ہنر دکھانے میں مصروف تھا۔

چنانچہ وہ چپکے سے باہر نکلا سچ کا لباس پہن کر شہر کی طرف چل پڑا اور اپنا لباس کہیں مٹی میں دبالیا۔ سچ کو پتہ چلا تو چڑیا اس کا کھیت چرمگھ کر اڑچکی تھی، بیچارے نے ایک دو مرتبہ بغیر لباس کے باہر نکلنے کی کوشش کی تو لوگ اس کے پیچھے پڑٹھٹھا اڑانے لگے، بیچارا جلدی سے پلٹ کر تالاب میں چھپ گیا اور ابھی تک تالاب میں قید ہے، نکلتاہے تو لوگ مذاق اڑاتے ہیں، دیوانہ پگلا سمجھ کر پتھر مارتے ہیں یا منہ چھپا کر بھاگ اٹھتے ہیں جب کہ جھوٹ سچ کا لباس پہنے شہر پہنچ چکاہے، لوگوں نے اسے خوبصورت لباس میں دیکھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا ہوا ہے۔خاص طور پر سیاسی اور سرکاری حلقوں میں تو اس کی پذیرائی کے لیے لوگ آنکھیں بچھائے رہتے ہیں، ہر طرف سے اس پر انعامات اکرامات کی بارش ہورہی ہے اور ساتھ ہی ’’اکرامات‘‘ کی بھی جسے یہاں کی مقامی زبان میں وزارتیں سفارتیں، کبارتیں اور بشارتیں کہتے ہیں

سب کچھ خدا سے مانگ لیا ’’یہاں پہنچ کر‘‘

اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اتنا مال ہے

اس کہانی کے بعد علامہ پروفیسر ڈاکٹر اینڈ لائر نے کہاہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ دنیا میں جھوٹ کوئی پسند نہیں کرتا اور دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بھی یہی ہے کہ دنیا میں جھوٹ کو ناپسند کرنے والا ایک شخص بھی نہیں ہے بلکہ اس نے فارسی میں اپنے نظریے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ

بسیار دروغ گو کہ عزیز جہاں شوی

ہرگز نہ میرد آن کہ دلش زندہ شد بہ جھوٹ

ثبت است برجریدہ عالم دوام’’او‘‘

ہمارے اس چوم نومسکی یعنی ڈاکٹر پروفیسر علامہ نے کتاب کا مہار کرنٹ افئیر کی طرف موڑتے ہوئے لکھا کہ وہ آج اسی وقت اس کورونا عرف کوئڈ نائنٹین کو ختم کرسکتے ہیں اگر موجودہ انصاف دار حکومت میرے ساتھ انصاف یعنی نصف نصف پر راضی ہوجائے، نصف نصف سے آپ کوئی اور مراد مت لیجیے گا بلکہ علامہ چوم نومسکی کا مطلب ہے کہ نصف کام وہ خود کریں گے باقی نصف کام انصاف دار کرلیں۔لیکن شرط یہ ہے کہ انصاف دار ان کے ساتھ زبانی کلامی وعدہ یا اولین ترجیح نہ کریں بلکہ باقاعدہ باوضو ہوکر پکی پکی قسم کھالیں کہ وہ نصف سچ اور نصف جھوٹ بولیں پورا پورا جھوٹ نہیں بولیں گے۔

کورونا عرف کوئڈ نائنٹین کے بارے میں اپنی تجویز بلکہ منصوبے بلکہ پلان کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر علامہ ’’چوم نومسکی‘‘نے لکھا ہے کہ یہ بالکل ایک سادہ نسخہ ہے جس پر عمل کرنے سے وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ کوئڈ نائنٹین سے کوئی نہیں مرے گا۔ انھوں نے کہاہے کہ تجویز یا مشورہ یا پلان بہت سادہ ہے اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ’’نہ کرنے‘‘کی زیادہ ضرورت ہے یعنی سرکاری تھیلی کے سارے چٹے بٹے صرف جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔

اس کے بعد اگر کوئی کورونا سے مرا تو میری ذمے داری۔لوگ مریں گے تو ضرور کہ موت سے کس کو رستگاری ہے لیکن کورونا عرف کوئڈ نائنٹین سے نہیں مریں گے بلکہ کورونا کے خلاف’’جان پر کھیل کر‘‘ شہید ہوں گے جس طرح آج کل سرکاری لوگ مرتے ہیں کیونکہ اب تک ایسا کوئی’’سرکاری‘‘نہیں مرا ہے جو کورونا کے خلاف’’جان پر کھیل کر‘‘نہ مرا ہو، بہت سے ایسے بھی ہیں کہ کورونا کے بجائے ’’شراب‘‘کو ختم کرنے کی جنگ میں کام آئے لیکن وہ بھی کورونا کے خلاف جان پر کھیل کر مرے ہیں۔نچوڑ اس پورے قصے کا یہ ہے کہ آپ کورونا کا نام ہی نہ لیں کوئی اور نام لیں قضائے الہیٰ، ملک الموت یاکسی ڈاکٹر کانام لیا کیجیے، کوئی بھی کورونا سے نہیں مرے گا ویسے بھی کوئی کورونا یا کسی بھی چیز سے نہیں مرتا قضائے الہیٰ عرف ڈاکٹر عرف دواسازوں کے ہاتھوں مرتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔