کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 14 جون 2020
ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

ہم ایسے لوگ ہنر جانتے ہیں چاہت کے۔ فوٹو: فائل

غزل


اس اداکاری کا الفت کی، ثمر بنتا ہے جی
کم سے کم بھی اس کا ہدیہ آسکر بنتا ہے جی
جسم سے تو مٹ چکا لیکن سمجھ آتی نہیں
داغ اک اب بھی ہمارے عکس پر بنتا ہے جی
ٹوٹ جاؤں گا پڑا بے سود ایسے سو، نیا
توڑ کر مجھ سے بنا لوکچھ اگر بنتا ہے جی
رقص کرتا ہوں کنارے پر کھڑا ہو کے میں جب
دیکھ کر یہ رقص، پانی بھی بھنور بنتا ہے جی
اُس کے غم میں بھی نکل آئے ہیں حصے دار اور
سو مجھے کب مل سکا ہے جس قدر بنتا ہے، جی
لکھنے والا رو رہا ہے جب اسے لکھتے ہوئے
پڑھنے والوں پر کہانی کا اثر بنتا ہے جی
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے گجرات)

۔۔۔
غزل


خون کی تاثیر یوں ناکام ہے
پانچویں دیوار زیرِ بام ہے
فاصلے کا دکھ اگر تسلیم ہو
راستے کی گرد بھی انعام ہے
آگہی سے کون سا عقدہ کھلے
آگہی ابہام در ابہام ہے
اک دیے کی گھورتی لو کے سبب
اک چمکتا چاند بھی بدنام ہے
آپ نے کی ہے مذمت دیر سے
بے وفائی شہر میں اب عام ہے
رتجگے میں صبح مت انڈیلیے!
ہمسروں کے حلق میں اک شام ہے
وہ کسی ساگر کی بپھری موج ہے
یا کسی ساغر میں بہتا جام ہے
(ساگر حضورپوری۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل


خبر تو خیر اسے سب ہے وہ مگر چپ ہے
ڈرو خدا سے خطاؤں پہ بھی اگر چپ ہے
بتاؤکیا ہے بھلا کائنات عشق سوا؟
مرے سوال پہ سارے کا سارا گھر چپ ہے
گواہی صبر کی میرے وہ دے رہا ہے مگر
قصور پیڑ کا کیا اس میں گر ثمر چپ ہے
سکو ت جان کو میری ہے اس کا آیا ہوا
خدا کی خیر ہو کیوں آج نامہ بر چپ ہے
عجیب لوگوں میں اک بے حسی کا عالم ہے
جو ہو رہے ہیں ستم ان پہ بھی نگر چپ ہے
لحد پہ باپ کی شہزاد بیٹھا سوچتا ہوں
زبان سونپی مجھے جس نے وہ شجر چپ ہے
(شہزاد جاوید۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل


اف سامانِ جادہ کرتے ہیں
ہم سفر کا ارادہ کرتے ہیں
عہد جو ہم بھُلا کے بیٹھے تھے
اب اُسی کا اعادہ کرتے ہیں
یہ کرشمہ ہے اُن کے ہاتھوں کا
آبِ سادہ کو بادہ کرتے ہیں
اُس کی رحمت تو ہے وسیع کتنی
ہم بھی دامن کُشادہ کرتے ہیں
یاد کرتے ہیں تیری باتوں کو
بیکلی کو زیادہ کرتے ہیں
جسم جھلسے نہ آرزوؤں سے
ہم توکّل لبادہ کرتے ہیں
مات کا تو یقین ہے ہم کو
پیش اپنا پیادہ کرتے ہیں
جِن کی نیّت میں کھوٹ ہو ساجد
وہ تکلّف زیادہ کرتے ہیں
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


دیکھ اچھا ہوں یا برا ہوں میں
جو بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں میں
اک مری جنگ ہے زمانے سے
دوسرا خود سے لڑ رہا ہوں میں
میرے حصے کی نیند لے گیا وہ
اس کے حصے کا جاگتا ہوں میں
جب کوئی بولتا نہ تھا مجھ سے
خود سے ہی بولنے لگا ہوں میں
تم سے ملتا رہا ہوں روز مگر
خود سے برسوں نہیں ملا ہوں میں
پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وقت کو ڈھونڈتا رہا ہوں میں
زندگی تیرے قید خانے میں
وہ گھٹن تھی کہ مر گیا ہوں میں
( نوید انجم ۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


اندر سے اگر دل کا اشارہ نہیں ہوتا
پھر کوئی ہمارا بھی ہمارا نہیں ہوتا
آنچل کا تقدس بھی تو کرسکتا ہے پامال
بڑھتا ہوا ہر ہاتھ سہارا نہیں ہوتا
ہر شخص کو پلکوں پہ جگہ دی نہیں جاتی
ہر شخص ہمیں جان سے پیارا نہیں ہوتا
بے وجہ اداسی کو مسلط نہ کرو تم
اس گہرے سمندر کا کنارہ نہیں ہوتا
اپنوں کے رویوں سے بھی تھک جاتا ہے انسان
خاموش جو ہوتا ہے وہ ہارا نہیں ہوتا
ممکن ہے تری آنکھ کا دھوکہ ہو یہ فوزیؔ
ہر چیز جو روشن ہو، ستارہ نہیں ہوتا
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


کوئی کسی کی جان بڑی دیر تک رہا
روشن مرا مکان بڑی دیر تک رہا
وہ تو چلا گیا مجھے چھو کر مگر یہاں
زندہ کوئی نشان بڑی دیر تک رہا
یادوں نے اس کی اب مجھے بوڑھا سا کر دیا
بوڑھا بھی یہ جوان بڑی دیر تک رہا
بالکل بھی اس کو مجھ پہ نہیں آرہا رحم
جو مجھ پہ مہربان بڑی دیر تک رہا
میرے اور اس کے بیچ نہ تھا کچھ بھی پر اویسؔ
اک شخص درمیان بڑی دیر تک رہا
(حافظ اویس۔بصیرپور ،اوکاڑہ)

۔۔۔
غزل


جو اتنے داغ ملے ہیں تجھے وہ دھو لے گا؟
تو ایک بار بتا مجھ کو کتنا رو لے گا؟
یہ میرا مسئلہ ہے میں اکیلا رہ گیا ہوں
کہ اُس کا کیا ہے زمانے کے ساتھ ہولے گا
کچھ اس لیے بھی ترے ساتھ میں نہیں رہتا
تومیرا خیال نہ رکھے گا مجھ کو رولے گا
ہمارے بعد تجھے چپ بھلی بھلی لگے گی
ہمارے بعد تُو خود سے بھی کچھ نہ بولے گا
پتہ نہیں ہمیں طارق ؔکب اس کے ہاتھ لگیں
پتہ نہیں کہ وہ کس دن دراز کھولے گا
( محمد طارق عزیز سلطانی۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل


زمیں پہ دیکھو وہ آسماں کو گِرا رہا ہے
یہاں تو رکنا تھا اس نے لیکن وہ جا رہا ہے
یہی دعا ہے نئے سفر میں وہ سُرخرو ہو
نئے محبت کے ضابطے جو بنا رہا ہے
اگرچہ دونوں کے درمیاں کچھ بچا نہیں اب
گلی کے نکڑ پہ دیر تک کیوں کھڑا رہا ہے
تمھاری یادوں سے ہوکے غافل تمھارا شاعر
کئی طرح کی اداسیوں میں گھِرا رہا ہے
اب اس کے ہونٹوں پہ نام میرا کبھی نہ آئے
وہ یاد کر کر کے روز مجھ کو بھلا رہا ہے
کہاں کہاں پر یہ تیری آنکھیں پڑھی گئی ہیں
تُو میری غزلیں کہاں کہاں پر سنا رہا ہے
خلیلؔ سننے کو میرے قدموں کی چاپ اکثر
کبھی تو کھڑکی پہ کان تیرا لگا رہا ہے
(خلیل حسین بلوچ۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
چمکیں ہیں کچھ اس طرح سے دندان وغیرہ
جیسے ہو ستاروں کی کوئی کان وغیرہ
کل تک تو پڑے رہتے تھے پہلو میں ہمارے
جو آج بنے پھرتے ہیں انجان وغیرہ
پہلے ہی قیامت تھے خدوخال تمہارے
سونے پہ سہاگا ہے یہ مسکان وغیرہ
اس وقت ہزاروں میں کوئی ایک ہی ہوگا
کہتے ہیں جسے حضرتِ انسان وغیرہ
لوگوں کے بتائے ہوئے خدشات صحیح تھے
جھوٹے تھے سبھی عشق کے پیمان وغیرہ
اللہ رے، کیا فائدہ درکار ہے مجھ سے
بیکار ہوئے جاتے ہیں قربان وغیرہ
یہ کون سخی گزرا ہے اس راہ سے محسنؔ
دل تھام کے بیٹھے ہیں قدردان وغیرہ
(محسن اکبر۔حجرہ شاہ مقیم)

۔۔۔
غزل


غمِ عشق سے میری رنجور آنکھیں
مُحبت کے ہاتھوں ہیں مجبور آنکھیں
شرابی ، نشیلی و مغرور آنکھیں
بہت تھیں ہماری بھی مشہور آنکھیں
تجھے دیکھنا، بس تجھے دیکھے جانا
اسی کام پر اب ہیں مامور آنکھیں
بہت دل کو بھاتی ہیں اُس کی ادائیں
بہت مجھ کو کرتی ہیں مسرور آنکھیں
دلوں پر حکومت وہ کیسے کریں گے
نہ ہو جن کا مقصد و منشور آنکھیں
مثال اس کی سینؔ ایسی کوئی تولاؤ
کہ چہرہ ہے عنبر تو کافور آنکھیں
(سعد سین۔لاہور)

۔۔۔
غزل
مجھ کو اتنا بتا ضروری تھا
عشق کرنا بھی کیا ضروری تھا؟
ہو گئے ہم ترے تو بھول گئے
کیا نہیں اور کیا ضروری تھا
چھوڑ سکتے تھے ابتدا میں بھی
بیچ میں چھوڑنا ضروری تھا
تم کھلونا بھی توڑ سکتے تھے
کیا یہ دل توڑنا ضروری تھا؟
شاعری میں مٹھاس لانے کو
دل بھی ٹوٹا ہوا ضروری تھا
تم وہاں چپ ہوئے مگر ہمدرد
اُس جگہ بولنا ضروری تھا
(زمان ہمدرد۔ نوشکی، بلوچستان)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔