ذہنی انتشار اور ارتکاز توجہ

شایان تمثیل  اتوار 8 دسمبر 2013
waqar.ahmed@express.com.pk

[email protected]

پاکستان کے جو حالات ہیں ان میں کسی بھی شخص کا ذہنی انتشار میں مبتلا ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں، خاص کر کراچی میں رہنے والے تو طرح طرح کے وسوسوں میں گھرے پریشاں خیالی کا شکار رہتے ہیں۔ اس شہر بے اماں میں کس لمحے کیا ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ 2 دسمبر پیر کی شام ہم بھی نہیں جانتے تھے کہ کچھ شرپسند روزنامہ ایکسپریس کے پرسکون ماحول کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ شام کے تقریباً سوا سات بجے جب اچانک ہی 2 دھماکوں کے ساتھ متواتر فائرنگ کی آواز گونجی تو ایسا لگا جیسے پڑوسی ملک نے ہلہ بول دیا ہو۔ ہمارے آفس کے کمرے کی دیوار عقبی راستے کی جانب ہی ہے جہاں سے دہشت گردوں نے اندر داخل ہونے کا منصوبہ بنایا تھا، خیریت رہی اور شرپسند اپنے عزائم میں ناکام ہوگئے لیکن جو انتشار وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس میں انھیں کسی قدر کامیابی حاصل رہی کہ اس قسم کے حالات کسی بھی نارمل انسان کی پرسکون زندگی کو درہم برہم کرنے اور ذہنی خلفشار کا باعث بنتے ہیں۔

نہ صرف وقوعے میں پھنسے لوگ بلکہ ان سے وابستہ رشتے بھی ذہنی اذیت کا شکار بنتے ہیں اور حالات معمول پر آنے کے بعد بھی واقعے کے اثرات ایک عرصے تک ذہن پر طاری رہتے ہیں۔ ایکسپریس نیوز پر حملے سے متعلق پٹی فوراً ہی چلنا شروع ہوگئی تھی جسے دیکھ کر وابستہ افراد، ساتھی کالم نگاروں اور چاہنے والوں نے پاکستان بھر سے بذریعہ فون خیریت دریافت کی اور حملے پر تشویش کا اظہار کیا۔ کراچی میں رہنے والے ایسے واقعات پر زیادہ متوشش اس لیے نہیں ہوتے کہ یہ اب شہر کے ماحول کا حصہ بنتا جارہا ہے لیکن قریبی متعلقین کا تشویش میں مبتلا ہونا بجا ہے۔ ہمارے پاس اندرون سندھ اور پنجاب کے پسماندہ علاقوں سے جہاں اب بھی امن و امان کی حالت بہتر ہے، قارئین کے خطوط، ای میل اور فون کالز آئیں جن میں بہت زیادہ تشویش کا اظہار کیا گیا۔ آپ لوگوں کی چاہتوں کا شکریہ، ہم اور ایکسپریس کے تمام ساتھی بخیریت اور اپنی صحافتی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں۔

آج کا موضوع ہم نے ذہنی انتشار کو اسی سبب بنایا ہے تاکہ ناگہانی حالات میں منتشر خیالی اور اضطراب سے ذہن کو بچاتے ہوئے جذبات کو قابو میں رکھے جانے پر بحث کرسکیں۔ بظاہر ذہنی انتشار کسی بھی اچانک پیش آنے والے واقعے یا ان چاہے حالات پر اضطراری ردعمل کے طور پر پیش آسکتا ہے لیکن اندرون اس میں کیا مضمرات ہیں وہ آپ تفصیل میں جا کر ہی چھان سکیں گے۔ فی الحال ہم اس بحث کو قطع کرتے ہوئے ارتکاز توجہ پر آتے ہیں۔ ذہنی انتشار اور ارتکاز توجہ دونوں متضاد کیفیتیں ہیں، اگر آپ کا ذہن منتشر ہو تو کسی بھی سوچ پر ارتکاز قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ذہنی انتشار کا علاج ارتکاز توجہ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ارتکاز توجہ کی مستقل مشقیں کرنے والے ناگہانی حالات میں کبھی بھی بوکھلاہٹ یا گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوتے، اضطراری کیفیات کے تحت غلط فیصلے یا عمل نہیں کرتے بلکہ پرسکون رہتے ہوئے ان حالات سے نمٹنے کے لیے راست اقدامات اٹھاتے ہیں جو عام لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آپ منتشر خیالی کا شکار ہیں تو یقیناً آپ کی قوت فیصلہ بھی متاثر ہوگی اور حالات کو سنبھالنے کے بجائے آپ اسے غلط اقدامات سے مزید الجھاتے چلے جائیں گے۔ نفسیات وما بعد نفسیات کے پیرائے میں چاہے انسانی نفسیات ہو یا ماورائی علوم کا حصول، ہم بار بار ارتکاز توجہ کی اہمیت اس لیے دہراتے ہیں کہ یہ مشقیں ذہن انسانی پر بہت تاثر چھوڑتی ہیں، آپ کی شخصیت میں ٹھہرائو، مستقل مزاجی اور قوت فیصلہ کو بڑھاتی ہیں، نیز ماورائی علوم کے حصول میں بھی مہمیز کا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ موضوع چونکہ بہت اہم اور طویل ہے اس لیے مرحلہ وار آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

ارتکازتوجہ Concentration کیا ہے؟ اس سے پہلے عرض کردوں کہ ’’توجہ‘‘ کسے کہتے ہیں۔ توجہ کہتے ہیں کسی خاص نقطے کی طرف شعور کے مسلسل بہائو کو۔ مثلاً اس وقت میرا نقطہ توجہ یہ سطور ہیں جو میرے قلم سے نکل رہی ہیں، یعنی اس وقت میرے شعور کا دھارا سمٹ سمٹا کر صرف ایک موضوع کی طرف بہہ رہا ہے۔ توجہ کی دو قسمیں ہیں، مرکزی اور ضمنی۔ مرکزی توجہ وہ ہے جس پر ذہن پوری طرح مرکوز و مرتکز، یعنی جما ہوا ہے اور ضمنی توجہ وہ ہے جو شعور کے حاشیے پر موجود ہو۔ اس مضمون کی تحریر کے وقت میری توجہ پوری طرح اپنے موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہے لیکن شعور کے حاشیے پر بہت سی سرگرمیاں عمل میں آرہی ہیں، اور گاہ بہ گاہ نظر ادھر بھی اٹھ جاتی ہے اور خیال اس طرف بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ یہ حاشیے کی سرگرمیاں ضمنی توجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کسی شے کی طرف توجہ مبذول کرنے کے اسباب خارجی بھی ہوتے ہیں داخلی بھی۔ خارجی مہیجات بہت سے ہوسکتے ہیں مثلاً پرشور آواز یا کسی چیز کی فراخی و وسعت جیسے سمندر کی چوڑائی اور پہاڑ کی اونچائی یا کوئی نمایاں خصوصیت جیسے بے حد لمبا یا ٹھگنا آدمی، یا شدید حرکت جیسے ہوائی جہاز کی پرواز، انوکھی بات، کوئی مضحکہ خیز حرکت یا کوئی نظر فریب منظر مثلاً کسی چہرہ زیبا کا نگاہ شوق کی تمام تر توجہات کو اپنی طرف مبذول کرلینا۔ منفی توجہ کو تغافل کہتے ہیں یعنی جان بوجھ کر اپنی توجہ کو کسی نقطے سے ہٹا لینا۔ درحقیقت توجہ اور تغافل ایک ہی سلسلہ عمل کی دو کڑیاں ہیں۔

عام طور پر ہماری توجہ حواس خمسہ کے عمل کے ساتھ بہتی رہتی ہے۔ آنکھ نے کوئی منظر دیکھا، توجہ اس طرف مبذول ہوگئی، پردہ سماعت سے کوئی آواز ٹکرائی توجہ کا رخ ادھر پھر گیا، ناک نے کوئی بو سونگھی تو وہی مرکز توجہ بن گئی۔ توجہ کے ان اعمال کا تعلق عملی شعور سے ہے۔ عملی شعور، زندگی کی سرگرمیوں (کھانا، پینا، چلنا، پھرنا، سونا، جاگنا وغیرہ) کو منظم کرنے والی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے اور ننانوے اعشاریہ نو فیصد، آدمی کی تمام ذہنی طاقت اور دماغی فعلیت عملی شعور کی نذر ہوجاتی ہے۔ عملی شعور دو اور دو چار کے اصول پر کام کرتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو زندگی کی مشین ایک لمحے میں ٹھپ ہوجائے، زندگی کے تمام ہنگامے، تہذیب و تمدن کی تمام سرگرمیاں، صنعت و تجارت کے تمام کارخانے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے تمام عظیم شاہکار عملی شعور کے معجزے ہیں۔ عملی شعور کی اہمیت سے نہ آج تک کوئی منکر ہوا ہے نہ کبھی ہوسکتا ہے، تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی ذہن کے ممکنات، یعنی یہ امکان اور اندازہ کہ ہم اپنی صلاحیتوں سے کیا کام لے کر کیا کیا کرسکتے ہیں اور کیسے کیسے انقلاب لاسکتے ہیں، ابھی انسان کی نظر سے اوجھل ہیں۔ پچھلی ان گنت صدیوں میں انسان نے اپنی ذہنی صلاحیتوں اور دماغی قوتوں سے بے شک حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ظہور آدم کے وقت وہ بن مانسوں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتا تھا، آج  مریخ کا فاتح ہے، تاہم بنی آدم کی یہ ترقی اور پیش رفت ارتقائے انسانی کی لامحدود منزل میں پہلے قدم کی حیثیت رکھتی ہے، اس کا دوسرا قدم کیا ہوگا؟ ہم اس سلسلے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتے۔

(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔