الوداع اور خوش آمدید

ایم جے گوہر  اتوار 8 دسمبر 2013
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ تقدیر اوردعائیں کسی کو نظر نہیں آتیں لیکن یہ دونوں چیزیں ناممکنات کو بھی ممکن اور یقینی بنادیتی ہیں اس کی تازہ مثال نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تعیناتی سے دی جاسکتی ہے جنھیں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آئین کے تحت حاصل اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے دو سینئر جرنلوں پر ترجیح دی اور پاک فوج کا نیا سپہ سالار مقرر کردیا۔ جنرل راحیل کی قسمت کا ستارہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور ان کی بزرگ والدہ کی پرخلوص دعائیں بھی ان کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا موجب بنیں اور پاک فوج کی کمان کا تاج ان کے سر پر سجا دیا گیا۔ جنرل راحیل شریف کو دنیا کی بہترین فوج کی سپہ سالاری مبارک ہو۔ نئے آرمی چیف کے سامنے کڑے امتحانوں، آزمائشوں اور مشکل چیلنجوں کا ہمالیہ کھڑا ہے جو ان کی خداداد صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ پوری قوم حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ پاک فوج کی پشت پر آہنی دیوار بن کر کھڑی ہے اور دعا گو ہے کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوسکے۔

نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کے بعد اگرچہ تجسس و ابہام ختم ہوگیا، قیاس آرائیوں، پیش گوئیوں اور افواہوں کا دروازہ بند ہو گیا۔ دعوؤں، اندازوں اور گمان کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ اگر آپ دنیا کے مہذب، باوقار، جمہوری اقدار کی پاسداری اور آئین و قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے ملکوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہاں ادارے مستحکم اور اقدار و روایات اہم ہوتی ہیں نہ کہ شخصیات کے نظریے۔ اصول اور ضابطوں کی پاسداری کی جاتی ہے نہ کہ پامالی۔

یہی وجہ ہے کہ وہاں میرٹ اپنا راستہ خود بناتا ہے نچلے درجے سے اعلیٰ ترین منصب تک تبدیلی، تقرری و تعیناتی کے لیے کسی سفارش، اقربا پروری اور چاپلوسی کا کہیں کوئی وجود نہیں اور نہ ہی میڈیا کو کسی ’’خبر‘‘ کا انتظار ہوتا ہے اور نہ عوام کو کسی منصب پر تعیناتی سے کوئی دلچسپی کیونکہ سارے معاملات اپنی رفتار،وقت اورحالات کے مطابق چلتے رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عوام سے لے کر خواص تک اور پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک سب کے سب ہر خبر پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے خیالی پلاؤ کی دیگ پکانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جیسے کسی منصب پر تعیناتی ان کی ذاتی پسند و ناپسند اور انا و بقا کا مسئلہ ہو۔ صدر سے لے کر وزیر اعظم تک اور چیف جسٹس آف پاکستان سے لے کر چیف آف آرمی اسٹاف تک ہر تقرری کا پوری قوم بڑی بے صبری و بے چینی سے انتظار کرتی ہے کہ ’’طاقت‘‘ اور ’’اختیارات‘‘کا ہما کس کے سر بیٹھے گا۔ اس تجسس اور ابہام کی بنیادی وجہ اداروں کا عدم استحکام، روایات کی پامالی، سیرت سے صرف نظر، اصول و نظریے کی بے توقیری اور شخصیات کو ہی اہم ترین سمجھا جانا ہے۔ اسی باعث چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی وطن عزیز میں ریاستی اداروں کا استحکام تشنہ تعبیر ہے، جمہوریت پورے قد کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے کوشاں ہیں ماضی میں شب خوں مارنے کی تلخ یادیں پیچھا نہیں چھوڑتیں اور امکانی خدشات و خطرات کی تلوار سروں پر لٹکتی رہتی ہے۔

تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے 6 سالہ دور میں نہایت دانشمندی، سنجیدگی، بردباری اور پیشہ ورانہ اپروچ کا شاندار عملی مظاہرہ کیا جس کی ہر مکتب فکر کی جانب سے تحسین کی جا رہی ہے۔ اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے خطے کے حالات کے تناظر میں جنرل کیانی نے بڑی ثابت قدمی اور سوچ بچار کے بعد فیصلے کیے 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں جنرل کیانی کی قیادت میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے قیام امن کے لیے بڑی قربانیاں دیں جنھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

جنرل کیانی خاموش طبع، کم گو اور لٹریسی مزاج کے حامل تھے مطالعے کا بے حد شوق رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ملک کے سیاسی ماحول کو وہ اچھی طرح سمجھتے تھے سیاسی حرکیات و جزئیات پر ان کی گہری نظر تھی انھوں نے کسی مہم جوئی کی بجائے ملک میں سیاسی و جمہوری نظام کے استحکام کو ترجیح دی اگرچہ بعض عاقبت نااندیش لوگوں نے اپنے ’’قیمتی مشوروں‘‘ سے جنرل کیانی کو اکسانے کی بڑی کوششیں کیں کہ کسی صورت وہ پی پی پی کی حکومت کا تختہ الٹ دیں یا کم ازکم صدر آصف علی زرداری کو ہی ایوان صدر سے باہر نکال دیں۔ بعض ’’دانا لوگ‘‘ تو صدر زرداری کے جانے کی ’’ڈیڈ لائن‘‘ کی گردان بھی کرتے رہے لیکن جنرل کیانی نے جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا اور فوج کو سیاسی آلودگیوں سے بچائے رکھنے کا عہد نبھایا۔ بعینہ پی پی پی حکومت نے بھی ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کیا کہ فوج کو ’’ٹیک اوور‘‘ کا جواز مل سکے کیونکہ سابق صدر زرداری اپنی مفاہمانہ پالیسی کے تحت نہایت تدبر، تحمل، حکمت اور سیاسی بصیرت کے ساتھ اتحادی جماعتوں کے تعاون سے جمہوریت کے استحکام، پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی پاسداری کے فلسفے پر عمل پیرا رہے۔ ایک وزیر اعظم نے قربانی دے کر عدالتی فیصلوں کے احترام کی مثال قائم کی اور جمہوریت کی ٹرین کو پٹری سے اترنے نہیں دیا اور نہ ہی عسکری قیادت کو کسی ’’ایڈونچر‘‘ کا موقع فراہم کیا۔ یہی وجہ ہے جنرل کیانی کے ساتھ صدر زرداری کو بھی ملک میں جمہوری استحکام کے قیام کا کریڈٹ دیا جاتا ہے خود وزیر اعظم میاں نوازشریف بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کے لیے بھی دیگر بے شمار چیلنجوں کے پہلو بہ پہلو ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل اور استحکام کو یقینی بنانے کا چیلنج درپیش ہوگا۔

مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق جنرل راحیل شاندار سروس ریکارڈ کے حامل اور مکمل پیشہ ورانہ اپروچ رکھنے والے فوجی ہیں۔ اگرچہ میاں صاحب ماضی میں اپنے ہاتھ سے تقرر کرنے والے جنرلوں سے زخم کھائے ہوئے ہیں تاہم جنرل راحیل کی تقرری پر انھیں یقینا بڑا بھرپور اعتماد ہوگا۔ لیکن میاں صاحب کو بھی کچھ نہ کچھ ’’ڈلیور‘‘ کرنا ہوگا، گڈ گورننس کو یقینی، عوام کی توقعات پر پورا اترنے، ریاستی اداروں کے درمیان توازن برقرار رکھنے اور دہشت گردی کے خاتمے، امن کے قیام کے لیے ٹھوس، جامع اور مربوط حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ میاں صاحب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آئین میں ریاستی اداروں اور ان کے سربراہوں کے کردار اور دائرہ کار کا بڑی صراحت سے تعین کردیا گیا ہے لیکن پاکستان کے مخصوص سیاسی و حکومتی نظام میں ’’طاقت‘‘ اور ’’اختیارات‘‘ کے حوالے سے سب کا اپنا اپنا ’’حصہ‘‘ ہے جو اسے نہ ملے تو پھر توازن بگڑ جاتا ہے اور بات پھر میرے عزیز ہم وطنو تک پہنچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں بہرحال پوری قوم شاندار الفاظ میں جنرل کیانی کو الوداع اور جنرل راحیل شریف کو خوش آمدید کہہ رہی ہے جو خوش آیند بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔