BLACK

ڈاکٹر عفان قیصر  اتوار 8 دسمبر 2013
www.facebook.com/draffanqaiser

www.facebook.com/draffanqaiser

سیانے کہتے ہیں کالے رنگ پر کوئی دوسرا رنگ نہیں چڑھا کرتا۔افریقہ سے دریافت ہونے والے انسانی ہڈیوں کے پتھر تقریبا سترلاکھ سال پرانے ہیں۔کالوں کے اس دیس میں ابدی غلامی، ظلم اور بربریت کے مظالم سہنے کی ایک تاریخ پنہاں ہے۔سیاہ فام غلاموں کی تاریخ مصر کے فرعون بادشاہوں سے بھی پرانی ہے۔مگر تاریخ کی کتابوں میں ان پر ڈھائے مظالم کی داستانیں اہرامِ مصر کی تخلیق سے ہی شروع کی جاتی ہیں ۔مختلف علاقوں سے یہاں امراء آتے اور سیاہ فام مرد ، عورتیں،بچے خرید کر غلام بنا کر لے جایا کرتے۔یہی سیاہ فام انسانی اسمگلنگ کی بنیاد بنے۔صحرائے سہارا کے اطراف ان کی اسمگلنگ کی جاتی رہی اور یوں یہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔یہ ایشیاء، یورپ اور امریکا میں بہت بڑے پیمانے پے اسمگل کیے گئے۔افریقہ کا زیادہ تر حصہ جو پہلے سوڈان اور ایتھوپیا پر مشتمل تھا، اب تقریبا 54 ریاستوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ ان میں کانگو، سوڈان، ایتھوپیا، صومالیہ، یوگنڈا، نیمیبیا، نائیجیریا، کینیا، شام،مصر اور سائوتھ افریقہ سرِفہرست ہیں۔افریقہ کو جہاں دنیا نے کالے رنگ کی وجہ سے نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور غلام بنایا وہیں قدرت  نے بھی افریقہ پر بیماریوں کی صورت میں عذاب نازل کیے۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ٹی بی، ملیریا، ایڈز سمیت اکثر بیماریوں کا مرکز افریقہ ہی  تھا ۔میڈیکل ماہرین بھی اس بات سے متفق ہیں کہ دنیا بھر کے خطرناک ترین Virus افریقہ ہی میں دریافت ہوئے ہیں۔ان میں انتہائی جان لیوا کانگو وائرس اور ایچ آئی وی سرِفہرست ہے۔

5  دسمبر 2013ء کو دنیا سے ایک اور مارٹن لوتھر سیاہ فام غلاموں کو دنیا میں برابری کے حقوق دلانے کی جنگ لڑتا لڑتا زندگی کی بازی ہار گیا۔Apartheid نامی ایک  نظام دوسری جنگِ عظیم کے بعد افریقہ  میں رائج کیا گیا۔اس میں انسانوں کو گوروں،سیاہ فام، Colored اور انڈین نسلوں میں تقسیم کیا گیا۔اس نظام نے سیاہ فاموں کو ایک بار پھر مصر کے فرعونی دور میں دھکیل دیا۔سیاہ فام پہلے بھی پوری دنیا میں شدید نسلی امتیاز کا شکار تھے مگر اس نظام کے بعد ہر انتہا پار ہوگئی۔اس کا اثر پوری دنیا پر نظر آنے لگا۔ اگر کوئی سیاہ فام  غلطی سے گوروں کی بس میں سوار ہوجاتا تو اسے ماردیا جاتا۔نہ یہ ووٹ ڈال سکتے تھے اور نہ ہی کسی ایسے پارک یا سینما کا رخ کرسکتے تھے کہ جہاں گوروں کا راج ہو۔الغرض افریقہ سمیت پوری دنیا ہی ان کے لیے تنگ پڑگئی۔نیلسن منڈیلا  نے اس نظام کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی پوری زندگی سیاہ فام نسل کے نام کردی۔نیلسن نے اپنی جوانی کے 27 سال اسیری میں کاٹے جن میںRobben Island کی قید کے 18 اذیت ناک سال بھی شامل ہیں۔

نیلسن نے جیل کے اندر سے بھی اپنی جماعت African National Congress کی آبیاری جاری رکھی اور بالآخر 10 مئی 1994ء کو نیلسن جب سائوتھ افریقہ کا صدر منتخب ہوا تو  آخری سانسیں لیتا Apartheid  نظام بھی دم توڑ گیا۔سیاہ فام نسلوں کو پنجروں سے باہر ایک عزت دار زندگی دینے کا خواب دیکھنے والا  مارٹن لوتھر امریکا میں ہی قتل کردیا گیا تھا، اور Apartheid نظام کے خلاف نسلی امتیاز کی جنگ لڑتے لڑتے یہ نیلسن بھی  آج سیاہ فام نسل کو لاوارث کرگیا۔  نیلسن کی عمر چودہ برس تھی تو معالجوں نے بتایا کہ اسے ہڈیوں کی ٹی بی ہے، اور زندگی بچانے کے لیے اس کی ٹانگ کاٹنا ضروری ہے۔ سترہ برس کی عمر میں اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی۔ کرب و ملال کی اس کیفیت میں اس نے ایک نظم کہی جو برسوں بعد بھی زندہ ہے۔ انگریز شاعر ولیم ارنسٹ ہینلے اور ان کی مشہور زمانہ نظم “Invictus” میں بھی اس نظم کا تذکرہ ہے۔ اپنی کرب ناک بیماری سے لڑتے ، جیل کی سلاخوں کے پیچھے نسلی امتیاز  کی مایوسی میں گھِرے  نیلسن نے خود کو حوصلہ دینے کے لیے’ ناقابلِ شکست ‘کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔اس کے چند اشعار پوری سیاہ فام نسل کی ترجمانی کرتے ہیں۔

حالات نے اپنی گرفت میں جب بھی مجھے جکڑا

نہ تو میں گھبرایا اور نہ ہی بَین کیا

مقدر کی پیہم ضربوں تلے

میرا سر خون آلود ہے مگر جْھکا نہیں

ایتھوپیا میں بھوک ، افلاس ، بیماری سے لڑتے سیاہ فام اور لندن کی گلیوں میں راہ زنی کرتے سیاہ فام ، سب آج بھی دنیا کی بے حسی کا ثبوت ہیں۔یہ دنیا کتنی دوغلی ہے۔ یہ ایک طرف تو نیلسن کو نوبل انعام سے نوازتی ہے،ایک سیاہ فام مسلمان کو صدی کا بہترین کھلاڑی قرار دیتی ہے، ایک سیاہ فام کو دنیا کی سپر پاور کا صدر منتخب کر لیتی ہے۔ تو دوسری طرف یہ دنیا آج بھی سیاہ فام نسل کو نہ تو بیماری اور افلاس سے نکالنے کو تیار ہے اور نہ یہ سوڈان،ایتھیوپیا کے قحط میں بھوک سے بلبلاتے بچوں کے منہ میں نوالا ڈالنے کو تیار ہے۔آج بھی سیاہ فام نسل کو لندن کی گلیوں میں اسی حقارت سے دیکھا جاتا ہے جیسا آج سے صدیوں پہلے ان کو یورپ کی منڈیوں میں دیکھا جاتا تھا۔آج بھی انسانی اسمگلنگ کے نام پر جسم فروشی کے لیے دنیا بھر کی سستی منڈیوں میں اسمگل کی جانیوالی لڑکیوں میں زیادہ تعداد ان ہی غریب افریقی ممالک کی ہی ہے۔آج بھی اولمپکس میں جب کوئی سیاہ فام کسی گورے کو چیرتا میلوں آگے نکل جاتا ہے تو میرے والد ہمیشہ ہرن اور شیر کی مثال دہراتے ہیں کہ سیاہ فام ایک ہرن ہے جو زندگی کے لیے دوڑ رہا ہے۔گورے کو تو شیر کی طرح صرف بھوک  لگی ہے۔ آج نیلسن کے جانے کے بعد اس لاوارث سیاہ فام  نسل کا مستقبل کیا ہوگا؟  ان گورے شیروں کی نسلی امتیاز کی بھوک کب ختم ہوگی ؟ کوئی نہیں جانتا۔ سیانے صحیح کہتے ہیں کالے رنگ پر کوئی دوسرا رنگ نہیں چڑھا  کرتا۔کیوں کہ سیاہ فام چاہے امریکا کا صدر منتخب ہوجائے یا ایتھوپیا میں اسے بیماری اور بھوک کھا رہی ہو۔دنیا کی نظر میں آج بھی یہ کالے غلام ہی ہیں اور دنیا انھیں ایک ہی نام سے جانتی ہے  ـ’BLACK‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔