جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم

شاہد سردار  اتوار 14 جون 2020

یہ بات کسی کے فہم میں کبھی نہ ہوگی کہ ایک وقت اقوام عالم پر ایسا بھی آئے گا جس میں اس کا دشمن کوئی انسان نہیں بلکہ ایک وائرس یا جرثومہ ہوگا، اور طاقتور ممالک اس سے اس قدر متاثر ہوں گے یا مختصر سے عرصے میں اس سے جو تباہ کاریاں ہوں گی وہ اتنے عرصے کے دوران جنگ عظیم میں بھی شاید نہ ہوئی ہوں۔

کسی کے گمان میں یہ بھی نہ تھا کہ مسجد نبوی خالی کرا لی جائے گی، خانہ کعبہ میں نمازی عبادت نہ کرسکیں گے۔ درجنوں مساجد میں باجماعت نمازوں پر پابندی لگانی پڑے گی اورکبھی خیال میں بھی یہ نہ آیا ہوگا کسی کو کہ ٹرمپ سورہ فاتحہ کا ترجمہ پڑھ کر آسمانی خدا سے دعا اور مدد مانگے گا، کسی کی فراست میں بھی یہ نہ ہوگا کہ دنیا کے سوا چار ارب انسان گھروں میں نظر بند ہو جائیں گے۔

امریکا جیسے سپر پاور ملک کے سوا کروڑ لوگ بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دیں گے، برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک کی حکومتیں اپنے شہریوں کی مالی اعانت کریں گی اور امریکا، برطانیہ اور یورپ کے مردہ خانے لاشوں سے بھر جائیں گے اور یہ بھی کسی کے دل و دماغ میں نہ ہوگا کہ ایٹم بم بنانے والے وینٹی لیٹر بنا رہے ہوں گے اور میزائل اور جنگی طیارے اور آبدوزیں بنانے والے ماسک، دستانے اور سینی ٹائزر بنانے لگیں گے۔

اس ہولناک حقیقت سے بھی لوگ غافل تھے کہ وطن عزیز میں 2 کروڑ سے زائد افراد کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگار ہوجائیں گے۔ ایسے ایسے سفید پوش اس سیلاب میں اپنی عزت نفس کے ساتھ ڈوبے ہیں کہ جی جانتا ہے۔ افسوس کہیں سے کوئی مدد ، تحفظ ، ریلیف یا امداد دیہاڑی دار طبقے تک نہیں پہنچا۔ بھوک، بے روزگاری، افلاس کے تپتے سورج نے پاکستان میں بالخصوص لوگوں کو جھلسا کر ان کی شناخت مٹا دی۔ خالی جیب اور خالی کچن کا مرثیہ سینہ پیٹ پیٹ کر ہرگھر کا مقدر بن گیا۔ اگرکبھی مکمل لاک ڈاؤن ختم ہوا تو ہمارے ملک میں وہ ہولناک اورگلا دینے والی مہنگائی کا طوفان آئے گا جس کو محسوس کرکے ہی روح تھرا رہی ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے درست حکمت عملی وضع نہیں کی جاسکی۔ سخت ، نرم ، جزوی یا اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح نے ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑکر رکھ دیا۔ لاک ڈاؤن کے غلط اور طویل دورانیے یا تکرار نے لوگوں کی غالب اکثریت کو ذہنی مریض بنا دیا۔ کورونا کا اثر 210 ملکوں میں رہا لیکن ہمارے وزیر اعظم دنیا کے واحد حکمران ہیں جنھوں نے لاک ڈاؤن میں پھنسے لوگوں سے بھی چندہ مانگا، حالانکہ ہمارے ملک میں روزانہ اس سے دگنا ٹول ٹیکس جمع ہو جاتا ہے حکومت کے پاس۔ جمہوری ملک ہونے کے ناتے وزیر اعظم کا عہدہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ہر اچھے برے وقت میں قوم کے ساتھ کھڑے رہیں لیکن ہوا اس کے برعکس۔

کورونا کی عالمگیر وبا اور ملک اس کی وجہ سے لاک ڈاؤن بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک کڑا امتحان ہے جو پاکستان کے مستقبل کی تاریخ میں اپنے سربراہ کا نام سنہری حرفوں سے رقم بھی کرا سکتی ہے اور ان کے نام کو مٹا بھی سکتی ہے۔ حکومتی مشینری کی نالائقی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اب تک کہیں بھی متاثرین کو ریلیف دینے کے پروگراموں کا کوئی ڈیٹا کہیں موجود نہیں، بیرون ملک سے آنے والا طبی سامان کہاں گیا اور کیسے اورکسے تقسیم ہوا، جہازوں سے اتارے جانے والے سامان کے ٹرک کہاں گئے، اربوں ڈالر کی امدادی رقوم قومی خزانے سے کس مصرف میں منتقل ہوئیں، اس کا بھی کوئی حساب نہیں۔

عام اسپتالوں میں نہ ہی وینٹی لیٹر آئے اور نہ ہی ماسک اور دیگر حفاظتی سامان یا لباس کسی متاثرہ فرد تک پہنچا۔ کوئی حقیقی آڈٹ یا احتساب اب تک دکھائی نہیں دیا، اگر فلاحی یا خیراتی ادارے نہ ہوتے تو شاید بھوکے اور ضرورت مند افراد کے غصے کو کنٹرول کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔کورونا اور اس حوالے سے حدوں کو تجاوزکرتی بھوک، افلاس، بے روزگاری اور بیشتر لوگوں کی اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس حوالے سے خودکشیاں یہ سب حکومت وقت کی ناکامیاں کہلا رہی ہیں اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

کورونا کے حوالے سے اب وطن عزیز میں ایک سوال بڑی تیزی سے سر اٹھا کر جابجا لوگوں کی زبان پر ہے کہ کورونا محض ڈھکوسلا یا ڈرامہ ہے اور ہماری حکومت اس کی آڑ میں عالمی امداد سمیٹنا چاہ رہی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان میں مرنے والا کسی بھی عارضے میں مرے، اسپتال اور ڈاکٹر اسے کورونا سے مرنے کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اور شوبز انڈسٹری میں آج تک کورونا کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا، چرند، پرند، چوپائے یا دیگر جانور بھی کورونا کی زد سے محفوظ چلے آ رہے ہیں اور یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جو ممالک کورونا سے حد درجہ متاثر ہوئے وہاں پر افراتفری، عدم اعتماد اور خوف وہراس پاکستان جیسا کیوں نہیں تھا یا ہے؟

لوگ اب یہ بھی ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت جو امریکی یہودیوں کے نو دس اداروں کے پاس ہے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے پوری دنیا کو مفلوج بنانا چاہتے تھے اور وہ اس پرکافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں اس لیے یہ وائرس کا معاملہ شکوک و شبہات سے بھرپور ہے۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کی اکنامی تقریباً زمیں بوس ہوچکی، صرف ایئرلائن کی صنعت کو 60 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایک کروڑ پچھتر لاکھ ملازمین کو کورونا اور لاک ڈاؤن کے نام پر بے روزگار کرکے گھر بٹھا دیا گیا ہے ہمارے ملک میں گزشتہ تین سالوں میں تین ہزار لوگوں نے بھوک، افلاس سے تنگ آکر خودکشیاں کیں اور پنجاب کے مختلف شہروں میں بیسیوں غربت کے ماروں نے اپنی اولادیں فروخت کردیں۔

حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔‘‘ ہمارے ہاں تو قدم قدم پر ظلم ہو رہا ہے۔ ہم کیسی قوم، کیسے مسلمان ہیں۔ ایک جانب صرف پانچ فیصد لوگوں کے کتے، بلیاں ولایتی خوراکیں اور غیر ملکی پانی پی رہے ہیں، ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں وہ رہ رہے ہیں جب کہ دوسری طرف بھوکے، ننگے انسان، بھوک، ننگ یا افلاس کے ہاتھوں اپنی جان جانِ آفریں کے حوالے کر رہے ہیں۔

یہ کیسا ملک ہے جہاں قانون کی پاسداری کمزوری کی علامت سمجھی جاتی ہے، قطار یا اصول قاعدے بنانا اور اس پر عمل کرانا ہمیں اپنے وقارکے منافی نظر آتا ہے۔ ہم نعرے تو زندہ قوم ہونے کے لگاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم قوم نہیں محض انسانوں کا ہجوم ہیں جس میں ہر ورائٹی کی مخلوق ملتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔